ایم اے کنول جعفری
زلزلے کا نام سنتے ہی قلب میں گھبراہٹ اور جسم میں لرزہ طاری ہونے لگتا ہے۔خوف ودہشت کی وجہ زلزلے سے عمارتوں کا انہدام توہے ہی، ملبے کے ڈھیر میںجان و مال کی تباہ کاری بھی ہے۔ زلزلے کے سبب پہاڑ درکنے، زمین دھنسنے، بجلی کی لائن،سڑک، پُل اور ریلوے ٹریک ٹوٹنے وغیرہ سے جو تباہی آتی ہے، اُس کے تصور سے ہی رُوح کانپنے لگتی ہے۔ 8نومبرکی رات تقریباً1.57بجے ہمالیہ پربت کے نیچے کے علاقے میں آئے شدید زلزلے کا اثر نیپال،چین اور ہندوستان میں دیکھا گیا۔ حالاں کہ اس سے جان و مال کا بہت زیادہ نقصان نہیں ہوا،لیکن یہ زلزلہ بڑی قدرتی آفت کے بارے میں ایک اور سنگین انتباہ ضرور ہے۔
نیپال کے دارالخلافہ کٹھمنڈو سے تقریباً 430 کلومیٹر دور آئے زلزلے کی شدت ریکٹرپیمانے پر6.3ریکارڈ کی گئی۔ اس کا مرکزدَوتی ضلع کے دِپائل سے تقریباً21کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ منگل کی صبح آیا زلزلہ ریکٹر پیمانے پر4.5 ریکارڈ کیا گیا،جبکہ شام کو آئے زلزلے کے جھٹکوں کی شدت 4.9 اور 3.5پائی گئی۔ بُدھ کے روز24گھنٹے کے دوران چار مرتبہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ اس سے قبل اتوار کے روز اُتراکھنڈ میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تھے۔رات میں آئے زلزلے کے جھٹکے مغرب میں وڈودرا سے مشرق میں سلی گڑی اور جنوب میں وجئے واڑہ تک ایک درجن سے زائد ریاستوں میں محسوس کیے گئے۔ دہلی، ہریانہ، اُتراکھنڈ، اُترپردیش، بہار، منی پور، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، پنجاب، تلنگانہ، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال کے علاوہ این سی آر میں کئی مقامات پر زلزلے کا اثر دیکھا گیا۔بدھ کے روز صبح3.15اور 6.27 بجے ، اتراکھنڈ اور نیپال علاقے میں بالترتیب 3.6 اور 4.3 شدت کے ہلکے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ اتراکھنڈ کے پتھوراگڑھ، باگیشور، الموڑہ،چمپاوت،اُودھم سنگھ نگر ، نینی تال، رودرپریاگ، چمولی، ٹہری، پوڑی، ہری دار،اُتر کاشی اور دہرہ دون میں زلزلے کے جھٹکے آئے۔ اطلاع کے مطابق نیپال میں ایک پولیس چوکی اور آٹھ گھر منہدم ہوئے،جبکہ چھ افرادہلاک اور پانچ شدیدطور پر زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل 19اکتوبر کو کٹھمنڈو میں5.1شدت اور31جولائی کو 6.0 شدت کے زلزلے آئے تھے۔ 2015 میں کٹھمنڈو اور پوکھرا میں آئے 7.8 شدت کے زلزلے نے خوب تباہی مچا ئی تھی۔ اس میں 8,964افراد ہلاک اور22,000زخمی ہوئے تھے۔1984میںنیپال میں 8.0شدت کا سب سے بدترین زلزلہ آیا تھا ، جس نے کٹھمنڈو،بھکتا پور اور پاٹن شہروں میںزبردست تباہی مچائی تھی۔حالیہ زلزلے کے جھٹکے زیادہ نقصان دہ تو نہیں تھے، لیکن ہمالیائی خطے کے مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطہ زلزلوں و دیگر قدرتی آفات کے لیے انتہائی حساس ہے۔ نیپال سے ملحقہ ہندوستان کے علاقوں میں بھی اس طرح کے زلزلوں کا خطرہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس کا اندازہ اسی سے ہوجاتا ہے کہ دوتی میں آنے والے زلزلے کا مرکز اتراکھنڈ سے محض90کلومیٹر دور جنوب مشرق میں تھا۔ 2015کے زلزلے کے بعد ماہرین ارضیات نے کہا تھا کہ اتراکھنڈ زلزلے کے ’ ٹائم بم ‘پر بیٹھاہوا ہے۔ماہرین ارضیات نے خبردار کیا کہ چمولی اور باگیشور جیسے اضلاع 100فیصد انتہائی حساس ارضیاتی زون میں واقع ہیں،جبکہ دہرہ دون، چمپاوت،نینی تال، اُودھم سنگھ نگراور ہری دوار100فیصد حساس زون میں ہیں۔ اس طرح کا خطرہ ہماچل پردیش، اُتر پردیش اور دارالخلافہ دہلی کے بارے میں بھی ہے ، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔بلا شبہ زلزلہ جیسی قدرتی آفات انسانی حدود کوظاہر کرتی ہیں،لیکن اسے اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے بہانہ نہیں بنایا جا سکتا۔بے ترتیب شہر کاری اور ترقی کے نام پر اندھا دھند تعمیرات سے ایسی آفات کا خطرہ بڑھا ہے۔
زلزلے کی بابت قدیم لوگوں کی عجیب وغریب رائے تھی۔ دیوہیکل درندے، طویل قامت چھپکلی، قوی الجثہ برفانی کتے، سمندر کے اندر کا دیوتا، کچھوے،گائے اور زیرزمین مردوں کی آپسی لڑائی کو زلزلے کا ذمہ دار مانا جاتا تھا۔ عیسائیت میں زلزلوں کو خدا کے باغی اور گنہگار لوگوں کے لیے اجتماعی سزا کہا گیا۔ اسلام میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا سبب بُرائیوں کا عام ہونا بتایا گیاہے۔ ارسطو نے کہا کہ جب زمین کے اندر کی گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے،تو زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ افلاطون کا نظریہ تھا کہ زیرزمین تیز و تند ہوائیں زلزلے کا باعث ہوتی ہیں۔18ویں صدی تک مشہور سائنس داں نیوٹن اور کئی دیگر سائنس دانوں کا اس نظریہ سے اتفاق رہا کہ زمین کی پرتوں کے درمیان آتش گیر مادہ موجود ہے۔ اس کے پھٹنے سے زلزلے آتے ہیں۔ 1760میں زلزلے سے متعلق ریورینڈجان مچل نے جدید سائنسی نظریہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جب زمین کے نیچے چٹانیں حرکت میں آتی ہیںتو زمین کی سطح میں لرزش پیدا ہوجاتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زیر زمین پائی جانے والی چٹانوں کی پرتیں لگاتار گردش میں رہتی ہیں۔جب کبھی یہ پرتیں اپنی جگہ سے کھسک جاتی ہیںتو ان کے کناروں پر شدید دباؤ پڑتا ہے۔اس دباؤ کے خاص سطح تک پہنچنے پر زمین میں بھونچال آتا ہے۔زلزلے سے عمارتیں، درخت، بجلی کے کھمبے اور دیگر تنصیبات منہدم ہوجاتی ہیں۔اگر زلزلے کا مرکز سمندر کی تہہ یا پھر ساحلی علاقہ ہوتو طوفان اور سونامی آنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین ارضیات کے مطابق زمین12ٹیکٹونک پلیٹوں پرمشتمل ہے۔ پلیٹوں کے ٹکرانے سے جو توانائی نکلتی ہے، اُسے زلزلہ کہتے ہیں۔زمین کے اندر پیدا ہلچل سے زلزلے آتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دُنیا بھر میں ہر برس 20ہزار سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ زلزلے کے جھٹکے لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں،لیکن زیادہ کمزور اور ہلکے ہونے کی بنا پر انہیں سسموگراف پر درج نہیں کیا جا تا۔اُوپر سے خاموش دکھائی دینے والی زمین کے اندرہمیشہ ہلچل کی سی کیفیت رہتی ہے۔اس بنا پرزیرزمین پلیٹیں آپس میں ٹکراتی رہتی ہیں،جس سے بھونچال آتے ہیں۔حالانکہ پلیٹیں بہت سست رفتار سے گردش کرتی ہیں، لیکن پھر بھی یہ ہر سال چار سے پانچ ملی میٹر تک کھسک جاتی ہیں۔ اس دوران کوئی پلیٹ دوسری سے دُور ہوجاتی ہے تو کوئی دوسری پلیٹ کے نیچے سے سرک جاتی ہے۔ پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور زلزلہ آجاتا ہے۔زمین کی سطح کے نیچے جس جگہ چٹانیں ٹکراتی یا ٹوٹ جاتی ہیں،اُس جگہ کو زلزلے کا مرکز کہا جاتا ہے۔ اسی نقطے سے زلزلے کی توانائی لہروں کی شکل میں لرزتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ چٹانوں پر زبردست دباؤ ہوتا ہے۔جب یہ دباؤ ایک حد سے تجاوز کر جاتا ہے،تو چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں۔اس صورت میں زمین کے نیچے برسوں سے جمع توانائی آزاد ہو جاتی ہے اور چٹانوں کی کمزور سطح کو توڑتے ہوئے زلزلے کی صورت میں تباہی کا باعث بنتی ہے۔ زلزلے کے مرکز کے قریب والے مقامات میں جھٹکوں کی شدت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں نقصا ن بھی زیادہ ہوتا ہے۔ مرکز سے دُور ہوتے جاتے مقامات میں زلزلے کی شدت کا اثر رفتہ رفتہ کم ہوتا جاتا ہے اور وہاں نقصان بھی کم ہوتا چلا جاتا ہے۔
بعض حصوں کی چٹانوں کی پرتیں اس نوعیت کی ہیں کہ ان میں دیگر چٹانوں کے مقابلے زیادہ حرکت ہوتی ہے۔ اس بنا پر وہاں زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔نیوزی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن، جاپان، روس، شمالی امریکہ میں بحرالکاہل کے ساحلی علاقے، وسطی امریکہ، پیرو اور چلی وغیرہ کئی ممالک اور علاقے زلزلوں کے اُس خطہ میں واقع ہیں، جہاں زیادہ بھونچال آنے کا خدشہ رہتا ہے۔ریکٹر اسکیل پر چار درجے سے کم شدت والے زلزلے معمولی یا کمزور نوعیت کے ہوتے ہیں اور نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ چار سے چھ درجے کا زلزلہ درمیانی شدت کاہوتا ہے۔اس میں معمولی نقصان کا امکان رہتا ہے۔ چھ سے سات درجے شدت کے زلزلے عمارتوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اور جب ریکٹر پیمانے پر زلزلے کی شدت آٹھ درجہ سے تجاوزکرجاتی ہے،تو وہ زلزلہ تباہی کا باعث بنتا ہے۔ اس میں عمارتیں منہدم ہونے کے علاوہ شاہراہ و ریلوے لائنوں کو نقصان پہنچتا ہے۔26دسمبر کو انڈونیشیا کے جزیرے سماترا میں9.1شدت کا زلزلہ آیا تھا،جس میں 2.27لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 8؍اکتوبر 2005 میں پاکستان کے شمال اور متنازع کشمیر میں7.6شدت کے زلزلے میں73ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک اورلاکھوں بے گھر ہوگئے تھے۔ 12مئی 2008میں چین کے جنوب مغربی صوبے یچوان میں7.8 قوت کے زلزلے میں 87ہزار افراد ہلاک اور3.75لاکھ افراد زخمی ہوئے تھے۔12 جنوری 2010کو ہیٹی میں7.0درجے کے زلزلے میں 2.22لاکھ لوگوں کی زندگیاں ختم ہوئی تھیں۔
دوسری جانب ہندوستانی ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے 20برسوں میں پہلی مرتبہ زمین کے نیچے پلیٹوں کے ٹکرانے اور زلزلوں کے حوالے سے ایک نمونہ تلاش کیا ہے۔ اس کے تحت نیپال میں آئے زلزلے کے 10روز قبل ہی نیپال کے زلزلے کے منبع علاقے نے30اکتوبر کو خطے میں 4.1 اور 4.9 شدت کے دو زلزلوں کے بعد زیرزمین پلیٹوں میں جمع تناؤ کی توانائی خارج کرنا شروع کر دی تھی۔ تصادم کی وجہ سے توانائی پیدا ہوئی، لیکن 8؍نومبر کی رات6.3شدت کے ساتھ پھر سے زمین لرز اُٹھی۔ ماہرین ارضیات نے پایا کہ نیپال میں دپائل سلگڑھی کا علاقہ زلزلوں کے لیے بہت حساس ہے۔ یہاں اکتوبر 2020 سے9؍ نومبر2020کے درمیان 200سے زیادہ مرتبہ پلیٹوں کے تصادم سے رگڑ پیدا ہوئی۔ ہندوستان اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ہر سال زلزلوں کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں زلزلوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے،لیکن ہندوستان میں اس حوالے سے ابھی تک کوئی ایک پیٹرن سامنے نہیں آیا ہے۔ چھوٹی یا بڑی شدت کے علاوہ ان واقعات کی آپس میں کوئی مماثلت نہیں ہے،لیکن 8؍نومبر کو آئے ہندوستان کے تقریباً 260 حصوں میں محسوس کیے گئے زلزلے کے جھٹکوں کا نمونہ ضرور ملا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]