منی پور:آتش کدہ ہنوز سلگ رہا ہے

0

پچھلے 6ہفتوںسے منی پور میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ گزشتہ 76سال سے شمال مشرقی علاقوں کی 7ریاستوں میں اگرچہ نسلی،قبائلی اورلسانی رقابتیں اور تصادم نئی نہیں ہیں مگر اس کے باوجود منی پور کے حالیہ تنازع نے ملک کے طول وعرض میں ایک ہیجان سا برپا کردیا ہے۔ انتہائی پیچیدہ سماجی اور اقتصادی وابستگیوں والی منی پور ریاست میں میتی اور قبائلیوں میں سیاسی بالادستی کو لے کر کشمکش نے بھیانک روپ اختیار کیا ہے وہ فی الحال کم ہوتا نظرنہیں آرہا ہے۔ منی پور میں اس وقت 32لاکھ کی آبادی ہے جن میں 52فیصد میتی ہیں جبکہ 40فیصد آبادی کا تعلق مختلف قبائل سے ہے۔ ریاست کے حکومتی وآئینی اداروں میں سیاسی نمائندگی کو لے کر دونوںطبقات میں اختلافات اورچپقلش تو ہے ہی مگرحالیہ دنوں میں یہ تنازع اس لئے اس قدر بھیانک روپ اختیارکرلیا کہ ایک بڑی قبائلی آبادی کو محفوظ مقامات پر زبردستی منتقل کیا گیا ہے۔ آبادی کے اتنے بڑے پیمانے کے تبادلے کی وجہ سے روزمرہ کی زندگی تومتاثرہوہی رہی ہے ساتھ ہی ساتھ کئی مقامات پر عام آدمی کو ادویات، غذائی اجناس اور پانی تک میسر نہیں ہے۔ اتنے بڑے پیمانے اور اچانک آبادی کے منتقل ہونے کی وجہ سے ہر سطح پر افراتفری ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔
شمال مشرقی علاقوں کے مختلف صوبوںکی طرح منی پور میں بھی اسمبلی میں نمائندگی کو لے کر ناانصافی کا احساس ہیں۔ منی پور اسمبلی میں 60سیٹیں ہیں اور میتی برادری کو تقریباً دوتہائی سیٹوں پر اپنے لوگوںکو کامیاب کرانے میں آسانی ہوتی ہے۔ موجودہ صور ت حال یہ ہے کہ 60میں سے 40کا تعلق میتی برادری سے ہے جبکہ باقی سیٹوںپر کوکی اورناگا ہیں۔ قبائلی اور ناگا لوگوں کو لگتا ہے کہ ریاست میں جو بھی فیصلے کئے جارہے ہیں ان کو ان فیصلوں سے باہر رکھا جارہا ہے۔ میتی کا کہنا ہے کہ کوکی قبائل کو مراعات کی وجہ سے زمین کی خرید و فروخت میں بڑے پیمانے پر آزادی حاصل ہے اور وہ اپنی مرضی سے زمینیں خرید اور بیچ سکتے ہیں جبکہ میتی برادری کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے اوراسی وجہ سے دونوں طبقات میں زبرست رقابت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میتی برادری کاکہنا ہے کہ وہ ریاست کے وسائل سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں۔ جبکہ کوکی اور دیگر قبائل تمام قدرتی وسائل بطور خاص جنگلات سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں جو پرتشدد وارداتیں بھڑکی تھیں ان کے پس پشت یہی تمام شکایتیں ہیں۔ منی پور ہائی کورٹ کی یک نفری بنچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ میتی برادری کو بھی قبائلی درجہ دینے پر غور کیا جائے کیونکہ یہ مطالبہ بہت پرانا ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ مشورہ ان معنوں میں بھڑکانے والا تھا کہ سیاسی طورپر اپنے آپ کو حاشیہ پر محسوس کرنے والی قبائلی برداریاں اور طبقات کو یہ لگتا ہے کہ آگے چل کر ان سے رہے سہے وسائل اور زندگی بسر کرنے کے اسباب چھین لئے جائیںگے اور کوکی برادری سیاسی طورپر مستحکم اور بااثر ہونے کی وجہ سے ان کو مزید پس منظر میں دھکیل دے گی۔
دراصل شمال مشرقی علاقے کے اس سرسبز وشاداب خطے میں زراعت میں فصلوں کے انتخاب کو لے کر نئی صورت حال پیدا ہوئی ہے اور ریاستی حکومت نے کچھ گاوئوںاور دیہی علاقوں کو محفوظ قرار دے کر ان کو اپنی نگرانی میں کرنے کے فیصلے کرنے شروع کردیے تھے۔ دراصل منی پور ان چند ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں پر افیون کی کھیتی کو لے کر کئی غیرمعمولی فیصلے کئے گئے ہیں اور کئی مقامات پر افیم کی کھیتی کو ادویات کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ اجازت ان معنوں میں غیرمعمولی ہے کہ اس کی وجہ سے افیم کی کھیتی کرنے والوں کو زبردست مالی فائدہ ہوتا ہے۔ دونوں برادریوںمیں اس تنازع کو لے کر ریات میں کافی اختلافات رائے اور جھگڑے فساد دیکھنے کو ملے ہیں کیونکہ کوکی برادری کو سیاسی حلقوں میں بالادستی حاصل ہے اس وجہ سے کئی ایسے اقدام پر عمل ہوا ہے جوکہ قبائلی طبقات کے حق میں نہیں جاتے ہیں۔
زمینی سطح پر کام کرنے والے کئی رضاکاراداروں کا کہنا ہے کہ زمین پر اختیار اور حقوق کے معاملے میں یہ تنازع آگ میں گھی کا کام کر رہا ہے۔ اسی سال فروری کے مہینے میں منی پور نے کوکی قبائل کے کچھ علاقوں کو زبردستی خالی کرا لیا۔ ان قبائلیوںکو اپنے پرانے مکانات اور زمین سے بے دخل کرکے دوردراز کے سرحدی علاقوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس قدم کے خلاف کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔ خاص طورپر کنگپنی مائوسین ، سونگی جانگ کے مکینوں کوکی قبائلیوںکو پولیس کی مدد سے زبردستی چوراچوندپور میں لاکر بسا دیا گیا ہے۔ یہ علاقے جنگلاتی علاقے ہیں۔ محکمہ جنگلات نے اس بابت اٹھنے والے سوالات پر اپنی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ جن علاقوں سے کوکی قبائلیوں کو ہٹایا گیا ہے وہ 1966سے ہی محفوظ جنگلات کے زمرے میں شامل ہیں۔ ان کا قیام جنگلاتی قانون یعنی فاریسٹ کنزرویشن لا کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان مقامات پر رہ رہے تھے۔ اس کے علاوہ جس علاقے میں کوکی برادری کو لاکر بسایا گیا ہے وہ ریاستی حکومت نے 2021میں بسایا تھا اور یہ نئی بستیاں کوکی قبائلی لوگوں کو محفوظ جنگلاتی زمین سے ہٹاکر یہاں بسانے کی منصوبہ بندی تھی۔
اس کے علاوہ بی جے پی کی ریاستی حکومت نے غیرقانونی طورپر مقیم افراد کو ان علاقوں سے نکالنے اور ان کی شناخت کرکے ملک سے باہر بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ غیرقانونی تارکین وطن زیادہ میانمار سے آئے ہیں۔ خیال رہے کہ میانمار میں کئی سالوں سے روہنگیا مسلمانوں پر تشدد کی لہر ہے اور وہاں کے روہنگیا ان علاقوں میں آکر بس گئے ہیں۔ ظاہر ہے ہندوستان کی سرکار روہنگیا غیرملکیوں کے خلاف مہم چلاکر ریاست کو پاک وصاف کرنا چاہتی ہے۔ ان تمام امورکو لے کر منی پور میں ہنگامہ ہورہا ہے۔ چونکہ موجودہ حکومت کافی حد تک قبائلی علاقوں سے رابطہ نہیں رکھ سکی اور ان کو یہ شکایت ہے کہ قبائلیوں کی موروثی زمین کو بغیر سوچے سمجھے 20فروری سے ہی نونی فاریسٹ ڈویژن اور ریاستی پولیس کے افسران خالی کرانے پر آمادہ ہیں۔ منی پور کے قبائلی علاقوںمیں زمین خاندان کے سب سے بڑے شخص کو منتقل ہوتی ہے اور قبائلی قوانین کے تحت ہی زمین کی تقسیم ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس تقسیم میں ریاستی سرکار کا بظاہر کوئی عمل دخل نہیں ہے مگر نئے قوانین کے ذریعہ قبائلی علاقوں کو وہاں کے قدیمی قبائلی مکینوں سے خالی کرانا اس خوںریزی کا بنیادی سبب ہے۔ مقامی قبائلی لیڈر اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے اپنے تمام وسائل اور اداروں سے رابطہ قائم کرکے حکومت کی موجودہ پالیسی سے محفوظ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیشنل کمیشن فار شیڈول ٹرائب میں منی پور کے قبائلیوں نے شکایت درج کراکر کمیشن کی مداخلت کی اپیل کی تھی اور درخواست کی تھی کہ منی پورکی سرکار کو اس کارروائی سے روکا جائے۔ اسی دوران مختلف مقامات پر کوکی اسٹوڈنٹ یونین اور دیگر فورمس بطور خاص انڈیجینس ٹرائبل لیڈرس فورم (آئی ٹی ایل ایف) نے مل کر اس سلسلہ میں مختلف مقامات پر ریلیاں نکالیں اور ہڑتالیں کیں۔ خاص طورپر چوراچاندپور، اوکہرول، کانگ کوکپتی، ٹینگنوپال اور جیریبام وغیرہ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور کچھ تنظیموں نے خاص طورپر آئی ٹی ایل ایف نے مختلف جماعتوںاور تنظیموں وغیرہ سے رابطہ کرکے اس سلسلے میں مہم شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں دہلی میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ کئی مقامات کمباپوری میں خاص طور حالات خراب ہوگئے اور پولیس کو ہجوم کوکنٹرول کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ ظاہر ہے کئی مقامات پر غیرمنظم اور غیرمربوط مظاہروں کی وجہ سے انتظامیہ کوکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جس طریقے سے ریاستی حکومت نے قبائلیوں کی سرزمین کو اپنے قبضے میں لیا ہے اور قدیم آبادی کوبے گھر کیا ہے اس کی وجہ سے یہ مشکلات بدامنی اور غیریقینی پیدا ہورہی ہے۔ بغیرکسی مشورے اور متاثرین سے رابطے کے بڑی آبادیوں کومنتقل کرنا سرکار کے لئے مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS