کسی ملک کے لیڈران انتخابی کامیابیوں کے لیے جائز انسانی حقوق کو پس پشت ڈال کر جب کسی خاص مذہب، نسل، زبان، ثقافت کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے مذموم قول و عمل پر خبریں بنیں گی، دیگر ملکوں کے لوگ بھی ان کی سیاست سے واقف ہو جائیں گے اور اس کا اثر ان کے ملک کی ساکھ پر پڑے گا مگر انتخابی کامیابیوں کو ہی سب کچھ ماننے والے لیڈران یہ سب کہاں سوچتے ہیں۔ اگر سوچتے تو نیپال کا ہندوستان سے وہی رشتہ رہتا جو پہلے تھا، نیپال کے بدلتے سیاسی حالات کا اثر خود ہند نژاد نیپالی باشندوں پر نہ پڑتا، مدھیسیوں کو یہ محسوس نہ ہوتا کہ ان کی کوئی نہیں سنتا، نیپال کے دیگر لوگوں کی طرح ان کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جاتا۔ آج صرف اسی سوال کا جواب جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیا نیپال پر چین کا اثر بڑھتا جا رہاہے بلکہ جاننے کی ضرورت یہ بھی ہے کہ کیا کچھ نیپالی لیڈروں نے یہ بھلا دیا ہے، نیپال اور ہندوستان کا صدیوں سے ’روٹی اور بیٹی‘ کا رشتہ رہا ہے، دونوں ملک زبان و ثقافت کے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں، دونوں کے مابین مذہب کی بنیاد پر بھی صدیوں پرانا رشتہ ہے اور نیپال برسوں تک دنیا کا واحد ہندو راشٹر رہا ہے، نیپالیوںکو ہندوستان اور ہندوستانیوں کونیپال جانے کیلئے کبھی ویزا- پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑی، آج بھی نہیں پڑتی ہے۔ یہ سب جاننے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ابھی ایک دہائی پہلے تک نیپال میں ہند مخالف بیانات کم ہی سنے جاتے تھے، نیپالی لیڈران ہندوستان کے خلاف خواہ مخواہ کا تنازع پیدا کرنے سے گریزکیا کرتے تھے مگر 2020 میں لمپیادھورا، کالاپانی، لیپولیکھ کا تنازع ان کی طرف سے پیدا کیا گیا جبکہ شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ ان علاقوں کو متنازع بنا دیا جائے گا۔
نیپالی بولنے والے اور صدیوں سے نیپال میں رہنے والے لوگوں نے نیپال کے ترائی میں رہنے والے ان لوگوںکو جن کی زبان نیپالینہیں اور جن کا تعلق ہندوستان سے تھا، یوں تو 1990 سے ہی ’مدھیسی‘ بولنا شروع کر دیا تھا۔ اس کا بظاہر مطلب تھا، ’مدھیس کے لوگ‘ مگر یہ اس بات کا بھی اشارہ تھا کہ نیپالی بولنے والے لوگ اپنی طرح ہی مدھیسیوں کو نیپال کا شہری نہیں مانتے، اس کے باوجود 2008 میں نیپال کے جمہوریہ بننے پر اس کے پہلے صدر رام برن یادو اور نائب صدر پرمانند جھا مدھیسی ہی تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مدھیسیوں کے لیے حالات 2008 تک اتنے خراب نہیں تھے جتنے خراب آج ہیں۔ نیپال نے گزشتہ دو برس سے بحث و مباحثے کے بعد اسی سال جولائی میں شہریت ترمیمی بل پاس کیا ہے۔ اس کے تحت کسی نیپالی لڑکے سے شادی کرنے والی غیر ملکی لڑکی کو نیپال کی شہریت حاصل کرنے کے لیے سات سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس کا زیادہ اثر ان مدھیسیوں پر پڑے گا جنہیں ہندوستانی لڑکیوں سے اپنے لڑکوں کی شادی کرتے وقت پہلے سوچنا نہیں پڑتا تھا۔ حالت یہ ہے کہ سابق نائب صدر پرمانند جھا نے ایک انٹرویو میں یہ بات کہی ہے کہ ’ہمارا حال بھارت کے مسلمانوں سے بھی گیا گزرا ہے۔ بھارت میں آپ مسلمان کو دو نمبری شہری تو نہیں بولتے ہیں۔ لیکن نیپال میں مدھیسی دو نمبری شہری ہیں۔ اب بھی شہریت کو لے کر تنازع ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ نیپال کے سابق نائب صدر پرمانند جھا کو یہ کیوں کہنا پڑا، ’ہمارا حال بھارت کے مسلمانوں سے بھی گیا گزرا ہے۔‘کیا نیپال میں ہندوستانی مسلمانوں کے حالات موضوع بحث ہیں اور مدھیسی اپنے حالات کا موازنہ ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات سے اسی لیے کرتے ہیں؟ مگر وہ موازنہ کیوں کرتے ہیں؟ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی وجہ سی اے اے ہے یا وجہ کچھ اور ہے، البتہ ہماری حکومت کویہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مدھیسی کیوں اپنے حالات کا موازنہ ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات سے کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا کرنے کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ لنچنگ اورلنچنگ کے ملزمین کے استقبال، نقاب پر تنازع، مذہبی مقامات پر تنازعات، فسادات، مذموم بیانات اور عصمت دری کے مجرمین کی سزا معافی اور ان کے استقبال سے بیرون ملک یعنی نیپال میں ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں لوگوں نے ایک رائے بنالی ہے اور اسی لیے سابق نیپالی نائب صدر پرمانند جھا تک کو یہ کہنا پڑا ہے کہ ’ہمارا حال بھارت کے مسلمانوں سے بھی گیا گزرا ہے۔‘
[email protected]
مدھیسی اور ہندوستانی مسلمان!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS