منڈل کمیشن: نفاذ پر ہوا تھا ہنگامہ

0

ضروری نہیں کہ کوئی سماجی تبدیلی آسانی سے آجائے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کسی خوف سے مثبت تبدیلی نہیں کی جانی چاہیے؟ یہ سوال وی پی سنگھ کے سامنے بھی رہا ہوگا جب منڈل کمیشن کے نفاذ کے بارے میں سوچا ہوگا مگر وہ ایک مستحکم لیڈر تھے، اس لیے 1990 میں ہوئے تمام ہنگاموں اور مظاہروں کے باوجود وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ مورارجی دیسائی کی حکومت نے 1979میں سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن بی پی منڈل کی سربراہت میں قائم کیا گیا تھا، اس لیے اسے منڈل کمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ منڈل کمیشن نے 30 دسمبر، 1980 کو صدر ہند کو رپورٹ سونپی۔ اس نے یہ سفارش کی تھی کہ او بی سی یعنی اَدر بیک ورڈ کلاس کو 27 فیصد ریزرویشن دیا جائے۔ ٹھیک 10 برس بعد وی پی سنگھ کے دور میں اس پر عمل کا سلسلہ شروع ہوا تو ہنگامہ ہوا، مظاہرے ہوئے۔
یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ وی پی سنگھ جیسی شخصیت سچر کمیٹی کی رپورٹ کو مل جاتی تو اس کا وہ حشر نہیں ہوتا جوہوا جبکہ سچر کمیٹی نے مسلمانوں کے حالات پر جو رپورٹ دی تھی، اس کے بعد مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی امید کی جا رہی تھی۔ اس کمیٹی کی تشکیل مارچ 2005 میں منموہن سنگھ حکومت نے کی تھی۔ کمیٹی نے 2006 میں رپوٹ دے دی تھی اور 30 نومبر، 2006 تک یہ عوام کے لیے بھی دستیاب تھی۔ 403صفحات پر مشتمل سچر کمیٹی کی، جو دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس،جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی، جو رپورٹ تھی، اس میں مسلمانوں کے حالات بہتر بنانے کے حوالے سے کئی سفارشات پیش کی گئی تھیں۔ اس رپورٹ کے آنے کے 8 سال بعد تک منموہن حکومت اقتدار میں رہی مگر اس نے اس پر کتنا عمل کیا یہ ایک سوال ہے اور سوال یہ بھی ہے کہ سبھی سفارشات کیوں نہیں نافذ کی جا سکیں؟ بیشتر مسلم لیڈروں کے لیے بھی یہ سیاست کرنے کا ہی ایشو رہا ہے اور ان سے اس سے زیادہ کی امید کرنا بھی فضول ہے، کیونکہ ان میں سے کتنے ہیں جو سماجی خدمت کے سہارے اقتدارتک پہنچتے ہیں؟ دیکھنے میں اکثر یہی آتا ہے کہ وہ عمل پر کم اورجوشیلی تقریر پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اسی لیے اپنی تقریروں سے وہ مسلم مخالف ماحول پیدا کرنے کی وجہ بن جاتے ہیں لیکن خود مسلمانوں کو ان سے یہ کہنا پڑے گا، وہ لفظوںکی جادوگری سے ان کا دل نہ بہلائیں، حالات کا رونا نہ روئیں، جوکر سکتے ہیں، وہ کریں۔
ایک سوال یہ ہے کہ کیا منڈل کمیشن کے نفاذ کے وقت جو سیاسی حالات بنے تھے،اسی طرح کے کچھ حالات بنیں گے؟ اس کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ زیادہ ترلیڈروںنے ای ڈبلیو ایس کوٹا کے تحت دیے جانے والے 10 فیصد ریزرویشن کی مخالفت نہیں کی ہے۔ کچھ ایک لیڈر ہیں جو اسے ایک ایشو سمجھ رہے ہیں، ان میں تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن کا نام قابل ذکر ہے۔ رپورٹ کے مطابق، تمل ناڈو میں اسٹالن کی زیر صدارت قانون ساز پارٹیوں کی میٹنگ میں اسے مسترد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کیونکہ اس سے غریبوں میں ذات پات کی تفریق پیدا ہوگی۔ ریاستی حکومت سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ تمل ناڈو کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر کے پونموڈی نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ریاستی حکومت 10 فیصد ریزرویشن نافذ نہیں کرے گی۔ ان کی طرف سے یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ تمل ناڈو میں 69 فیصد کوٹے کے ریزرویشن کے موجودہ نظام پر عمل ہوتا رہے گا۔ میٹنگ میں اسٹالن نے کہا کہ ’ای ڈبلیو ایس کوٹا کا خیال 1950 کی دہائی میں پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے بھی پیش کیا تھا اور وزیر قانون بی آر آمبیڈکر پہلے ہی مسترد کر چکے تھے۔‘اسٹالن نے یہ بھی کہا کہ ’کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے غریبوں کے راستے میں آ رہے ہیں۔ ہم غریبوں کی مدد کرنے والی کسی بھی اسکیم کو نہیں روکیں گے لیکن ہم سماجی انصاف کی حقیقی اقدار کو بھی خراب نہیں ہونے دیں گے۔‘ لیکن بہار یا اترپردیش کے لیڈروں نے یہ اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ بھی ای ڈبلیو ایس کوٹا پر اسٹالن والا واضح موقف رکھتے ہیں۔ ٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS