آگ میں جلتا منی پور

0

شمال مشرقی ہندوستان کی اہم ترین ریاست منی پور گزشتہ ایک مہینہ سے فسادات کی آگ میں جل رہی ہے۔ کہیں گھر جلائے جارہے ہیں تو کہیں کھیت کھلیان اور کہیں چرچ میں آگ لگائی جارہی ہے۔ حالات اتنے سنگین ہیں کہ مقامی انتظامیہ، ریاستی پولیس کے ہاتھ پائوں پھول چکے ہیں اور اب قیام امن و امان کا مدار فوج کے گرد گھوم رہاہے۔اس ایک مہینہ کے فساد میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 74 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور سیکڑوں زخمی بتائے جاتے ہیں۔ لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔مرکزی وزیرداخلہ اس فساد زدہ ریاست میں خیمہ زن ہیں لیکن نہ فساد کی آگ بجھ رہی ہے اور نہ افواہوں کی چنگاری سردپڑرہی ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اسی بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ وزیرداخلہ کی موجودگی میں منی پورکی راجدھانی امپھال میں ایک ہجوم نے کئی گھروں کو آگ لگادی جس کے بعد فوج اور نیم فوجی دستے طلب کرنے پڑے اور کرفیو میں دی گئی ڈھیل ختم کردی گئی۔کرفیو جس میں پہلے صبح 6 بجے سے شام 4 بجے تک نرمی تھی، اب صبح 6 بجے سے دوپہر 2 بجے تک کر دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ خدمات پر پابندی میںبھی مزید پانچ دن کی توسیع کر دی۔ لیکن اس کے باوجود حالات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ وزیرداخلہ اس پہاڑی ریاست کی مختلف برادریوں اور گروپوں سے متواتر ملاقات کررہے ہیں اورقیام امن میں ہاتھ بٹانے کی ان سے اپیل کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک مہینہ سے فساد کی آگ میں جل رہے منی پورمیں تشدد کب ختم ہوگا، امن کب قائم ہوگا، حالات معمول پر کب آئیں گے، ان حالات کی وجہ کیا ہے یہ عسکریت پسندی ہے یا پھر ذاتی اور گروہی لڑائی جس نے منی پور کے عوام پر آگ و خون کی برسات کررکھی ہے۔ اب تک حکومت اس فساداورآگ زنی کی اصل وجہ کا تعین ہی نہیں کرسکی تو ایسے میں یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ امن کب قائم ہوگا۔ ہرچند کہ یہاں فساد کاآغاز ایک عدالتی فیصلہ کے بعد ہواجس میں یہاں کے مائتی طبقہ کو درج فہرست قبائل کا درجہ دیا گیا تھا۔ عدالت کے اس فیصلہ سے یہاں کی مقامی ناگااور کوکی برادری برہم ہوگئی اور ان میں اضطراب و بے چینی پھیلنے لگی۔ دھیرے دھیرے یہ عدم اطمینان تشدد کی شکل اختیار کرگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک مہینہ سے بھی کم وقت میں90سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اس بھاری پیمانہ پر ہونے والے تشدد کے سلسلے میں ملک کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انل چوہان کا کہنا ہے کہ منی پور میں موجودہ تشدد عسکریت بندی نہیں ہے، یہ بنیادی طور پر دو ذاتوں کے درمیان ہونے والے تصادم کا ایک سلسلہ ہے جس نے پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جب کہ دوسری جانب منی پور کے وزیراعلیٰ کچھ اور ہی داستان سنارہے ہیں۔ وزیراعلیٰ بیرن سنگھ کا دعویٰ ہے کہ ان کی ریاست منی پور میں برادریوں کے درمیان کوئی دشمنی نہیں ہے اور یہ جھڑپیں کوکی عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان لڑائی کا نتیجہ ہیں۔ان دونوں زعماکے بیان میں تضاد اور وجہ تشدد پر عدم اتفاق بتارہا ہے کہ منی پور میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ریاست ویسے بھی ہندوستان میں ضم ہونے کے بعد سے عسکریت پسندی کا شکار رہی ہے۔ اپنے حقوق کے تئیں حساس پہاڑی مسلسل مطالبات، مظاہرے اور احتجاج کرتے آرہے ہیں۔ بعض اوقات قبائلیوں کو عسکریت پسندوں کا ساتھ بھی ملا اور پھر باقاعدہ پیپلز لبریشن آرمی(پی ایل اے)، پیپلز ریوولیوشنری پارٹی آف کنگلیپک(پی آر ای پی اے کے)،کنگلیپک کمیونسٹ پارٹی (کے سی پی ) اور کنگلی یاول کنا لوپ (کے وائی کے ایل )وغیرہ جیسی کئی تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ ناگا اورکوکی برادریوں کے درمیان خوں ریز تصادم بھی ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ منی پورکا فساد پہاڑیوں اور قبائلیوں کے حقوق کی لڑائی ہے۔منی پور بنیادی طور پرپہاڑ اوروادی دو خطوں میں تقسیم ہے۔اس کا پہاڑی علاقہ90فیصد ہے جب کہ وادی امپھال صرف 10فیصدرقبہ کی حامل ہے۔60رکنی اسمبلی میں 40سیٹیں اس 10فیصد میں ہیں جب کہ90فیصدپہاڑی خطہ کی نمائندگی کیلئے ایوان میں صرف 20 سیٹیں ہیں۔اس 90فیصد پہاڑی خطہ میں قبائلیوں کی آبادی کاتقریباً 40 فیصد مکین ہے جن میں بنیادی طور پر ناگااور کوکی عیسائی قبائل شامل ہیں۔ وادی امپھال میں رہنے والے قبائل مائتی کی اکثریت ہندوئوں پر مشتمل ہے جنہیں ایک عدالتی فیصلہ کے بعد پہاڑی خطہ میں زمین حاصل کرنے سمیت کئی دوسرے حقوق مزید مل گئے ہیں۔یہ صورتحال ریاست کی ڈیموگرافی کا منظر نامہ ہی بدل ڈالنے والی ہے۔ پہاڑیوں پر بسے عیسائی ناگا اور کوکی قبائل کو خدشہ ہے کہ ہندومائتی اب وادی چھوڑ کر ریاست میں بکھریں گے اور ان کے وسائل اور حقوق میں بھی حصہ دار ہوجائیں گے۔
یہ صورتحال ملک کی سالمیت اور ہم آہنگی کیلئے سنگین خطرہ ہے۔حکومت نے اگر مائتی برادری کومنی پور کے وسائل میں حصہ دار بنانے اور انہیں مزید کئی حقوق دینے سے پہلے متعلقین کو اعتماد میں لیا ہوتا تو اس صورتحال سے بچاجاسکتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ جدید دور کے چانکیہ وزیرداخلہ امت شاہ اس فساد زدہ ریاست میں امن بحالی کیلئے کون سی حکمت عملی اپناتے ہیںاور اس میں کتنا وقت لگتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS