عبدالماجد نظامی
ستمبر کے پہلے ہفتہ میں بارہ وفات کا سالانہ جشن منانے کی مناسبت سے کانپور کے مقامی مسلمانوں نے اپنے نبی سے محبت کا اظہار عوامی طور پر اس ڈھنگ سے کیا تھا کہ انہوں نے ایک خاص علاقہ میں کچھ بینروں پر آئی لوو محمدؐ لکھ کر آویزاں کر دیا۔ بظاہر دیکھا جائے تو ایک ایسے جمہوری ملک میں جہاں مذہبی آزادی دستوری طور پر تمام شہریوں کو حاصل ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں کوئی بڑی بات نہیں ہونی چاہئے تھی۔ یہ مناسبت گزر جاتی اور لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوجاتے۔ ویسے بھی اب ہماری مذہبیت اور دینی پہچان بس اتنی سی رہ گئی ہے کہ ہم جوش و جنوں میں صرف نعرے ہی لگاتے ہیں۔ عملی زندگی میں خدا و بھگوان کی ہدایات تو کیا اہمیت رکھتی ہیں ہم سب جانتے ہیں۔ بھگوان کی تصویریں جس دیوار پر آویزاں ہوتی ہیں اسی کے نیچے کتنے اخلاق سوز اعمال کئے جاتے ہیں۔ قرآن و سنت کی باتیں جس طغرہ پر لکھ کر آفس، گھر اور دکان کو سجا تو لیتے ہیں لیکن ان باتوں کو روزمرہ کی زندگی میں نافذ کرنے سے ہم ہمیشہ کتراتے ہیں۔ اگر ایسا ہی کچھ کام بارہ وفات کے موقع پر کانپور کے مسلمانوں نے کر دیا تھا تو اس سے ہندوں کے ایک خاص طبقہ کو کیا فرق پڑ سکتا تھا؟ لیکن انہوں نے اس کو نظر انداز کرنا اور قوت برداشت سے کام لیتے ہوئے اس کو مسلمانوں کی مذہبی جشن کی آزادی کا حصہ مان کر قبول کرنا گوارہ نہیں کیا۔ انہوں نے پولیس میں شکایت درج کرا دی کہ یہ ایک نئی
روایت کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ کیا نئی روایت کا قائم کرنا ہمارے ملک میں کوئی نئی بات رہی ہے؟ مذہبی اور سماجی زندگی کا ہمارا کونسا ایسا پہلو ہے جس میں جدت و ندرت کے ہزاروں عناصر ہر سال کیا ہر مہینہ پیدا نہیں ہوتے رہتے ہیں؟ ویسے بھی اس جشن کا تعلق مسلمانوں کے مذہب و روایت سے تھا تو ان پر چھوڑ دیا جانا چاہئے تھا کہ وہ اس روایت کو کیسے جاری رکھتے ہیں۔ اگر بارہ وفات کے جشن کے موقع پر اس روایت سے نظم و انتظام کے کسی معاملہ پر منفی اثر پڑتا ہو تو یقینا اس کی تلافی کا انتظام کیا جانا چاہئے تھا۔ یہ ذمہ داری پولیس اور انتظامیہ کی تھی۔ لیکن معاملہ چونکہ صرف اسی حد تک باقی نہیں رکھا گیا تھا بلکہ اس میں ہندو گروپ نے اس پہلو کا بھی اضافہ کر دیا تھا کہ مسلمانوں نے جو پوسٹرز لگائے ہیں وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بھڑکا ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ بینرز ایسے علاقے میں لگائے گئے ہیں جن میں روایتی طور پر ہندو تہواروں کا جشن منایا جاتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کیا ہمارا ملک اب اس درجہ تک عدم تحمل کا عادی بنا دیا گیا ہے کہ گلی کوچے اور محلہ و بازار تک کو دھرم و مذہب کے نام پر بانٹا جائے گا؟ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہبی ہم آہنگی کی تصویریں ہر حصہ میں نظر آتی ہیں۔ کہیں مندر اور مسجد کی دیواریں ایک ساتھ ہیں تو کہیں کلیسا و گردوارا آمنے سامنے موجود ہیں۔ ان عبادتگاہوں میں الگ الگ مذاہب کے لوگ روزانہ اپنی رسومات ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات انہی مقامات پر اپنی عبادتوں سے فارغ ہونے کے بعد لوگ آپس میں ملتے جلتے ہیں اور ان میں ایسی رفاقت و محبت پیدا ہوتی ہے کہ برسوں نہیں صدیوں تک جاری رہتی ہے۔ ان جذبات و احساسات کو ہمارے شعرا و ادبا نے اس شدت سے محسوس کیا ہے کہ انہیں لکھنا پڑا کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔ اس کا مطلب آئی لو محمد کے بینر کے بہانہ مسلمانوں کے خلاف جو محاذ آرائی شروع کر دی گئی اس کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ سیاست سے تھا۔ ایک ایسی سیاست جس میں مذہب کا استعمال ہندوستانیوں کو آپس میں جوڑنے کے بجائے ان کو توڑنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ ایسی سیاست نے ہمارے ملک کی پیشانی کو کس قدر شرمسار کر رکھا ہے لیکن اس کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا کیونکہ مذہبی منافرت کی سیاست سے ایک خاص طبقہ کو بڑا فائدہ پہونچتا ہے۔
اسی وجہ سے پہلے محبت کے بینر کو نفرت کے آلہ میں تبدیل کیا گیا اور اس کے بعد اس کو کانپور سے نکال کر بریلی اور مہاراشٹر تک پہونچا دیا گیا۔ بریلی میں جمعہ کی نماز کے بعد جو کچھ ہوا اس کو پر امن طریقہ سے حل کیا جا سکتا تھا لیکن اس الزام کے ساتھ کہ مولانا توقیر رضا نے تشدد کو بھڑکانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ کیا ہماری پولیس اس مسئلہ کو بات چیت کے ذریعہ حل نہیں کروا سکتی تھی؟ یقینا کروا سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ جب سامنے مسلمان ہوں تو ہماری پولیس کا ڈنڈا اور جوتا خود بخود چل جاتا ہے۔ ورنہ مولانا توقیر رضا کے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے ان لوگوں کو سمجھایا جا سکتا تھا جن پر پولیس کا الزام ہے کہ انہوں نے سنگ باری کی تھی۔ اس پورے معاملہ میں پولیس کی ناکامی سب سے بڑا سبب ہے کہ ایک مقامی مسئلہ پورے ملک کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ ان کی وجہ سے ہی ہندوتو کی سیاست کرنے والوں کو یہ موقع فراہم ہوا کہ وہ محبت کے نعرہ کو بھی نفرت کا ساز و سامان بنالیں۔ ملک کے بعض حصوں میں ایسے ہی طبقوں نے آئی لو محمد کے مقابلہ میں آئی لو مہادیو کے بینر آویزاں کرنے لگے۔ بھلا ایک مسلمان کو اس سے کیا اعتراض ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہندو بھائی مہادیو سے محبت کریں۔ یہ ان کے ایمان و عقیدہ کا حصہ ہے اس لئے انہیں ضرور کرنا چاہئے۔ بینر اور پوسٹر سے اس کا اظہار بھی کریں۔ کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح جب مسلمان آئی لو محمد کہتے ہیں اور اس کا اظہار بینروں اور پوسٹروں کے ذریعے کرتے ہیں تو ہندوتو کے عناصر کو کیوں زحمت ہوجاتی ہے؟
کیا مسلمانوں کو اتنی اجازت دینا بھی اب گوارہ نہیں کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ایمان و عقیدہ کا اظہار عوامی طور پر کریں؟ اگر ان کا عرص حیات اس حد تک تنگ کیا جا رہا ہے تو پھر اس ملک میں مذہبی رواداری کی قدیم تاریخ کا کیا ہوگا؟ اس سے تو ہمارے ملک کا داخلی حسن اور محبت و ہم آہنگی کے ماحول کو سخت نقصان پہونچے گا اور ملک کی سالمیت پر آنچ آ جائے گی جس سے ہمارا ہی نقصان ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حب نبی کو جرائم کی فہرست میں ڈال کر خواہ مخواہ نئے قواعد کا آغاز نہ کیا جائے۔ ہماری پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی دبا وکو قبول کرنے کے بجائے دستوری ذمہ داریوں کو پیشہ ورانہ ڈھنگ سے نبھائے اور بالکل جانبداری کا مظاہرہ نہ کرے۔ ان کا غیر جانب دار رہنا ملک میں بہتر نظم و انصرام کے لئے از حد ضروری ہے۔ سیاسی بازیگروں کو بھی چاہئے کہ ہر معاملہ کو ووٹ کی نظر سے نہ دیکھیں۔ ان کی غیر ذمہ دارانہ سیاست کی وجہ سے کئی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔ اس ملک کو محبت و آشتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ عدم تشدد کے پیامبر گاندھی جی کے ملک میں ہی اگر ان کے فلسفہ پر عمل نہیں ہوگا تو پھر کہاں ہوگا؟
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com