ڈاکٹرمحمدعرفان
لسانی رشتہ و ادبی و فرہنگی روابط ان دو ممالک ’ایران وہندوستان‘ کے زمانۂ قدیم سے رہے ہیں اور غزنویوں، ترکوں و مغلوں کے زمانہ میں ان میں مزید اضافہ ہوا اور مضبوطی آئی۔ جیسا کہ دانشوروں نے لکھا ہے: مغلیہ دور حکومت میں ہندوستان اور ایران دو گھر اور ایک آنگن کی مانند تھے۔ استعماریت کہ دور میں بھی یہ روابط قائم رہے۔ اٹھارویں صدی میں انگریزوں نے ہندوستان میں قدم رکھا اور انیسویں صدی میں حاکم ہند ہوگئے۔ صنعتی انقلاب دنیا بھر میں سماجی و معاشی تبدیلی لایا، لیکن استعماریت نے نئے مسائل پیدا کیے اور سرزمین ایشیا و افریقہ پر تسلّط قائم کرنے کی کوشش میں یوروپی ممالک آپس میں نبرد آزما ہوئے۔ اسی وجہ سے بیسویں صدی کے اوایل میں پہلی و دوسری عالمگیر جنگیں واقع ہوئیں۔
سال انقلاب 1857، ہندوستان کی تاریخ میں اہم سال شمار ہوتا ہے۔ انگریز وں کے ذریعے مغلیہ حکومت کے خاتمے کے بعد ظلم و ستم ایجاد ہونے لگتے ہیں۔ ہندوستان پوری طرح سلطنت برطانیہ کے قبضے میں چلا جاتا ہے۔ اسی زمانہ میں ایران کی سیاسی و سماجی حالات پر نظر کی جا ئے تو پتا چلتا ہے کہ روس، ترکی و افغانستان ایران کے پڑوسی، یہ ممالک آپسی سرحدی جنگ میں مصروف رہتے تھے۔ روس ایران و افغانستان کی سرزمین پر مسلّط ہوچکا تھا۔ 1856 میں انگریزوں نے ایران سے افغانستان میں جنگ کی اور فتحیاب ہوئے۔ فرانس انگریزوں کے خلاف ایران کے بادشاہ ’فتح علی شاہ قاچار‘ سے معاہدہ کرچکا تھا. ہندوستان و افغانستان پہ تسلّط پانے کے لیے ان بڑے ملکوں میں کشمکش و جنگ کے حالات بنے رہتے تھے۔ زمانہ قدیم سے ہی ہندوستان کی تجارت یوروپی ملکوں سے رہی ہے اور اٹھارویں و انیسویں صدی میں ہندوستانی خام مال یوروپی صنعت کے لیے زیادہ ضروری تھا۔
دوسری طرف استعماریت مسلمان ملکوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ اسلامی ملکوں میں انگریزوں اور استعماریت کے خلاف تحریک چلائی گئی۔ ان تحریکوں میں علمائے دین پیش پیش تھے۔ 1857 کے انقلاب سے قبل ہندوستان میں شا? ولی اللہ دہلوی، شاہ عبدالعزیز دہلوی، مولانا اسماعیل شہید وغیرہ نے استعماریت اور انگریزوں کے سرزمین ہندوستان میں بڑھتے اثر و رسوخ کے خلاف آواز بلند کی اور مسلمانوں کو اس طوفان بلا خیز سے آگاہ کیا اور تحریکی شکل دی۔ اس وقت ایران کی سماجی و سیاسی حالات مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بھی علمائے اسلام استعماری نظام اور انگریزوں کا ایران اور اسلامی ملکوں میں بڑھتے اثر و رسوخ دیکھ کر قوم کو آگاہ کر رہے تھے۔ انگریز، روس و فرانس اپنے منافع کے لیے ایرانی بادشاہوں سے دوستی و معاہدے کرتے رہے۔ اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ یہاں سے انیسویں صدی میں ’جمال الدین افغانی‘ استعماریت کے خلاف تحریک شروع کردی۔ جمال الدین افغانی تین سال ہندوستان میں بھی رہے اور یہاں رہ کر ہندوستان کے کئی شہروں کا دورہ کیا اور اپنے پیروکار و شاگرد پیدا کیے۔
انیسویں صدی کے درمیان ان دو ممالک ’ایران و ہندوستان‘ کی سماجی زندگی کی بری حالت ہوچکی تھی، سماجی و معاشی مسائل ان دو ملکوں کے کم و بیش ایک ہی تھے۔ یوروپی ملکوں کی تاثیرت جو ان دو ملکوں میں پڑیں اچھی اور بری دونوں ہیں۔ ہندوستان و ایران میں صنعت و ایجادات کا تعارف ہوا۔
انیسویں صدی میں ہندوستان و ایران میں کچھ بڑے دانشوران و روشن خیالان پیدا ہوئے اور ان لوگوں نے علم جدید اور تعلیم نسواں کے لیے مہم چلائی اور قدیم رسم و رواج، کہنہ پرستی کے خلاف کھڑے ہوئے، مثلاً راجہ رام موہن رائے، سر سید احمد خان، جیوتی با پھولے، قائم مقام فراہانی، امیر کبیر، ملکم خان وغیرہ۔ بالآخر دانشوروں کی ایسی جماعت تیار ہوئی، جو استعماریت کے نقصانات سے آگاہ تھیں اور عوام کو آگاہ کیا۔ اب آزادی کی تحریکیں ان دونوں ملکوں میں چلنے لگی۔ ایران میں تحریک قیام جمہوریت اور طریقہ حکومت ولایت کو ختم کرنے کی چل پڑی۔ جس کہ نتیجہ میں سال 1906 میں ایران میں مجلس شوریٰ یعنی پارلیامنٹ قائم ہوئی۔ ہندوستان میں اسی سال ’مسلم لیگ‘ قائم ہوئی۔ سال 1918 میں انگریزوں نے ’ترکی‘ کے خلیفہ جو عالم اسلام میں قابل احترام تھا کو بر طرف کر دیا۔ یہ خبر دنیا کے مسلمانوں کے لیے باعث شرمندگی تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں نے بھی انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی، جو تاریخ میں ’تحریک خلافت‘کے نام سے جانی جاتی ہے۔
اس دوران ’ہندوستان و ایران‘ کے سیاسی معاملات انگریزوں کے ہاتھوں میں تھے۔ لیکن ادبی و ثقافتی روابط اچھے رہے اور فارسی زبان و ادب کا ان روابط میں اہم مقام رہا۔ چھاپہ خانہ (پریس) کی آمد سے کتابوں کی چھپائی کا کام آسان ہوا اور رروزنامہ نویسی کا آغاز، اخبارات و رسائل لوگوں کے ہاتھوں میں بآسانی پہنچنے لگے۔ ہندوستان میں انگریزی، فارسی، اردو و ہندی زبانوں میں اخبارات شائع ہونا شروع ہوئے۔ ایران میں ’ناصرالدین شاہ‘ کے زمانے میں روزنامہ نویسی آزاد نہیں تھی، ایرانی دانشوروں نے دوسرے ملکوں سے فارسی زبان میں ایران کے لیے اخبار نکالے۔ ایرانی صحافیوں نے ہندوستان سے بھی فارسی زبان میں اخبار نکالے۔ اس وقت ہندوستان میں فارسی کتابوں کی چھپائی آسانی سے ہونے لگی تھی اور یہاں سے فارسی زبان کی کتابیں تاجروں کے ذریعہ ایران پہنچتی تھیں۔
پہلی و دوسری جنگ عظیم کا واقعہ پورے دنیا کے ملکوں کے لیے بڑا واقعہ تھا، جس کے برے اثرات تمام ملکوں پر پڑے۔ ہندوستانی سیاستداں و دانشور انیسویں صدی کے اوایل میں ایران میں پہچانے گئے۔ گاندھی جی تحریک آزادی ہند میں فلسفہ قدیم ہند اہنسا (عدم تشدد) کو تبلیغ کیا، اسی سبب گاندھی جی پوری دنیا میں مشہور ہوئے۔ ایران میں بھی گاندھی جی عوام الناس میں جانے گئے۔ ایرانی دانشوروں نے گاندھی کے فلسفہ اور تحریکوں پر مضامین لکھے اور انکی کتابوں کے فارسی میں ترجمہ کے کیے۔
سال 1928 میں ’رابندر ناتھ ٹیگور‘ کو نوبل انعام ملا اور انکی شناخت دنیا میں ہوئی، اسی وقت ’ٹیگور‘ کی مقبولیت ایران میں حاصل ہوئی۔ ٹیگور کے خاندان ایران شناس تھا۔ ٹیگور کو شاہ ایران نے سفر ایران کی دعوت دی اور انھوں نے ایران کا سرکاری مہمان کی حیثیت سے ایک ماہ وہاں قیام کیا۔ ٹیگور کی شاعری صلح و امن کی شاعری ہے۔
زبان و ادبیات فارسی ہمیشہ سے روابط ’ہند و ایران‘ میں اہم جزو رہی ہے، ہندوستانی فارسی شاعر و محققین ایران میں، اور ایرانی شاعر و ادیب و دانشور ہندوستان میں محترم و معزز رہے ہیں۔ ان لوگوں نے ایران و ہندوستان کی دوستانہ روابط کو مضبوط کیا۔ اس زمانہ میں جو مشہور ایران شناس محقق ہندوستان میں ہوئے، مثلاً مولانا حسین آزاد، علامہ شبلی، حافظ محمود شیرانی، دکتر محمد اسحاق وغیرہ۔ ایرانی محققین نے ان کی کتابوں کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ علامہ اقبال نے دنیا میں بحیثیت شاعر مشرق و فلسفی شہرت پائی۔ اقبال ایران میں بعد وفات پہچانے گئے۔ اقبال ’جمال الدین افغانی‘ کی فکر سے متاثر تھے۔ اقبال کی شاعری و فلسفہ کا ایرانی دانشوروں اور ادیبوں نے مطالعہ کرنا شروع کیا اور ان کے فلسفے کو اپنایا۔ ایران کے اسلامی انقلاب اور قیام اسلامی جمہوریہ ایران میں ‘فکر اقبال’ کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
جواہر لعل نہرو اس زمانہ میں اپنی سیاسی تدبر اور علم کہ وجہ سے دنیا میں شہرت پائی۔ نہرو کے خاندان فارسی دان اور ایران شناس تھے۔ نہرو جی نے ایران کو ہمیشہ دوست شمار کیا اور وہ اپنی کتابوں میں جو رشتہ قدیم ہند و ایران کا لسانی اور فرہنگی رہا ہے، اسے تازہ کرتے ہیں اور مستقبل میں یہ روابط بہتر دیکھنا چاہتے ہیں۔ نہرو جی ہندوستان کو آزادی ملنے کے بعد وزیر اعظم ہند ہوئے اور ایران کا سرکاری دورہ کیا۔ ایرانی دانشوروں نے ان کی کتابوں کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔
روابط ہند و ایران کے حوالے سے ہندوستان اور ایران کے دانشوروں نے تصنیف و تالیف و ترجمہ کا کام دلچسپی سے کیا، مثلاً علی اصغر حکمت، محمود تفضلی، ملک الشعراء، رشید یاسمی، صادق ہدایت، ابراھیم پور داؤد، ڈاکٹر اسحاق، ڈاکٹر تارا چند وغیرہ صادق ہدایت ہندوستان آئے، یہاں کی سماجی زندگی کا مطالعہ کیے، ممبئی میں زبان پہلوی سیکھی، اسناد پہلوی زبان کا مطالعہ کیا۔ صادق ہدایت فلسفہ قدیم ہند سے زیادہ متاثر تھے، ان کا ناول ’بوف کور‘ بہت مشہور ہوا، یہ کتاب فلسفہ آریائی قدیم ہند اور روابط باستانی ’ایران وہند‘ کو یاد دلاتی ہے۔ رشید یاسمی بھی ہندوستان کی آثار قدیمہ و تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کی اشعار چکامہ ’روابط ہند و ایران‘ کو اجاگر کرتے ہیں۔’قصیدہ سلام بہ فرہنگ ہند‘ ملک الشعرا بہار کی نظم ہے، جو ان دو ملکوں کا روابط دیرینہ کو تازہ کرتی ہے۔ محمود تفضلی نے نہرو کی لکھی گئی کتابوں کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا اور انھوں نے اہم کتابیں ہندوستان کی تاریخ و تمدن پر لکھیں۔ ڈاکٹر راجندر پرشاد، دکتر سپرو و دکتر تارا چند فارسی زبان و ادب سے گہری انسیت رکھتے تھے اور ایران شناس تھے۔ ایران و ہند کی دوستی کو وسیع کیا۔ پارسیان ہند نے ایران کو ہمیشہ یاد رکھا، ہندوستانی پارسیوں میں بھی ایران شناس ہوئے اور پہلوی زبان کے آثار کی حفاظت کرتے رہے، ایرانی مملکت بھی اس ہندوستانی پارسی قوم کو احترام کی نظر سے دیکھتی رہی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ایران اور ہندوستان کے جو ادبی و ثقافتی روابط اس دور جدید میں ہیں، ان کی جڑیں زمانہ قدیم کے روابط سے وابسطہ رہی ہیں اور گزشتہ روابط کی تاریخ جو ان دونوں ملکوں میں رہی ہے، وہ اس دورہ حال میں سے وسیع کرتی ہے۔ اسی عصر حاضر میں میں ان دونوں ملکوں میں جو سیاسی روابط ہیں، ان میں بھی سابقہ ادبی و فرہنگی روابط آج کے سیاسی روابط میں کار فرما ہیں۔ نیز موجودہ سیاسی روابط کو تقویت بخشتے ہیں۔ اس راہ میں زبان و ادب کا اہم مقام ہے۔ ٭٭