مدھیہ پردیش : کانگریس نے لیا مذہبی کارڈ کا سہارا

0

مدھیہ پردیش میں کانگریس کو لگتا ہے کہ اس مرتبہ اس کا اقتدار پر قبضہ ہونا یقینی ہے۔ چونکہ گزشتہ 18سال تک بی جے پی مدھیہ پردیش میں بی جے پی سیاہ سفید کے مالک رہی ہے اور پچھلے دفعہ 2018میں الیکشن جیتنے کے باوجود کانگریس پارٹی تقریباً ڈیڑھ سال تک اقتدار میں رہی، مگر کانگریس کی اندرونی خلشفار نے بی جے پی کو بڑے نادر موقع فراہم کرائے۔ جیوتی رادتیہ سندھیا اپنے حامی ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہوگئے اور کمل ناتھ کی حکومت گر گئی۔ مدھیہ پردیش میں اتنے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باوجودبی جے پی میں جوش وخروش کی کمی ہے۔ وسائل تو ہیں مگر مسائل بھی ہیں۔
بی جے پی کی اندرونی خلشفار نے اگرچہ کانگریس کے امکانات کو بڑھا دیا ہے، مگر یہ بات بھی صحیح ہے کہ جیوتی رادتیہ سندھیا کی غیر حاضری نے اور بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد کانگریس پارٹی ایک متحد پارٹی کے طور پر بن کر ابھری ہے۔ جبکہ بی جے پی کے اندر کئی خیمے بن گئے ہیں اور مرکزی قیادت نے جو حکمت عملی اینٹی ان کمبنسی کو ختم کرنے کے لیے اختیار کی ہے اس کی وجہ سے اس خلشفار کے مزید بڑھنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ مرکزی وزرا اور بہت مصروف وزراء مرکز کی سیاست سے الگ کرکے ریاستی سطح کی سیاست میں اتار دیے گئے۔ یہ صورت حال اگرچہ غیر معمولی سے دکھائی دیتی ہے، مگر ا س کے منفی پہلو بھی ہیں۔ اس خلشفار سے مقامی سطح پر کام کرنے والے وہ پارٹی ورکر لوکل لیڈر جو الیکشن کے وقت ٹکٹ ملنے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ مایوس ہوگئے ہیں، یہ صورت حال مدھیہ پردیش کے علاوہ راجستھان میں بھی دیکھی جارہی ہے۔ بہر کیف بی جے پی کی اندرونی خلشفار پر زیادہ توجہ دینے کے بجائے کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر خاص طور پر کمل ناتھ اور دگوجے سنگھ جن کو مرکز ، ریاست ، انتظامیہ اور تنظیم دونوں میں یدے طولا حاصل ہے۔ بڑی یکسوئی اور دوراندیشی کے ساتھ الیکشن کی تیاری کررہے ہیں۔
دونوں لیڈروں میں بلا کی جگل بندی ہے۔ دونوں ہی لیڈر سندھیا خاندان کے چشم وچراغ سے نالاں تھے اور سندھیا کی ڈیڑھ کی اینٹ کی مسجد بنانے کی پالیسی کے خلاف تھے۔ سندھیا اپنے زعم میں عوامی سطح پر اتنے سرگرم نہیں رہے، مگر اپنے اثرورسوخ کے علاقے گوالیار میں ان کا دبدبہ برقرار رہا ہے۔ اگرچہ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان کے خود کے حلقے میں وہ اپنے سیٹ نہ نکال پائے۔ بہر حال آج صورتحال بالکل مختلف ہے اور دگوجے سنگھ نے خاص طور پر اپنے بیٹے کو اس علاقے میں سرگرم کردیا ہے اور بی جے پی کے دو خیموں سندھیا کے حامی اور مخالفوں کی خلفشار کی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کانگریس پارٹی کے اندر کے چانکیہ الیکشن جیتنے کے لیے ہر ممکن ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ وہ مذہبی کارڈ بھی کھیل رہے ہیں۔ دگوجے سنگھ نے پچھلی مرتبہ نرمدا یاترا شروع کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ان کی پارٹی بھی مذہب کے تئیں اس کو قدر بیزار نہیں ہیں جتنا کہ بی جے پی اس مذہب یا ہندوتو مخالف قرار دینے کی کوشش کررہی ہے۔
اترپردیش میں کانگریس کے مقامی لیڈر وہ ووٹروں کو تاثر دیتے رہے ہیں کہ رام جنم بھومی کے قیام میں سب سے پہلا تعاون کانگریس نے ہی کیا تھا۔ کانگریس کے لیڈر اس معاملے میں کانگریس کے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کی کارگزار ی گنواتے رہے ہیں۔ بہر کیف پچھلے دنوں کمل ناتھ اور دگوجے سنگھ نے مدھیہ پردیش کے مشہور مہاکال مندر میں بنائے گئے مجسموں اور مورتیوں کے خراب معیارکی بات اٹھائی تھی یہ بات قارئین کو باور کرانے کی بات کوشش کی تھی کہ بی جے پی کی کرپشن مورتیوں اور مجسموں تک کو نہیں چھوڑا ۔
مہاکال مندر میں جس طرح نے مورتیاں منہدم ہوئی تھیں وہ عقیدتمندوں کے ذہن سے آسانی سے مٹنے والی بات نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ نے اپنے آپ کو بڑا رام اور ہنومان بھگت ثابت کرنے کے لیے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے انتخابی حلقے بدھنی میں وکرم مستل کو اتارا ہے۔ اگرچہ انہوںنے متسل کے انتخابی حلقے کا نام نہیں بتایا ہے اور اس کو صیغہ راج میں رکھا ہے، مگرانہوںنے ٹوئٹر ہینڈل سے جو پیغام دیا ہے وہ بھی بڑا معنی خیز ہے۔ انہوںنے کہا ہے کہ آپ مسکراتے رہیے ۔ ہنمومان جی آپ کی ہر بات کی خیال رکھیں گے۔ کمل ناتھ کے ذریعہ اس پیغام کے آنے کے بعد وکرم مستل نے علاقے کے ایک مندر کا دورہ کیا اور کہا کہ کوئی بھی کام ایسا نہیں ہے جس کو انجام تک نہیں پہنچایا جاسکے۔ بھگوان ہنومان اپنے عقیدت مندو ںکی ہر چیز کی خیال رکھیں گے۔
مستل نے بھی کہاہے کہ کوئی بھی منزل حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ میں ایک عوامی نمائندہ ہوں۔ عوام کسی بھی سلطنت کو بے دخل کرسکتی ہے۔ کوئی بھی چیز ہنمومان جی اور ان کے بھکتوں سے بالا تر نہیں ہے۔ اس پوری بیان بازی سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ بی جے پی کے رام بھکتی کا مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس پارٹی ہنمومان جی کا سہارا لے رہی ہے۔ اس کے سامنے شیوراج سنگھ چوہان کا اسمبلی حلقہ ہے جہاں وہ اوران کی اہلیہ انتہائی سرگرم ہے۔ پچھلی مرتبہ بھی بدھنی سے شیوراج سنگھ کافی مشقتوں کا سامنا کرناپڑا تھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS