انسان ساختہ سیلاب

0

ہندوستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ دنیا کے ایک ایسے جغرافیائی خطہ میں واقع ہے جہاں بالعموم گرمی‘ سردی‘ برسات اور خزاں کے چاروں موسم ملتے ہیں لیکن ہماری سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ ہم ان موسموں سے حسب حال استفادہ کرنے کے اب تک اہل نہیں ہوسکے ہیں ۔گرمی کے ایام میں خشک سالی اور بارش کے موسم میں سیلاب ہمارے تمام ترقیاتی منصوبوں کوبہاکر لے جاتا ہے ۔خاص کر بارش کے موسم میںآنے والے سیلاب کی تباہ کاری مدتوں محسوس کی جاتی رہتی ہے۔ رواں سال 2024میں سیلاب ایسی ہی تباہ کاری لے کرآیا ہے۔آسام سے چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال سے مہاراشٹر تک سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور تباہی کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوگیا ہے ۔ اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں قدرت سے کہیں زیادہ حکومت کی نااہلی کارفرما ہے ۔ مغربی بنگال کے معاملے میںتو حکومت اور حکومتی اداروںکی کھلی نااہلی‘ بے ایمانی اور کام چوری سامنے آتی رہی ہے اوراس کی شکایت بھی بارہاکی جاتی رہی ہے لیکن ہر بار فغان درویش ٹکراکر واپس آجاتی ہے ۔مغربی بنگال میں سیلاب کی سب سے بڑی وجہ دامودرویلی کارپوریشن (ڈی وی سی)سے بغیر کسی اطلاع کے اچانک پانی کی نکاسی ہے ۔ ڈی وی سی کے غیر منصوبہ بند طریقے سے پانی نکاسی کا خمیازہ ہر سال مغربی بنگال کو بھگتنا پڑ تا ہے۔ اس سال بھی ڈی وی سی مائی تھن اور پنچیت ڈیم سے غیر منصوبہ بندطریقہ سے پانچ لاکھ کیوسک پانی چھوڑنے کی وجہ سے جنوبی بنگال کے تقریباً تمام اضلاع سیلاب میں ڈوب چکے ہیں ۔ اس وقت جنوبی بنگال میں 1000 مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے سیلاب سے متاثر ہیں۔ مشرقی بردوان‘ مغربی بردوان‘ ہوڑہ‘ ہگلی‘ مشرقی مدنا پور‘ مغربی مدنا پور‘ بیر بھوم اور بانکوڑہ کے 50 لاکھ افراد اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ زرعی اراضی سے لے کر نجی املاک تک تباہ ہوگئی ہیں۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے اس سال وزیراعظم کو کئی خطوط لکھے لیکن وزیراعظم کی جانب سے ان خطوط کا جواب ملنے کی بجائے خط لکھنے کے دوسرے دن ہی ڈی وی سی سے پھر بغیر کسی اطلاع کے پانی کی بھاری نکاسی کردی جس سے نشیبی علاقے پوری طرح پانی میں ڈوب گئے۔حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ ڈی وی سی گرمیوں میں پانی نہیں چھوڑتا جب کسانوں کو آبپاشی کیلئے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب جھارکھنڈ میں شدید بارش کی وجہ سے پانی کی سطح بڑھ جاتی ہے اور وہاں کیلئے خطرہ پیدا ہوجاتا ہے تو غیر منصوبہ بند طریقے سے لاکھوں مکعب پانی نکاسی کی جاتی ہے ۔
یادرہے کہ دریائے دامودر پرقائم ڈی وی سی آزاد ہندوستان کا پہلا کثیر المقاصد دریائی وادی پروجیکٹ ہے۔ یہ کارپوریشن 7 جولائی 1948 کو ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایکٹ (1948 کا ایکٹ نمبر XIV) کے ذریعہ تشکیل دیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر ڈی وی سی کے بنیادی مقاصد سیلاب کاکنٹرول‘ آبپاشی‘ بجلی کی پیداوار اور فراہمی‘ ماحولیاتی تحفظ، جنگلات اور پروجیکٹ کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کی سماجی و اقتصادی ترقی تھے۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں میں، ڈی وی سی میں بجلی کی پیداوار تیزی سے کم ہو گئی ہے۔ مغربی بنگال کے مشرقی اور مغربی بردوان اور ہگلی اضلاع اور زیریں دامودر وادی میں پرولیا‘بانکوڑہ اور ہوڑہ اضلاع کے کچھ حصے ڈی وی سی اسکیم کے تحت ہیں۔ جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کا کل رقبہ 24,235 مربع کلومیٹر ہے۔ آبپاشی اور سیلاب کنٹرول اس منصوبے کے مقاصد میں شامل تھے۔ لیکن ڈی وی سی اس مقصد سے بہت دور بھٹک گیا ہے۔ ڈی وی سی منصوبہ میں سات ڈیم کا تصور کیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ 28,317 کیوبک میٹر فی سیکنڈ (کیومک) کے سیلاب کا انتظام کیا جا سکے۔ تاہم، صرف چار ڈیم ہی بنائے جاسکے ہیں ۔اس پروجیکٹ کے تحت 1953 میں تلیا میں دامودر کی معاون دریا براکر پر ایک ڈیم تعمیر کیا گیا تھا۔ 1955 میں، ایک دوسرا ڈیم دریائے کونار پر بنایا گیا۔1957 میں مائی تھن میں دریائے براکر پر اور 1959 میں پنچیت میں دریائے دامودر پر دو مزید ڈیم بنائے گئے۔ یہ چاروں ڈیم ڈی وی سی کے زیر کنٹرول بڑے ڈیم ہیں۔ 1955 میں درگاپور میں دریائے دامودر پر درگاپور ڈیم بنایا گیا تھا۔ اس ڈیم سے دریا کے دونوں کناروں پر واقع دیگر نہروں اور دریاؤں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ 1978 میں بہار (اب جھارکھنڈ) کی حکومت نے ڈی وی سی کے کنٹرول سے باہرتینوگھاٹ پر ایک ڈیم تعمیر کیا۔لیکن سات کی تعداد اس کے باوجود پوری نہیں ہوئی جس سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت محدود ہوگئی ۔ لیکن ان آبی ذخائر اور دریاؤں کی گنجائش اور صلاحیت کو برقرار رکھنے کیلئے کوئی باقاعدہ ڈریجنگ نہیں ہوتی ہے۔ گندگی اور گاد کا جمع ہونا ایک قدرتی عمل ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ سیلاب کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو کم کرتا ہے۔دریا کی موجودہ گنجائش صرف 1,25,000 مکعب فٹ فی سیکنڈ یا کیوسک ہے۔ یہ 2,50,000مکعب کی اصل ڈیزائن کی گنجائش کا صرف 50% ہے۔ یہ کمی اعتدال پسند نکاسی آب کے باوجود اس علاقے کو سیلاب کیلئے انتہائی خطرناک بناتی ہے۔موجودہ چاروں ڈیم کی تعمیر کوبھی تقریباً 70-75 سال گزر چکے ہیں۔ ان طویل سالوں میں گندگی جسے عام طور پر گاد کہتے ہیں کی وجہ سے تمام ڈیم کے آبی ذخائر کی صلاحیت کم ہو گئی ہے۔ اسی طرح دریاؤں کی صلاحیت میں بھی کمی آئی ہے۔ ضرورت ہے کہ مرکزی حکومت اس معاملہ کو سنجیدگی سے لے اوراس سلسلے میں اقدامات کرے تاکہ مغربی بنگال کے لوگوں کو اس انسان ساختہ سیلاب سے نجات مل سکے۔rlq
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS