مالیگاؤں کا فیصلہ تفتیشی اداروں پر سوالیہ نشان: عرفان قادری

0

عرفان قادری

مالیگائوں بم دھماکہ مقدمہ اب محض ایک عدالتی فیصلہ نہیں رہا، بلکہ ایک ایسا سوالیہ نشان بن چکا ہے جس نے پورے نظامِ انصاف، تفتیشی اداروں، حکومت اور میڈیا کی ساکھ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ 2008 کے اس ہولناک سانحہ کے بعد جن چہروں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا وہ برسوں تک دہشت گردی کی علامت بنا کر پیش کیے گئے۔ مگر 2025 میں آکر جب اسپیشل NIA کورٹ نے تمام ملزمان کو ’ثبوتوں کی کمی‘کی بنیاد پر باعزت بری کر دیا، تو انصاف کی وہ بنیادیں لرز گئیں جن پر ملک کا عدالتی نظام قائم ہے۔
عدالت کا فیصلہ اپنی جگہ، لیکن کئی سنگین سوالات اب بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔ اگر تمام نامزد افراد بے قصور تھے تو اصل مجرم کون ہیں؟ اگر سادھوی پرگیہ، کرنل پروہت اور دیگر ملزمان بے گناہ تھے تو دھماکہ کس نے کیا؟ ان دھماکوں میں ہلاک ہونے والے 6 افراد کے خون کا حساب کون دے گا؟ ان درجنوں بے قصوروں کا جو زخمی ہوئے، نفسیاتی اور جسمانی صدمے جھیلے، ان کے درد کا مداوا کون کرے گا؟ یہ سوالات صرف اخلاقی نہیں بلکہ آئینی بھی ہیں، جن کا جواب حکومت، عدلیہ اور تفتیشی اداروں کو دینا ہوگا۔مقدمے کی تفصیلات پر نظر ڈالیں تو معاملہ نہایت پیچیدہ اور متنازع نظر آتا ہے۔ دھماکہ 29 ستمبر 2008کو ہوا۔ ابتدا میں اس کی تفتیش مہاراشٹر اے ٹی ایس کے سپرد تھی، بعد میں یہ NIA کو منتقل کر دی گئی۔ تفتیش کے دوران کئی اہم گرفتاریاں ہوئیں، جن میں کچھ نے ابتدائی طور پر اقبالیہ بیانات بھی دیے۔

ملزمان کے خلاف 5000 سے زائد صفحات پر مشتمل چارج شیٹ داخل کی گئی، جس میں دہشت گردی کی دفعات، سازش، قتل اور بم سازی جیسے الزامات شامل تھے۔ اس کے باوجود عدالت کا کہنا تھا کہ ثبوت ناقابلِ اعتماد اور غیر مؤثر ہیں۔یہ سوال بھی شدید اہمیت کا حامل ہے کہ آخر استغاثہ اس قدر ناکام کیوں رہا؟ اگر پانچ ہزار صفحات بھی عدالت میں جرم ثابت نہ کر سکے، تو پھر ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ کیا تفتیشی ادارے اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے؟ یا یہ معاملہ بھی ان سیاسی اثرات کا شکار ہو گیا جو بدقسمتی سے ملک میں دہشت گردی جیسے حساس مسائل کو بھی سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں؟ اس مقدمے کو اگر کسی اور نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انصاف اور شناخت کے درمیان ایک کشمکش کی علامت بن چکا ہے۔ گزشتہ برسوں میں درجنوں مسلم نوجوانوں کو بم دھماکوں، سازش یا دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا، برسوں جیل میں رکھا گیا اور آخر میں ثبوتوں کے فقدان کی بنیاد پر بری کر دیا گیا۔ ممبئی ٹرین دھماکہ کیس میں انیس سال بعد جب بارہ مسلم نوجوانوں کو ہائی کورٹ نے باعزت بری کیا، تو مہاراشٹر حکومت محض انیس گھنٹوں میں سپریم کورٹ جا پہنچی لیکن مالیگاؤں کیس میں، جب ملزمان غیر مسلم نکلے، تو وہی حکومت چپ سادھ لیتی ہے۔ کیا انصاف کی رفتار اور سمت مذہب کی بنیاد پر طے ہوگی؟ یہ سوال محض جذباتی نہیں، بلکہ ملک کے آئینی و قانونی ڈھانچے کے مستقبل سے وابستہ ہے۔

ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ مالیگاؤں بم دھماکوں کی ابتدائی تفتیش کرنے والے افسر ہیمنت کرکرے تھے، جنہیں بعد میں 26/11 ممبئی حملوں میں شہید کر دیا گیا۔ ان پر بعد میں جو الزامات لگے، وہ نہ صرف افسوسناک تھے بلکہ ایک شہید افسر کی تفتیشی دیانت پر حملہ بھی کئے گئے۔ اگر ہیمنت کرکرے نے غلط تفتیش کی تھی تو ان کی تحقیقات کو بروقت مسترد کیوں نہ کیا گیا؟ اور اگر وہ درست تھیں تو پھر عدالت نے انہیں تسلیم کیوں نہیں کیا؟ ان تضادات کا جواب تلاش کرنا صرف قانونی فریضہ ہی نہیں، بلکہ اجتماعی انصاف کا تقاضا ہے۔ مزید یہ کہ عدالتی فیصلے سے قبل اور بعد میں جس طرح سے مخصوص حلقوں نے اس مقدمہ کو ’ہندو دہشت گردی‘ یا ’سافٹ ٹارگٹ‘قرار دے کر سیاسی مقاصد حاصل کیے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارا نظام صرف قانونی نہیں بلکہ نظریاتی چیلنجز کا بھی شکار ہے۔ انصاف کے پیمانے اگر مذہب، قومیت یا پارٹی وابستگی سے متاثر ہوں تو پھر عدلیہ کی غیرجانبداری سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔

یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ عدالتیں ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہیں، نہ کہ جذبات کی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ملزمان کو بری کر دینے سے انصاف مکمل مان لیا جائے، تو متاثرین کے لیے کون سا فورم باقی رہ جاتا ہے؟ وہ جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھویا، ان کے لیے کسی اپیل، کسی ہائی کورٹ یا کسی سپریم کورٹ کا دروازہ کھلا ہے؟ یا وہ بس میڈیا کی سنسنی اور فائلوں کی گرد میں دفن کر دیے گئے؟یہ ایک قومی المیہ ہے کہ آج تک ملک میں دہشت گردی کے مقدمات کو نہ تو یکساں حساسیت سے لیا گیا، نہ یکساں سنجیدگی سے۔ کچھ مقدمات میں حکومتیں سرگرم ہو کر اپیل کرتی ہیں، میڈیا شور مچاتا ہے اور بعض مقدمات میں خاموشی چھا جاتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یہی رویہ عوامی اعتماد کو متزلزل کرتا ہے اور عدالتی فیصلوں پر عوامی تنقید کو جنم دیتا ہے۔اس فیصلے کے تناظر میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کیا حکومت ہائی کورٹ میں اپیل کرے گی؟ اگر واقعی حکومت ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ پر یقین رکھتی ہے تو پھر اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردی کے معاملے میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کرتی۔ اگر مسلم ملزمان کی بریت پر اپیل کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے تو غیر مسلم ملزمان کی بریت پر بھی وہی اصول لاگو ہوں۔ انصاف کی بنیاد ہی یہی ہے کہ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہو، نہ کہ اس کا استعمال سیاسی فائدے یا عوامی دباؤ کی بنیاد پر کیا جائے۔

مقدمے کی تفصیلات کے جائزے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ عدالتی کارروائی میں تاخیر، سرکاری وکلا کی عدم تیاری اور بعض اہم گواہوں کی عدم دستیابی جیسے عوامل نے کیس کو کمزور کیا۔ کئی گواہ اپنے بیان سے مکر گئے، کچھ شواہد عدالت میں قابل قبول نہ ٹھہرے، اور بعض بیانات کو جبری اقبال جرم قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود سوال یہ ہے کہ تفتیشی اداروں کی یہ ناکامی معمولی کوتاہی سمجھی جائے یا دانستہ غفلت؟اس صورتحال میں میڈیا کا کردار بھی زیر بحث آنا چاہیے۔ جب کسی واقعے میں مسلم نوجوان گرفتار ہوتے ہیں تو میڈیا انہیں مجرم ثابت کرنے میں دیر نہیں کرتا، ان کی تصاویر، نام، رشتہ داروں کی تفصیلات تک نشر کی جاتی ہیں۔ لیکن جب وہی لوگ باعزت بری ہو جاتے ہیں تو نہ کوئی معذرت، نہ کوئی وضاحت۔ برعکس اس کے، جب غیر مسلم ملزمان بری ہوتے ہیں، تو میڈیا ’انصاف کی جیت‘کا جشن مناتا ہے۔یہ دوہرا معیار صرف صحافت کی ساکھ کو نہیں بلکہ جمہوری اقدار کو بھی داغدار کرتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہونا چاہیے؟ پہلا اور فوری قدم یہ ہونا چاہیے کہ حکومت اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرے اور یہ ثابت کرے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ تفتیشی اداروں کا غیر جانبدار آڈٹ کیا جائے تاکہ ان کی کارکردگی اور غیر جانب داری کا اندازہ ہو سکے۔ اور تیسرا قدم یہ کہ ایسے تمام متاثرین، جنہیں عدالتوں نے باعزت بری کیا، انہیں حکومت از خود معاوضہ اور بحالی کی عملی ضمانت دے۔یہ وقت ہے کہ ملک میں انصاف کی نئی تعریف لکھی جائے، جو صرف کتابی نہ ہو، بلکہ حقیقی زندگی میں محسوس کی جا سکے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب عوام عدلیہ، حکومت اور قانون سب پر سے اپنا اعتماد کھو بیٹھے گی اور اعتماد کے بغیر کوئی بھی جمہوریت قائم نہیں رہ سکتی۔

(مضمون نگارجنرل سکریٹری، مسلم مجلس، اترپردیش کے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS