منی پور: تاخیر سے آیا فیصلہ اور غیر یقینی مستقبل

0

وزیراعلیٰ این بیرین سنگھ کا استعفیٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب منی پور میں گزشتہ ڈھائی سال سے مسلسل تشدد جاری ہے اور ریاست سیاسی و سماجی انتشار کا شکار ہے۔ یہ فیصلہ اگرچہ بظاہر ایک سیاسی چال نظر آتا ہے، لیکن اس کے پس پردہ جو عوامل کارفرما ہیں وہ ریاست میں طویل المدتی عدم استحکام اور مرکز کی بے حسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ بی جے پی نے آخرکار بیرین سنگھ کو ہٹانے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ آیا یہ اقدام ریاست میں امن و امان بحال کرنے میں کوئی مثبت کردار ادا کرے گا یا نہیں۔

بیرین سنگھ کی وزارت اعلیٰ کے دوران منی پور نے شدید بحران دیکھے۔ کوکی اورمیتیئی برادریوں کے درمیان جاری کشیدگی میں ریاستی حکومت اور مرکز کی سردمہری نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ اس دوران بی جے پی قیادت نے جس طرح اپنی آنکھیں بند رکھیں اور تشدد کے شکار عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا، وہ سنگین سیاسی نااہلی کاعکاس ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کا منی پور کے بارے میں مسلسل خاموش رہنا اور وزیر داخلہ امت شاہ کا محض نمائشی دورہ کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ مرکز نے منی پور کے بحران کو ایک انسانی المیے کے بجائے سیاسی حکمت عملی کے تحت نظرانداز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بیرین سنگھ کا استعفیٰ کسی اخلاقی دباؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ بی جے پی کے اندرونی خلفشار اور اپوزیشن کے ممکنہ عدم اعتماد کی تحریک کو روکنے کیلئے آیا ہے۔

اگر واقعی بیرین سنگھ کو ریاست میں جاری بدامنی کی ذمہ داری قبول کرنی تھی تو انہیں بہت پہلے مستعفی ہونا چاہیے تھا۔ مارچ 2023 میں جب کوکی برادری پر مظالم کے ویڈیوز سامنے آئے، جب دو معصوم لڑکیوں کو برہنہ پریڈ کرایا گیا، جب ہزاروں گھر جلائے گئے اور سیکڑوں لوگ بے گھر ہوئے تب بیرین سنگھ نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس وقت حکومت کی خاموشی نے نہ صرف عوام میں اشتعال کو بڑھایا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہندوستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر سخت رویہ اپنایا اور حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر وہ حالات پر قابو نہیں پاتی تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے داخلی بحران نے بیرین سنگھ کو گدی چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ریاستی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے قبل بی جے پی کے متعدد ناراض اراکین اسمبلی کی مخالفت نے پارٹی قیادت کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ بیرین سنگھ کو ہٹا کر ہی کسی ممکنہ سیاسی شکست کو ٹالا جا سکتا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنے کے بجائے بی جے پی نے یہ قدم خود اٹھایا تاکہ پارٹی کے اتحاد کو برقرار رکھا جا سکے۔ تاہم اس معاملے میں تاخیر نے یہ ثابت کر دیا کہ بی جے پی کیلئے انسانی جانوں سے زیادہ سیاسی مفاد عزیز تھا۔

بیرین سنگھ کے استعفیٰ کے بعد اب سب کی نظریں اس پر جمی ہیں کہ بی جے پی کس کو ان کا جانشین مقرر کرتی ہے یا ریاست میں صدر راج نافذ کیا جاتا ہے۔ منی پور میں جس پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، اسے دیکھتے ہوئے کسی ایک شخصیت کو وزیراعلیٰ بنا کر حالات کو قابو میں لانے کی توقع کرنا خام خیالی ہوگی۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ محض قیادت کی تبدیلی سے کچھ حل نہیں ہوگا بلکہ پورے حکومتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ریاستی حکومت کے مختلف محکمے، انتظامیہ اور پولیس سبھی اس بحران کے دوران غیر فعال نظر آئے۔

یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ بی جے پی نے منی پور کے بحران کو ہندو ووٹوں کے پولرائزیشن کیلئے استعمال کیا۔ جب ریاست کے مختلف طبقات امن کی اپیل کر رہے تھے تب پارٹی کے کچھ حلقے اس تنازعے کو اپنے سیاسی ایجنڈے کیلئے ہوا دے رہے تھے۔ اگر مرکز کو واقعی منی پور کی بہتری کیلئے کام کرنا ہوتا تو وہ اس مسئلے کو محض انتظامی بحران کے طور پر نہیں بلکہ انسانی بحران کے طور پر لیتا۔ لیکن افسوس کہ بی جے پی نے اس مسئلے کو جتنی دیر تک طول دیا اتنا ہی زیادہ ریاست کے عوام کے زخم گہرے ہوئے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ منی پور میں فوری طور پر اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کرائے جائیں تاکہ عوام خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ ریاست میں ایک مضبوط اور غیر جانبدار حکومت کی ضرورت ہے جو بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست سے آزاد ہو اور عوام کے حقیقی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ مزید برآں مرکزی حکومت کو منی پور کے مسئلے کو محض ایک ریاستی مسئلہ نہ سمجھتے ہوئے اس پر ایک جامع پالیسی مرتب کرنی ہوگی جو ریاست میں دیرپا امن کو یقینی بنا سکے۔

بیرین سنگھ کا استعفیٰ اگرچہ ایک علامتی جیت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن جب تک منی پور میں پھیلی بے چینی اور تقسیم کے زخم مندمل نہیں ہوتے تب تک یہ فیصلہ محض ایک وقتی اقدام ہی رہے گا۔ اگر مرکز اور ریاستی حکومت واقعی منی پور کے عوام کے ساتھ انصاف کرنا چاہتی ہیں تو انہیں فوری طور پر ایسے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے جو ریاست کو ایک بار پھر امن و استحکام کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ بصورت دیگر یہ بحران نہ صرف منی پور بلکہ پورے ہندوستان کی سالمیت کیلئے ایک مستقل خطرہ بنا رہے گا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS