پنکج چترویدی
شاید ہی کوئی ذی ہوش شخص وہ ویڈیو پورا دیکھ سکے۔ وہ صرف دو خواتین ہی نہیں تھیں جن کے ساتھ بھیڑ غیر انسانی سلوک کر رہی تھی، اصل میں وہ شیطانیت ہمارے آئین، سماج، تعلیم اور تربیت کے ساتھ تھی۔ منی پور ایک ایسی ریاست ہے جہاں خواتین کو سماج میں اولیت ملتی ہے۔ دنیا میں مثال دی جاتی ہے منی پور کی راجدھانی امپھال کے کھوائی رمبند علاقے کے کیتھیل یعنی ’ماں کا بازار‘ کی۔ یہاں صرف خواتین ہی دکانیں چلاتی ہیں۔ 1533 میں بنے اس بازار میں تقریباً پانچ ہزار خواتین کا کاروبار ہے۔ ایسی ریاست میں عورتوں کے ساتھ ہوئے برے سلوک پر رد عمل میں دو مہینے سے زیادہ کا وقت لگا، وہ بھی تب لوگ سامنے آئے جب وہ شرمسار کردینے والا ویڈیو عام ہو گیا۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، دو مہینے سے زیادہ وقت سے لوگ ایک دوسرے کے گھر جلا رہے ہیں، 170سے زیادہ قتل ہوگئے، لوگ ابھی بھی سر عام ہتھیار لے کر گھوم رہے ہیں۔ پولیس اور سرکاری ملازمین بھی اس نفرت کے دریا میں ڈوبتے تیرتے ساتھی ہیں۔ یہ سبھی باتیں یہی سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ ہماری تعلیم میں ایسا کیا ہے جوابتدا سے ہی تشدد، نفرت، جذبات پر قابو نہ ہونا اور خواتین سے غیر انسانی سلوک جیسے مسئلوں پر عملی معلومات یا اخلاق کا سبق پڑھانے میں ناکام رہی ہے۔ جان لیں، منی پور کی آبادی محض 36.49 لاکھ ہے، ملک کے کئی بڑے شہروں اور اضلاع سے بھی بہت کم۔ یہاں اوسط شرح خواندگی 76.94 فیصد ہے جس میں مردوں کی شرح خواندگی 83.58 فیصدہے۔ یہاں نوجوانوں میں شرح خواندگی 89.51 ہے۔ 93.73 فیصد لوگ اپنے مکانوں میں رہتے ہیں کیونکہ یہاں کی 70.79 فیصد آبادی دیہی علاقوں کی رہنے والی ہے۔ یہ اعداد وشمار اس لیے قابل غور ہے کہ جس ریاست کی شرح خواندگی اتنی اچھی ہو، خاص کر نوجوانوں اور جوان میں، وہاں کے جوان اگر بندوقیں لے کر خود ہی مسئلے کو نمٹنے یا اپنی نفرت میں عورت کے جسم کو اوزار بنانے کے لیے بے چین ہیں تو ظاہر ہے کہ ابھی تک اسکول، کالج میں جو پڑھتے رہے، اس کی ان کی عملی زندگی میں کوئی اہمیت یا معنی ہے ہی نہیں۔ اگر سیکھنا ایک سماجی عمل ہے تو ہمارا موجودہ اسکولی نظام اس میں صفر ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ نصاب اور اس کا سیکھنا محض اسکول کے احاطے کی گفت وشنید اور امتحانات میں کامیاب ہونے کا وسیلہ ہے۔ اس میں سماج یا بچوں کے والدین کی کوئی حصہ داری نہیں ہے۔ کسی عدم اتفاق کو، اعتراض کو کس طرح تحمل کے ساتھ سلجھایا جائے، ایسی کوئی سیکھ اسکول سماج تک دے نہیں پایا۔ منی پور میں فراٹے دار انگریزی بول رہے لڑکے ہاتھوں میں اسلحہ لیے محض کسی ذات یا سماج کو جڑ سے ختم کر دینے کے لیے بے چین نظر آئے۔ ان کے مطابق تنازع کا حل دوسری کمیونٹی کو جڑ سے مٹا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ کتابوں کے پہاڑ، ڈگریوں کے بنڈل اور دنیا کی سمجھ ایک کارتوس کے سامنے بونے ہی ہیں۔
یہ شک کے دائرے میں ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ملک کی تعلیم کا اصل مقصد سمجھ پا رہی ہے۔ مہنگائی کی مار کے درمیان اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا روزگار، گھاٹے کا سودا ہوتی کھیتی اور ترقی کے نام پر ٹرانسفر ہوتے کھیت، پیٹ بھرنے اور سہولتوں کے لیے شہروں کی طرف ہجرت قدرتی وسائل پر منحصر سماج کو ان کے آبائی گھر- گائوں سے نکالنا۔ دور دراز کی ریاستوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی یہ پریشانیاں کیا ہمارے پالیسی سازوں کی فہم میں ہیں؟ کیا ہندوستان کے جوان کو صرف روزگار چاہیے؟ اس کے خوابوں کا ہندوستان کیسا ہے؟ وہ سرکار اور سماج میں کیسی حصہ داری چاہتا ہے؟ ایسے ہی کئی سوال نوجوانی کے اردگرد ٹہل رہے ہیں،تقریباً لاجواب سے۔ تین دہائی پہلے تک کالج سیاست کا ٹریننگ سینٹر ہوتے تھے، پھر طلبا سیاست میں باہری دخل اتنا بڑھا کہ ایک اوسط فیملی کے نوجوان کے لیے اسٹوڈنٹ یونین کا انتخاب لڑنا ناممکن ہی ہو گیا۔ نوجوان ذہن کے نظریاتی عزم ذات، دھرم، علاقے کے خانوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اور اس کا اثر ملک کی سیاست پر بھی نظر آ رہا ہے۔
منی پور ہی نہیں شمال مشرق سے لے کر آدیواسی اکثریتی ریاستوں اور اضلاع میں تنگی، سہولتوں کی کمی اور تمام طرح سے نظر انداز کیے جانے کی گرفت میں پھنسی ایک پوری مایوس نسل ہے۔ گائوں کی مٹی سے عدم لگائو اور شہر کی چکاچوند چھو لینے کی خواہش لیے نوجوان طاقت۔ ہنر مند مین پاور کی تشکیل کے لیے دیہی نوجوان دراصل ’کچے مال‘ کی طرح ہیں جن کا تجزیہ کبھی ٹھیک سے کیا ہی نہیں جاتا اور ان کی بغاوت کو کوئی سا بھی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اسکول کی سطح پر نصاب اور کتابیں اس طرح کی ہوں کہ بنیادی فرائض اور آئینی اقدار کے تئیں احترام کا جذبہ، اپنے ملک کے ساتھ اٹوٹ تعلق اور ایک بدلتی دنیا میں اپنے کرداروں اور ذمہ داریوں کے بارے میں بیداری پیداکی جاسکے۔ نہ صرف سوچ میں بلکہ روح، عقل اور کاموں میں، بلکہ ہندوستانی ہونے میں ایک فخر پیدا کرنے کے لیے، ساتھ ہی ساتھ علم، ہنرمندی، اقدار اور تجاویز کو پیدا کرنے کے لیے، جو انسانی حقوق کے لیے ذمہ دار عزم کی حمایت کرتے ہیں۔ مستقل ترقی اور زندگی اور عالمی بہبود، جس سے اصل میں ایک عالمی شہری نظر آئے۔ ہم اپنے مسئلے جذبات میں بہہ کر غلط طریقے سے نہیں، بلکہ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ بیٹھ کر، بغیر کسی باہری داخل کے سلجھا سکیں اس کے لیے لازم ہے کہ اسکول سے ہی بچوں کو فرض کی ادائیگی اور اجتماعی فیصلہ لینے کے جمہوری نظام کے لیے ذہنی طور پر اہل بنایا جائے۔ اس کے لیے اسکولی سطح پر جسمانی تعلیم، تن درستی، صحت اور کھیل، سائنسی جماعت، ریاضی، موسیقی اور رقص، شطرنج، شاعری، زبان، ڈرامہ بحث و مباحثے کے گروپ، ایکو کلب، صحت وبہبودی کلب، یوگ کلب وغیرہ کی سرگرمیاں، ابتدائی سطح پر بغیر بستے کے زیادہ دنوں تک منعقد کرنا ہوگا۔
منی پور جیسی چھوٹی سی اور خاطر خواہ شرح خواندگی والی ریاست نے جتا دیا کہ ہماری تعلیم میں کچھ بات تو ایسی ہے کہ وہ ایسے نوجوانوں، سرکاری ملازمین، خاص کر پولیس کو- ملک، راشٹرواد، خواتین کے لیے احترام اور تشدد جیسے جذبات سے مزین نہیں کرپائی۔ یہ ہمارے نصابی کتابوں اور اس سے اُپج رہی تعلیم کا کھوکھلا فلسفہ نہیں تو اور کیا ہے؟
[email protected]