جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا بھر میں قائم ہونے والی جدید ریاستوںمیں جمہوری طرز حکومت انسانیت کیلئے ایک نعمت بے بہا کے طور پر سامنے آئی اور دنیا میں علم و ہنر، ترقی اور انسانی فلاح و بہبود کے زمزمے لکھے جانے لگے۔اس نظام حکومت میں خوردوکلاں کی کسی تفریق کے بغیر جہاںسبھی کو مساوی حقوق حاصل ہیں، وہیں مذہب، نسل، جنس یا مقام پیدائش کی کسی امتیاز کو روا رکھنااور کثرت تعداد کے زعم میں کوئی مخصوص نظریہ یا مذہب تھوپنے کی کوشش کرنا منشو ر انسانیت اور دستور حیات کے خلاف قرارپایا۔لیکن بدبختی یہ ہے کہ وقفہ وقفہ سے دنیا کے بیشتر ممالک میں ایسے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں جن سے تہذیب انسانی کی یہ خوش رنگ جمہوری قبا داغدار ہوتی ہے اور انسانوں کا حیوانی رنگ سامنے آنے لگتا ہے۔کبھی یہ رنگ خیالی اور فرضی برتری کی شکل میں سامنے آتا ہے تو کبھی اس کے ارد گرد حب الوطنی کا ہالہ بناکرعفونت زدہ فسطائی طرز فکر پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہندوستان جنت نشان میں ان کوششوں کو آج کل پر لگ گئے ہیں اور ہر گزرنے والا دن ہندوستانی معاشرے کو جمہوریت سے دور اور فسطائیت سے قر یب تر کررہا ہے۔ تازہ واقعہ منتخب حکومت کو نامزد گورنر کے تابع کیے جانے کے سلسلے میں قانون سازی کا ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ نے وہ بل منظور کرلیا ہے جس کے نفاذ کے بعد سے دہلی کی منتخب حکومت کے تمام اختیارات عملاً نامزد لیفٹیننٹ گورنر کو منتقل ہوجائیں گے۔ایوان سے منظوری کے بعد یہ صدر جمہوریہ کے دستخط سے اب قانونی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور وزارت داخلہ کی جانب سے اعلان کیے جانے کی دیر ہے کہ اب دہلی کی ’ حکومت‘ کا مطلب مرکز کا نامزد کردہ لیفٹیننٹ گورنر ہوگا۔ مودی حکومت کے اس قدم پر چہار جانب سے اعتراضات کیے جارہے ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سربراہ محترمہ ممتابنرجی نے اس واقعہ کی بنیاد پر ملک کی حزب اختلاف سے اپیل کی ہے کہ وہ جمہوریت اور ہندوستانی وفاق کی روح پر زخم ڈالنے والی کوششوں کے خلاف متحدہوں۔ ممتابنرجی نے اس سلسلے میں غیر بی جے پی جماعتوں کے سربراہان کے نام تین صفحات پرمشتمل ایک مکتوب روانہ کیا ہے۔ ان کے اس مکتوب کا مقصد ہندوستان کی جمہوریت کو لاحق خطرات اجاگر کرنا ہے۔ قومی دارالحکومت دہلی (ترمیمی) بل کی منظوری کوانہوں نے ’انتہائی سنگین‘ قدم بتایا ہے۔
اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ یہ قانون ہندوستان کی وفاق کی پالیسی سے متصادم ہے۔ کوئی بھی ریاستی حکومت اپنے تمام فیصلوں کیلئے مرکزی نمائندہ کی پابند نہیں ہوسکتی ہے۔ریاستوں میںحکومتیں عوام کے ووٹ سے بنتی ہیں اور ریاست کے عوام ہی اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعہ اپنے نیک و بد کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن اس قانون کے نفاذ سے ریاست دہلی پر بھی مرکزبالواسطہ حکومت کرے گی۔یہ قانون ایک ایسے وقت میں منظور کیاگیا ہے جب ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات ہورہے ہیں، ریاستوں کے ارکان پارلیمنٹ اپنی اپنی ریاستوں میں مصروف ہیں اور وہ پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ میں حصہ لینے سے قاصر رہے۔انتخابات کے باوجود مغربی بنگال کے 8راجیہ سبھا اراکین دہلی پہنچے۔ دہلی کی حکمراں عام آدمی پارٹی اور کانگریس سمیت متعدد اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کے احتجاج میں راجیہ سبھا سے واک آؤٹ کیا۔ تاہم تعداد کے زور پر حکمراں جماعت یہ بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی۔
گزشتہ 6-7برسوں کی پارلیمانی کارروائی کو غور سے دیکھاجائے تو ایسا لگتا ہے کہ ایوان قانون سازیہ عوام سے بے رحمانہ مذاق کررہا ہو یا تو قانون کسی آرڈی نینس کے ذریعہ نافذ کیا جارہاہے یا ایوان میںکثرت تعداد کاخوف دکھاکر حزب اختلاف کی مکمل زبان بندی کی جارہی ہے اور بحث کاکوئی موقع وگنجائش دیے بغیرہر منمانے بل کو قانون کی شکل دی جارہی ہے۔ ایوان میں حزب اختلاف کو بحث کا کوئی موقع دیے بغیر گزشتہ ایک سال کے دوران زراعت بل سمیت کئی اہم بل منظور ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب ریاستوں کے معاملات میں بھی عمل دخل کافی بڑھ گیا ہے۔جن جن ریاستوں میں غیربی جے پی پارٹیاں حکمراں ہیں، وہاں نامزد گورنر کے دفتر کا غلط استعمال کرکے منتخب سرکاروں کیلئے مسائل پیدا کیے جارہے ہیں۔ کہیں قانون سازوں کو خرید کرتو کہیں قانون میں تبدیلی کرکے ریاستوں میں تو منتخب حکومت کا باقاعدہ تختہ پلٹنے یا انہیں اپاہچ بنادینے کے کئی معاملات بھی سامنے آچکے ہیں۔
جمہوری نظام حکومت میں حکمراں جماعت کی یہ اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حزب اختلاف کے اعتراضات سنے، انہیں موقع فراہم کرے اور متعلقہ امور پر ان سے گفتگو کرے۔اس کے برخلاف طاقت اور تعداد کے زور پر مخالفین کو دبانا، اپنی مرضی مسلط کرنا،اپنے کہے ہوئے ہر لفظ کو سچ جاننا، پروپیگنڈے کے ذریعہ اپنی غلط بات کو درست ٹھہرانا اور اپنی پسند کے قانو ن بنانامعاشرے پر استبدادمسلط کرنا کھلا فسطائی طرز عمل ہوتا ہے۔آج کی جدید دنیا میں اس کی پذیرائی ممکن نہیں ہے۔ ترنمو ل سربراہ ممتابنرجی کا خط ملک کے تمام جمہور پسندوں کیلئے ایک وسیلہ عزم ہے کہ و ہ سامنے آئیں اور ہندوستان میں جمہوریت کو لاحق خطرات کا سدباب کرنے کیلئے متحد ہوں۔
[email protected]
ممتا بنرجی کا خط
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS