شاہد زبیری
ملک کی آزادی کے بعد ہماری فلمی انڈسٹری نے حب الوطنی اور قومی یکجہتی کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ملک کی تقسیم کے زخموںکو مندمل کرنے میں مرہم کا کام کیا ہے اور درجنوں ایسی فلمیں ہیں جو یادگار فلمیں ہیں لیکن 2014کے بعد ملک کا سیاسی منظر نامہ جس طرح سے تبدیل ہورہا ہے، اس نے ہماری فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہمارے بھا ئی چارہ پر ہی سوال کھڑ دیے ہیں، پورا ملک فرقہ وارانہ خطوط پر تیزی سے تقسیم ہورہا ہے، ملک کو ایک خاص سمت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور حب الوطنی کے نام پر وطن دشمنی ہورہی ہے ۔فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں اس کیلئے ہر محاذ پر کام کررہی ہیں، اپنے ناپاک مقاصد اور جارحانہ عزائم کیلئے ہماری فلمی انڈسٹری کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور ماضی کے نازی جرمنی کے خطوط پر کام کیا جا رہا ہے۔
تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد ایسی فلمیں سامنے آرہی ہیں جو ملک اور سماج کو مذہب،دھرم اور زبان کے علاوہ علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا کام کررہی ہیں۔ ایسی فلموں میں پہلے ’کشمیر فائلس‘ اور پھر ’کیرا لہ اسٹوری‘ کے نام سے کافی بدنام رہی ہیں، اب اسی کڑی میں مراٹھا زبان کے ایک ناول ’چھاوا‘کو فلم کے ذریعہ پردئہ سیمیںپر پیش کیا گیا ہے۔’چھاوا‘کا مطلب ’شیر کا بچہ‘ہے، یہ شیر کا بچہ شیوا جی مہاراج کے بیٹے سنبھا جی مہا راج ہیں۔یہ ناول مراٹھا ناول نگار شیوا ساونت کی تخلیق ہے، اس کی بنیاد پر ہی ’چھاوا‘ فلم بنا ئی گئی ہے جو سنیما گھروں میں دکھائی جا رہی ہے۔یہ متنازع فلم مغل حکمراں اورنگ زیب اور مراٹھا حکمراں شیوا جی کے بیٹے سنبھاجی مہارا ج کے مابین جنگوں کو خالص فرقہ وارانہ بنیادوں پر پیش کرتی ہے اور فلم کے بعض مناظر ایسے بتائے جاتے ہیں جو دیکھنے والوں کے جذبات کو مشتعل کرتے ہیں۔
تاریخ دانوں کی نظر میں حقائق پر مبنی یہ کوئی تاریخی فلم نہیں بلکہ ایک ناول پر مبنی فلم ہے جس میں بہت کچھ رنگ آمیزی کی گئی ہے اور تاریخ کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے جس پر کچھ تاریخ دانوں نے اعتراض اٹھائے ہیں۔اس فلم کے سنیما گھروں میں دکھا ئے جا نے کے بعد ملک بھر میںنفرت کا ایک طوفان بپا ہے، گودی میڈیا آگ میں گھی ڈال رہا ہے۔اس فلم سے پہلے ’کشمیر فائلس‘ اور ’کیرالہ اسٹوری‘نے کچھ کم قیامت نہیں ڈھائی تھی جو ’چھاوا‘ فلم ڈھارہی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے مہاراشٹر کے صوبائی صدر اور ممبر اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے فلم کے تناظر میں اورنگ زیب کو لے کر کچھ تاریخی باتوں کو میڈیا کے روبرو بیان کردیا جس پر ہندوتووادی طاقتیں بھڑک اٹھی ہیں، آر ایس ایس اور بی جے پی آپے سے باہر ہیں۔ بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ ہیمنت بسوا سے لے کر یوگی مہاراج تک آگ بگولہ ہو رہے ہیں۔
یوگی جی اسمبلی میں ابو عاصم اعظمی کا ’علاج‘کر نے کی کھلی دھمکی دے رہے ہیں اور سماجوادی پارٹی کو بھی دھمکانے سے گریز نہیں کررہے ہیں۔اردو کو کٹھ ملاّ ئوں کی زبان بتانے والے یوگی جی اردو میں کہہ رہے ہیں کہ اس ’کمبخت‘( ابو عاصم اعظمی ) کوپارٹی سے نکا لو۔ 8مارچ کو یوپی کے دادری میں انہوں نے مہارا نا پرتاپ کے مجسمہ کی نقاب کشائی کے بعد ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے اورنگ زیب کے ساتھ مغل حکمراں اکبر کو بھی درمیان میں گھسیٹ لیا اور کہا کہ یہ ہمارے ہیرو نہیں ہوسکتے، انہوں نے سناتن دھرم کو مٹانے کی سازش رچی تھی۔ جو ان کو ہیرو مانتے ہیں یوگی جی نے ایسی ذہنیت کے لوگوں کے ’علاج‘ کیے جانے کی بات کہی ہے۔گودی میڈیا پر حسبِ عادت ’چھاوا‘فلم کے پس منظر میں اورنگ زیب کے کھلنائک( ویلن) ہونے کی بحثیں تیز ہوگئی ہیںاور نفرت کی گرم بازاری ہے۔
سوال یہ ہے کہ بادشاہوں یا راجا ئوں کی جنگوں کو مذہب اور دھرم کی جنگیں بتا کر نفرت کی کھیتی کی جو آبیاری کی جا رہی ہے، کیا وہ ملک اور یہاں کے رہنے والے 125کروڑ عوام کے حق میں مفید ہے؟ تاریخ کے گڑے مردے اکھاڑ نے کا یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا اور انگریزوں کے بوئے گئے نفرت کی بیج پر کب تک سیاست کی کھیتیاں کاٹی جا تی رہیں گی؟آخر ہم کب تک مغلوںکے اچھے اور برے کاموں کی بحث میں الجھے رہیں گے اور کب تک تلوار کے بل پر لوگوں کے مذہب تبدیل کرا ئے جانے کا راگ الاپا جاتا رہے گا؟ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو آج ملک میں ہندوئوں کی اکثریت کیوں ہے؟ ہمارے ملک کے باشاہوں اور راجا ئوں کو دوسروں کے مذہب اور دھرم تبدیل کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ رعایا میں کس کا مذہب کیا ہے اور کیا نہیں۔
اگرہم اکبر اورنگ زیب کی ہی بات کریں تو ان کے زیادہ جرنیل ہندو راجپوت تھے، ان کے منصب دار بھی راجپوت تھے، وزیراعظم بھی ہندو اور وزیر خزانہ بھی ہندو۔اورنگ زیب کی طرف سے لڑنے والے کمانڈر ہندو راجپوت تھے جبکہ شیواجی کا توپچی اور محکمہ جاسوسی کاسربراہ مسلمان تھا،شیواجی اور سنبھاجی کی فوج میں پٹھان مسلمان بھی شامل تھے۔ انصاف پسندمؤرخین یہ مانتے ہیں کہ اورنگ زیب نے جن مندروں کو منہدم کرایا تھا،وہ مندر وہ تھے جہاں اورنگ زیب کی حکومت کے خلاف سازشیں رچی جا تی تھیںیا باغی پناہ لیتے تھے، یہ بھی گنتی کے چند مندرتھے، ورنہ آج ملک میں اتنی بڑی تعداد میں مندر نہ ہوتے اورسیکڑوں سالہ قدیم مندر بھی موجود نہ ہوتے۔
اورنگ زیب نے گولکنڈہ کی مسجد کو بھی ڈھایا تھا، جہاں گولکنڈہ کے نواب نے سرکار کو محصول نہ دے کرساری دولت اکٹھا کرکے مسجد کے نیچے دبا رکھی تھی۔اورنگ زیب کے فرامین کے حوالہ سے معروف مؤرخ اور مجاہدآزادی بی این پانڈے نے جو حقائق بیان کیے ہیں، اس کے مطابق اورنگ زیب نے ہری دوار کے مندروں سے لے کر ورنداون، بنارس اور اجین جیسے شہروں کے مندروں کو مالی امداد بھی دی، جا گیریں بھی نام کی ہیں۔مؤرخ جھوٹ لکھ سکتا ہے، فرامین کو نہیں جھٹلایا جاسکتا۔یہ فرامین آج بھی مندروں کے منتظمین کے پاس ہیں۔ تاریخ کو اس وقت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جب تاریخ لکھی گئی تھی اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ راجہ ہوں یا بادشاہ، اپنے مخالفین کو تہہ تیغ کرنے میں رحم نہیں کھاتے تھے۔کسی بھی شہنشاہ اور راجہ کا دامن پاک نہیں ہے۔ سب نے اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے اپنے مخا لفوں کو قتل کرایا ہے۔ اس وقت اگر مسلم بادشاہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے تو ہندو راجہ ایک دوسرے پر حملے کرتے تھے اور مخالفین کو تہہ تیغ کرتے تھے، لوٹ مار کرتے تھے اور ایک دوسرے کے مندر توڑ تے تھے۔
بابر اور لودھی دونوں مسلمان تھے، دونوں میں جنگ ہوئی تھی، اگر اورنگ زیب کی بات کریں تو اورنگ زیب نے بھی اقتدار ہتھیانے کیلئے اپنے مخالفین کو نہیں بخشا، یہاں تک کہ اس نے اپنے بھائیوں تک کو قتل کرا دیا اور باپ شاہجہاں کو قید میں رکھاتھا۔اردو کے مشہور ادیب اور شاعر ابن انشاء نے اپنی طنزیہ کتاب ’اردو کی آخری کتاب‘ میں اورنگ زیب پر طنز کرتے ہوئے تاریخ کے سبق کے عنوان سے لکھا کہ ’اورنگ زیب نے ایک نماز قضا نہیں کی اور ایک بھا ئی کو زندہ نہیں چھوڑا‘ اورنگ زیب نے غیر مسلموںپر جزیہ (ٹیکس) لگا یا تو مسلمانوں سے اس نے زکوٰۃ وصول کی جبکہ برہمنوں، خواتین اور معذوروں کو جزیہ سے چھوٹ دے رکھی تھی۔یہ سچ ہے کہ اورنگ زیب کی حکومت اسلامی حکو مت نہیں تھی،اس لیے جزیہ لگا یا تو کیوں لگا یا سوال یہ بھی ہے؟ مغل حکومتوں کو مسلم حکومت کہنا بھی غلط ہے، اگر مسلم ہوتیں تو صرف غیر مسلموں سے لگان وصول کرتیں، مسلمانوں سے لگان کیوں وصولا جا تا۔ لگان نہ دینے والا غیر مسلم ہو یا مسلم سزا سب کو بھگتنا پڑ تی تھی۔
مغل حکو متوں نے اگر صرف ہندوئوں پر ظلم ڈھا ئے تھے تو ا س کی سزاآج کے مسلمانوں کو دینا کہاں کا انصاف ہے؟ہمیں نہیں بھولنا چاہیے آج 21ویں صدی میں بھی صاحب اقتدار طبقہ اپنے سیاسی حریفوں کو ملک سے غداری اور دیگر سنگین الزامات میں جیلوں میں ٹھونستا رہا ہے، ماضی میں یہی کام بادشاہ اور راجہ کرتے آئے ہیں۔ ماضی میں جن راجپوتوں،برہمنوں اور کائستھوں نے اقتدار کے مزے لوٹے تھے، آج ان کی اولادیں اقتدار کی ملائی چاٹ رہی ہیں لیکن ہندوتووادی اور فسطائی طاقتیں پرو پیگنڈہ مسلمانوں کے خلاف کررہی ہیں اور اس کیلئے فلموں کو بھی ہتھیار بنا یا جا رہا ہے،جو ہما رے ملک کے سماجی تانے بانے اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے نقصاندہ ہے۔پیچھے دیکھنے والا کوئی فرد ہو یا سماج وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔