ماہ صفر ہرگز منحوس نہیں

0

تحریر: محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت

کل کائنات کا خالق و مالک اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے، دنیا میں موجود ہر چیز کسی نہ کسی مقصد اور فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے، کسی بھی چیز کو اللہ تعالیٰ نے بیکار اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا، اُس نے دنیا کی ہر چیز اپنے بندوں کو بصورت نعمت عطا فرمائی، اُس کی کسی بھی نعمت کی تقبیح و تشنیع ہرگز جائز نہیں، آج ہماری قوم طرح طرح کے نظریات، رسومات، بدعات و خرافات، بد شگونی اور ہے اصل باتوں میں مبتلا ہے، جیسے دوران سفر کالی بلی کا راستہ کاٹ جانا سفر میں حادثہ ہونے کی علامت ہے، محرم الحرام میں نکاح جائز نہیں، اسی طرح ماہ صفر کو بھی منحوس سمجھا جاتا ہے اس مہینہ کے متعلق بھی بے شمار اور بے بنیاد باتیں مشہور ہیں، کہ یہ مہینہ مصیبتوں اور آفتوں سے بھرا ہوا ہے، اس مہینہ میں کوئی بھی نیا کام شروع نہیں کرنا چاہیے، اس کے ابتدائی تیرہ دن بہت زیادہ منحوس ہیں، اس طرح کی بے شمار خرافات و رسومات رائج ہیں، یاد رہے مذہب اسلام میں کسی بھی قسم کی بد شگونی جائز نہیں، قرآن کریم میں جگہ جگہ بدشگونی کی ممانعت آئی ہے، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
فَاذَا جَآءَتْهُم الحَسَنَةُ قالُوا لَنا هٰذِه وَاِنْ تُصِبهُم سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوا بِمُوسٰى وَ مَن مَّعَه اَلَا اِنّما طٰىٕرُهُم عِندَ اللّٰه وَ لٰكِنّ اَكثَرَهُم لَا یَعلَمُونَ (الاعراف، آیت 131)
ترجمہ: تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے سن لو ان کے نصیبہ کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں۔ (کنز الایمان)

اس آیت کی تفسیر میں حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللّٰہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: جب فرعونیوں پر کوئی مصیبت (قحط سالی وغیرہ) آتی تھی تو وہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپکے مومنین ساتھیوں سے بد شگونی لیتے تھے، کہتے تھے کہ جب سے یہ لوگ ہمارے ملک میں ظاہر ہوۓ ہیں، تب سے ہم پر مصیبتیں، بلائیں آنے لگیں،
انسان مصیبتوں، آفتوں میں پھنس کر توبہ کر لیتا ہے مگر وہ لوگ ایسے سرکش تھے کہ ان سب سے اُن کی آنکھیں نہ کھلیں بلکہ اُن کا کفر و سرکشی اور زیادہ ہو گئی کہ جب کبھی ہم اُنہیں آرام دیتے، ارزانی، سستی چیزوں کی فراوانی وغیرہ تو وہ کہتے کہ یہ آرام و راحت ہماری اپنی چیزیں ہیں، ہم ان کے مستحق ہیں، نیز یہ آرام ہماری اپنی کوششوں سے ہے (تفسیر نعیمی، جلد 09، صفحہ 117)

صراط الجنان میں ہے: فرعونی کفر میں اس قدر راسخ ہو چکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی بڑھتی ہی رہی، جب انہیں سرسبزی و شادابی، پھلوں ،مویشیوں اور رزق میں وسعت ، صحت ،آفات سے عافیت و سلامتی وغیرہ بھلائی ملتی تو کہتے یہ تو ہمیں ملنا ہی تھا کیونکہ ہم اس کے اہل اور اس کے مستحق ہیں۔ یہ لوگ اس بھلائی کونہ تو اللہ پاک کا فضل جانتے اور نہ ہی اس کے انعامات پر شکر ادا کرتے اور جب انہیں ،قحط، خشک سالی، مرض ،تنگی اور آفت وغیرہ کوئی برائی پہنچتی تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ یہ بلائیں اُن کی وجہ سے پہنچیں ، اگر یہ نہ ہوتے تویہ مصیبتیں نہ آتیں۔ (تفسیر خازن، تفسیر کبیر بحوالہ: تفسیر صراط الجنان)

ایک دوسرے مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَاِن تُصِبهُم حَسَنَة یقولوا هذِه مِن عِندِ اللّه واِن تُصِبهُم سیئة یقولوا هذِه مِن عِندِك قُل كل من عِندِ اللّه فمال هولاءِ القَومِ لا یكادُونَ یَفقَهُونَ حدیثا۔ (النساء، آیت 78)
ترجمہ: اور اُنہیں کوئی بھلائی پہنچے تو کہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور انہیں کوئی برائی پہنچے تو کہیں یہ حضور کی طرف سے آئی تم فرما دو سب اللہ کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا کوئی بات سمجھتے معلوم ہی نہیں ہوتے (کنز الایمان)

یہ آیت مبارکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے حق میں نازل فرمائی کہ اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچے جیسے مال میں فراوانی آجائے، کاروبار اچھا ہو جائے، پیداوار زیادہ ہوجائے تو کہتے ہیں یہ اللہ پاک کی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے جیسے قحط پڑ جائے یا کوئی اور مصیبت آجائے تو کہتے ہیں: اے محمد! یہ آپ کی وجہ سے آئی ہے، جب سے آپ آئے ہیں ایسی ہی سختیاں پیش آرہی ہیں۔ محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صلی اللہ علیہ وسلم، تم ان سے فرما دو کہ رزق میں کمی بیشی، قحط یا خوشحالی، رنج یا راحت، فتح یا شکست سب حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں یعنی ہر راحت و مصیبت اللہ تعالیٰ کے ارادے سے آتی ہے، ہاں ہم اس کے اسباب مہیا کر لیتے ہیں نیز یہ بات بھی یاد رہے کہ نیکی راحت کا ذریعہ ہے اورگناہ مصیبت کا سبب ہے۔ (تفسیر صراط الجنان)

احادیث میں بد شگونی کی مذمت:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’شگون شرک ہے، شگون شرک ہے، شگون شرک ہے، ہم میں سے ہر ایک کو ایسا خیال آ جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے ہٹا کر توکل پر قائم فرما دیتا ہے۔ (ابو داؤد شریف)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جسے کسی چیز کی بد فالی نے اس کے مقصد سے لوٹا دیا اُس نے شرک کیا۔ عرض کی گئی :یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم، ایسا شخص کیا کفارہ دے؟ ارشاد فرمایا: ’’یہ کہے: اے اللہ تیری فال کے علاوہ اور کوئی فال نہیں، تیری بھلائی کے سوا اور کوئی بھلائی نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ (یہ الفاظ کہہ کر اپنے کام کو چلا جائے۔) (مسند امام احمد)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے بدشگونی لی اور جس کے لیے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں، (المعجم الکبیر)
ایک دوسرے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں جس شخص میں ہوں وہ بلند درجات تک نہیں پہنچ سکتا، (۱) جو اپنی اٹکل سے غیب کی خبر دے (یعنی آئندہ کی بات بتائے) یا (۲) فال کے تیروں سے اپنی قسمت معلوم کرے، یا (۳) بدشگونی کے سبب اپنے سفر سے رک جائے۔ (تاریخ ابن عساکر)

احادیث میں بدشگونی کو شرک قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص بدشگونی کے افعال کو موثر حقیقی جانے تو شرک ہے اور یا مشرکوں کا فعل ہونے کی وجہ سے زجر اور سختی سے سمجھانے کے طور پر شرک قرار دیا گیا ہے (تفسیر صراط الجنان)
حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے، بدفالی اور بد شگونی لینا حرام ہے (تفسیر نعیمی)

ماہ صفر کو منحوس سمجھنا:
دور جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) بھی لوگ ماہ صفر المظفر کے تعلق سے اس قسم کے خیالات رکھتے تھے کہ اس ماہ میں مصیبتیں اور آفتیں بہت ہوتی ہیں، چنانچہ وہ لوگ ماہ صفر کے آنے کو منحوس سمجھتے تھے، آج بھی لوگ اس طرح کے وہمی تصورات و خیالات کے شکار ہیں، اس ماہ میں کسی بھی اچھے کام کو کرنے سے روکتے اور منع کرتے ہیں، جیسے سفر نہیں کرنا چاہیے ایکسيڈنٹ کا خطرہ رہتا ہے، شادیاں نہ کریں بچیوں کو اس ماہ میں رخصت نہ کریں گھر کے برباد ہونے کا امکان ہے، ایسے لوگ بڑا کاروبار لین دین نہیں کرتے، گھر کے باہر آمد و رفت کم کر دیتے ہیں، یہ جملہ خیالات بے بنیاد ہیں، ایسا بالکل نہیں،
مراۃ المناجيح میں ہے: بعض لوگ صفر المظفر کے آخری چہار شنبہ (یعنی بدھ) کو خوشیاں مناتے ہیں کہ منحوس شہر (صفر المظفر) چل دیا، یہ سب باطل ہے۔

سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح (بدشگونی کے متعلق) کے ایک مسئلہ کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: شرع مطہر (پاک شریعت) میں اس کی کچھ اصل نہیں، لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے، شریعت میں حکم ہے: “اذا تطیرتم فامضوا” یعنی جب کوئی شگون بد گمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو، وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہیے کہ “اللہم لاطير الا طيرک ولا خیر الا خیرک ولا الہ غيرک” یعنی اے اللہ! نہیں ہے کوئی برائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ پڑھ لے، اور اپنے رب پر بھروسہ کر کے اپنے کام کو چلا جائے، ہرگز نہ رکے، اور نہ واپس آئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ، جلد 29)

فضائل ماہ صفر:
(۱) یہی وہ مبارک و مسعود مہینہ ہے جس میں ۲ ہجری میں جگر گوشہ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا، اور آپکی رخصتی ذی الحجہ میں ہوئی، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی لاڈلی بیٹی کا نکاح اسی مہینہ میں کیا، اگر یہ مہینہ منحوس ہوتا تو اس کے بعد والی زندگی آپکی صحیح نہ ہوتی، آپ کی اولاد نہ ہوتی، آپس میں محبت نہ ہوتی، نوبت طلاق تک پہنچ جاتی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، آپ دونوں کے مابین بے پناہ محبت تھی، اور آپکی اولاد بھی ہوئی۔
(۲) اسی ماہ صفر ۴ ہجری میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی چال ناکام کرنے کے لیے اور امن و امان قائم رکھنے کے لیے جنگی دستوں کو تیار فرما کر مختلف علاقوں میں بھیجا تھا،
(۳) اسی ماہ صفر ۶ ہجری میں حضرت حضرت ثمامہ بن اثال حنفی نے اسلام قبول کیا۔ یہ قبیلہ یمامہ کے سردار تھے ایک جنگ میں قید کر کے لائے گئے تھے، تین دن تک مسجد کے ستون سے بندھے رہے، بعد میں حضور کے اخلاق سے متاثر ہو کر ایمان لے آئے تھے،
(۴) اسی ماہ صفر ۷ ہجری میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت صفیہ بنت حی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا تھا۔
(۵) اسی ماہ صفر ۸ ہجری میں جرنل اسلام، سپاہ سالار اعظم، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول فرمایا،
(۶) اسی ماہ صفر کی ۲۷ تاریخ، ۱۱ ہجری کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں ترتیب دیا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترتیب دیا ہوا آخری لشکر تھا۔
اس کے علاوہ بے شمار کام ہیں جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ماہ صفر میں سر انجام دیے گئے، اگر یہ مہینہ منحوس ہوتا تو اُن کاموں میں کبھی کامیابی نہیں ملتی، ربِّ کریم ہمیں اس طرح کی بدعات و خرافات، افکار و نظریات سے محفوظ رکھے، آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

✍🏻 محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS