ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ہم سب بھول گئے، ہماری نئی نسل کو ہم بتانا بھی بھول گئے، لیکن آج کے ہی دن، آج سے ٹھیک34سال پہلے، 23 مئی 1987 کا وہ سیاہ دن تھا جب میرٹھ ضلع کے ملیانہ گاؤں میں فرقہ وارانہ فسادات کے بعد72مسلمانوں کا پی اے سی کی44ویں بٹالین و پولیس اہلکاروں یعنی ریاست نے مذہبی شناخت کی بنیاد پر قتل عام کیا تھا، یقینا اتنے بڑے قتل عام کا فیصلہ مرکزی یا صوبائی حکومت کا ہی ہوسکتاتھا۔ اپریل1987میں اترپردیش کے ضلع میرٹھ میں ہندومسلم فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے، جس کے بعد مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں، اس دوران پولیس نے تقریباً20 مقدمات درج کرکے کل2500افراد کی گرفتاریاں کیں جن میں 2000سے زائد مسلمان تھے،مسلمان احتجاج میں سڑکوں پر آگئے، صوبائی حکومت نے مئی کی19سے23تاریخ تک میرٹھ شہر میں کرفیو لگایا تھا،22مئی کو پی اے سی میرٹھ کے ہاشم پورہ محلہ میں سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو ٹرکوں میں بھرکر لے گئی، پی اے سی نے کچھ کو گرفتار کیا جب کہ ایک ٹرک گنگا ندی کے کنارے لے جایا گیا جہاں گنگ کینال مرادنگر اور ہنڈن کینال یوپی دہلی سرحد پر لائن سے کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا اور لاشوں کوگنگا ندی میں بہادیا گیا، کئی روز تک گنگا نہر میں لاشیں ملتی رہیں۔ ہاشم پورہ قتل عام کے اگلے دن 23مئی1987کو پی اے سی و پولیس کے جوانوں نے ملیانہ گاؤں کو نشانہ بنایا، ملیانہ میں پی اے سی نے مسلم آبادی کو اندھادھندگولیوں کا نشانہ بنایا اور کچھ زخمیوں کو تو انکے گھروں میں ہی جلا دیا گیا۔ رپورٹوں کے مطابق ملیانہ گاؤں میں 80لاشیں برآمد ہوئی تھیں جن کے قتل عام کا الزام پی اے سی کے اوپر تھا، لیکن ایف آئی آر میں پی اے سی کے افسران و اہلکاروں کو ملزم نہیں بنایا گیا جب کہ دیگر93ملزمین کے خلاف ایف آئی آر 136/1987 تھانہ ٹرانسپورٹ نگر میرٹھ میں درج ہوئی۔ پولیس نے84ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کی۔2019تک جن میں سے36ملزمین کی قدرتی موت ہوگئی اور عدالت نے بقیہ 48 ملزمین کے خلاف چارج لگائے اور اب تک34سالوں میں صرف6 گواہوں کے بیانات درج ہوئے ہیں، قتل عام کی ایف آئی آر و دیگر اہم ریکارڈ متعلقہ پولیس اسٹیشن کے ساتھ متعلقہ عدالت کی ریکارڈ فائلوں سے بھی غائب کیے جاچکے ہیں۔
اس دوران فتح گڑھ اور میرٹھ جیلوں میں بھی درجنوں مسلمانوں کا حراست میں قتل عام ہوا، PUDR اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں کے مطابق19سے25مئی1987کے دوران فتح گڑھ جیل اور میرٹھ جیل میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ فتح گڑھ جیل میں ہونے والی حراستی اموات کی خبر جیل سے باہر آتے ہی انسپکٹر جنرل(جیل) نے فتح گڑھ جیل کے چار اعلیٰ افسران کو برخاست کرتے ہوئے ڈپارٹمنٹل انکوائری کا حکم دیا۔
ایک اچھے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کو یاد رکھا جائے، یقین مانیں ماضی کی ناکامیاں ہمیں مستقبل میں کامیاب نہیں ہونے دیں گی اگر ہم نے ان سے سبق حاصل نہیں کیا۔ ہاشم پورہ کا فیصلہ ہوچکا ہے، لیکن ملیانہ، فتح گڑھ جیل اور میرٹھ جیل میں ہوئے قتل عام کے ملزم ابھی آزاد ہیں۔
جیلوں میں ہوئے قتل عام کی مجسٹریٹ انکوائری کا بھی حکم ہوا لیکن مجسٹریٹ انکوائری نے نہ صرف اپنی رپورٹ پیش نہیں کی بلکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی منظر عام پر نہ لاسکی۔ ضلع مجسٹریٹ فرخ آباد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹوں میں مرنے کی وجہ زخم اور چوٹیں بتائی گئی ہیں تاہم یہ چوٹیں گرفتاری سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران لگی تھیں۔ گرفتاری سے پہلے چوٹیں لگنے یا زخمی ہونے کے تمام تر دعوؤں کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں خارج کیا تھا۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ہاشم پورہ کے ایک بیس سالہ نوجوان دین محمد کو پی اے سی نے اس کے گھر سے22مئی کو گرفتار کیا اور پھر29مئی کو اس کے والد عبدالماجد کو جیل بلاکر جوان بیٹے کی لاش حوالے کرتے ہوئے کہا کہ سورج نکلنے سے پہلے اس کی تدفین کردو۔ فتح گڑھ جیل پر گیان پرکاش پینل کی رپورٹ کو صوبائی حکومت نے ’فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مفادعامہ‘ کی بنیاد پر شائع کرنے سے منع کردیا تھا۔
ملیانہ قتل عام کی جوڈیشیل انکوائری کے لیے صوبائی حکومت نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس جی ایل شریواستوا کی سرپرستی میں کمیشن آف انکوائریز ایکٹ 1952کے تحت جسٹس شریواستو کمیشن کی تشکیل کی تھی لیکن آج تک اس کمیشن کی رپورٹ پیش نہیں ہوئی، جنوری1988 کے بعد کمیشن کے اصرار کے بعد ملیانہ سے پی اے سی کیمپ ہٹایا گیا یعنی کانگریس سرکار نے قاتلوں کو تقریباً ایک سال تک مقتولین کے تحفظ کے لیے مسلط کر رکھا تھا، یقینا جس کا واحدمقصد ایک ایسا محاصرہ تھا جس سے نہ کوئی اندر جائے اور نہ کوئی باہر اور انصاف کی ہر کوشش کا گلا گھونٹ دیا جائے۔
ملیانہ اور ہاشم پورہ قتل عام سے متعلق حادثات کی جانچ کے لیے سرکاروں نے کل چھ کمیشن و کمیٹیاں بنائیں، راجیوگاندھی کی مرکزی حکومت نے سی بی آئی انکوائری کا حکم جون1987میں دیا، صوبائی حکومت نے جسٹس شریواستو کمیشن بنایا، گیان پرکاش پینل بنا، جانگی سنگھ ڈی آئی جی پولیس کی ماتحتی میں سی بی سی آئی ڈی انکوائری کا حکم ہوا، اترپردیش کے آئی جی جیل نے ڈپارٹمینٹل انکوائری کا فیصلہ سنایا، اے ڈی ایم فرخ آباد شری کرشنا کو مجسٹریٹ انکوائری کرنے کا حکم دیا گیا، لیکن کسی نے بھی کوئی رپورٹ نہیں پیش کی اور اگر پیش کی ہوگی تو حکومت نے دبا دی لیکن مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سب سے بڑے سرکاری قتل عام کے متاثرین کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور نہ ہی حقیقت سے آج تک پردہ اٹھنے دیا گیا۔
ملیانہ و ہاشم پورہ قتل عام میں کل اموات کے اعدادوشمار تو موجود نہیںہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مئی کی19سے 23تاریخ کے درمیان تقریباً117افراد کی موت ہوئی تھی، 159افراد زخمی ہوئے تھے،623مکانات، 344دکانیں اور 14کارخانے لوٹے و نذر ا تش کیے گئے تھے۔ جب کہ ایک دیگر رپورٹ کے مطابق 21 سے 25 مئی کے درمیان295 مسلمانوں کا قتل ہوا تھا، نیز یہ قتل عام پولیس اور پی اے سی کے ذریعے یا ان کی سرپرستی میں ہوا تھا، جب کہ قتل کی وارداتوں کا سلسلہ15جون1987تک جاری رہا تھا۔
اترپردیش کے وزیراعلیٰ ویر بہادر سنگھ(کانگریس)نے پہلے تو پی اے سی کے کمانڈنٹ آر ڈی ترپاٹھی کو سسپنڈ کرنے کا اعلان کیا لیکن بہت جلد پرموشن کرکے آئی جی بنادیا گیا۔ ہمارے عدالتی نظام کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے،34سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی صرف چھ گواہوں کے بیان ہوئے ہیں۔ ملیانہ قتل عام سے ایک دن پہلے ہاشم پورہ میں پی اے سی نے جو قتل عام کیا تھا، اس مقدمہ میں ضلعی سیشن عدالت نے مارچ2015میں تمام ملزمین کو بری کردیا تھا۔ لیکن پھر دہلی ہائی کورٹ نے2018میں اپنا تاریخی فیصلہ ذوالفقار ناصر و دیگر بنام اسٹیٹ آف اترپردیش سناتے ہوئے پی اے سی کے 16جوانوں کو عمرقید کی سزا سنائی، دہلی ہائی کورٹ کے مطابق 22 مئی 1987کو پی اے سی جوانوں نے ہاشم پورہ میں40مسلم بے گناہوں کو گرفتار کیا تھا اور بعد میں ان کا قتل عام کیا تھا۔ ملیانہ کے متاثرین آج بھی انصاف کے لیے ترس رہے ہیں، آج بھی مجرمین آزاد گھوم رہے ہیں، آج ملیانہ قتل عام کی34ویں برسی ہے، انصاف یقینی بنانا ہم سب کی اخلاقی، مذہبی، سماجی اور دستوری ذمہ داری ہے، ملیانہ قتل عام کے مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ مقدمات کی سنوائی تیز رفتار ہو، چشم دید گواہ سینئر صحافی قربان علی اور وبھوتی نارائن رائے اس لڑائی کو لڑرہے ہیں۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ان کی پٹیشن پر یوپی سرکار کو نوٹس بھی جاری کردیا ہے، ضرورت ہے کہ ان کے قدم سے قدم ملا کر ایک منظم قانونی لڑائی لڑی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات پھر کبھی واقع نہ ہوں۔ ایک اچھے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کو یاد رکھا جائے، یقین مانیں ماضی کی ناکامیاں ہمیں مستقبل میں کامیاب نہیں ہونے دیں گی اگر ہم نے ان سے سبق حاصل نہیں کیا۔ ہاشم پورہ کا فیصلہ ہوچکا ہے، لیکن ملیانہ، فتح گڑھ جیل اور میرٹھ جیل میں ہوئے قتل عام کے ملزم ابھی آزاد ہیں، ان کو معاوضہ دینے میں بھی سرکار ناکام رہی ہے، ملیانہ میں مرنے والوں کو صرف بیس ہزار بطور معاوضہ دیا گیا جو کہ انصاف کا مذاق اڑانے کی مانند ہے۔
[email protected]