منی پور میں 2023 کے دوران ہونے والے نسلی تشدد نے ریاست کو ایک سنگین بحران میں مبتلا کر دیا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس بحران کے دوران وزیراعلیٰ این بیرین سنگھ کی جانب سے نئے سال کے آغاز سے قبل کی شام ریاست کے عوام سے معافی مانگنا ایک اہم سیاسی قدم تھا،لیکن اس معافی کے اثرات پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔
وزیراعلیٰ کی معافی بظاہر عاجزی اور حساسیت کااظہار کرتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ صرف ایک رسمی بیان ہے کیوں کہ اس کے اگلے ہی دن یعنی آج یکم جنوری 2025 کو انہوں نے ریاست میںتشدد کیلئے کانگریس کو مورد الزام ٹھہرادیا۔انہوں نے ماضی کے تشدد جیسے 1997 کی ناگا-کوکی جھڑپوں کا ذکر کیا،تاہم وہ یہ بھول گئے کہ موجودہ بحران کی اصل وجہ ان کی حکومت کی ناکامی ہے۔ کانگریس پر ان کی یہ الزام تراشی نہ صرف ان کے معافی کے خلوص کومزید مشکوک بنا رہی ہے بلکہ ریاست میں جاری تشدد کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بھی مترادف ہے۔
منی پور میں موجودہ صورتحال میں جہاں مئی 2023 سے جاری نسلی تشدد نے سیکڑوں جانیں لی ہیں اور ہزاروں کو بے گھر کیا ہے، وزیر اعلیٰ کی معافی اس وقت تک بے محل محسوس ہوتی ہے جب تک کہ امن و امان کی بحالی کیلئے مؤثر اقدامات نہ کیے جائیں۔ حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ معافی کے بعد عملی اقدامات کے ذریعے حالات کو بہتر کرے،تاکہ عوام میں اعتماد بحال ہوسکے۔
مئی 2023 میں شروع ہونے والی نسلی تشدد کی لہر نے ریاست کو غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کر دیا تھا۔ وزیراعلیٰ کی معافی کا کوئی معنی تب تک نہیں بنتا جب تک کہ حکومت عملی اقدامات نہ کرے۔ بے گھر افراد کی بحالی کیلئے کاغذ پر منصوبے تو ہیں،لیکن ان کا کوئی حقیقی نتیجہ نظر نہیں آتا۔ متاثرین کی مالی امداد بھی ناکافی ہے اور ان کیلئے کوئی پائیدار حل فراہم نہیں کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے امن و امان کی بحالی کے لیے کیے گئے اقدامات بھی زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ زیلیانگرونگ یونائیٹڈ فرنٹ(ZUF) اور پامبی کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا گیا،لیکن کیا یہ مذاکرات واقعی پائیدار امن کا سبب بن سکتے ہیں؟ اکتوبر 2023 تک فائرنگ کے واقعات میں کمی آئی ہے،لیکن اس میں کوئی واضح پیش رفت کی علامت نہیں دکھائی دیتی۔
منی پور میں جاری نسلی کشیدگی کا اصل سبب میتیئی اور کوکی برادریوں کے درمیان عدم اعتماد اور دشمنی ہے،جسے این بیرین سنگھ کی حکومت نے مزید بڑھاوا دیا۔ جیری بام کے علاقے میں تشدد کا پھیلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت حالات کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے۔ خواتین کے خلاف مظالم جیسے اجتماعی عصمت دری اور برہنہ پریڈ کے واقعات نے حکومت کی ناکامی کو عیاں کر دیا۔ ان واقعات نے ریاست کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور حکومت کے دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے۔ حکومت کی ناکامی کے باوجود این بیرین سنگھ کی جانب سے کانگریس کوالزام دینا اور ماضی کے واقعات کو موجودہ بحران کی جڑ قرار دینا ان کی ذمہ داری سے پہلو تہی کے مترادف ہے۔ اگرچہ کانگریس کے دور میں بھی مسائل موجود تھے،لیکن موجودہ حکومت کو اپنے عہد میں پیدا ہونے والے بحران کے لیے جواب دہ ہونا چاہیے۔ وزیراعلیٰ کو ماضی کی سیاست سے آگے بڑھتے ہوئے اپنے موجودہ اقدامات پر فوکس کرنا چاہیے اور اس بحران کی مکمل ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
معافی کا حقیقی مطلب صرف الفاظ نہیں بلکہ عمل ہے۔ جب تک منی پور میں امن و امان بحال نہیں ہوتا،معافی محض ایک دکھاوا ہی رہے گی۔ وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ وہ عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔ ریاست کے لوگوں کے زخم تب ہی بھر سکیں گے جب ان کے مسائل کا حل دیانتداری اور سنجیدگی سے تلاش کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نسلی کشیدگی کے حل کیلئے مؤثر حکمت عملی وضع کرے،تاکہ ریاست میں پائیدار امن قائم ہو۔
مرکزی حکومت کا کردار بھی اس معاملے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ منی پور کے بحران پر مرکزی حکومت کی خاموشی اور عدم توجہی نے مسائل کو مزید بڑھایا ہے۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے وزیراعظم نریندر مودی کی منی پور کے مسائل سے لاتعلقی پر تنقید کی تھی،جو بجا ہے۔ وزیراعظم کا ریاست کا دورہ نہ کرنا اور عوام کے زخموں پر مرہم نہ رکھنا ایک سنگین غفلت ہے۔ دوسری جانب راہل گاندھی نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور ریلیف کیمپوں میں لوگوں سے ملاقات کر کے ایک مثبت مثال قائم کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کا فعال کردار منی پور میں امن و امان کی بحالی کیلئے ضروری ہے۔ لہٰذا ریاست میں امن کے قیام کے لیے مرکز کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ خاص طور پر نسلی تنازعات کے حل کے لیے مذاکراتی عمل شروع کرنا اور متاثرہ برادریوں کے درمیان پل بنانے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ اگر مرکز نے اس مسئلے میں سنجیدگی سے مداخلت نہیں کی تو ریاست میں امن کا قیام محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔