مفتی تنظیم عالم قاسمی
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کا ہر مسلمان رسول اکرم ؐ سے بے پناہ محبت رکھتا ہے ‘ممکن ہے عمل میں کوتاہی ہو لیکن دل و دماغ میں اللہ کے بعد اگر کسی سے عقیدت و محبت ہے تو وہ ذاتِ رسالت ہے ‘گویا خون کے ہر قطرہ میں آپ ؐ کی عظمت، احترام ‘ تعلق‘اور جذبۂ جاں نثاری ایسا رچا اور بسا ہوتا ہے کہ اسے دنیا کی کوئی طاقت جسم سے علیحدہ نہیں کر سکتی ‘یہی وجہ ہے کہ اگر پوری دنیا میں کہیں بھی شان رسالت میں کسی طرح کی گستاخی کی جاتی ہے تو کسی تفریق کے بغیر سارے مسلمان تڑپ اٹھتے ہیں ‘وہ سڑکوں پر نکل کر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر غیر معمولی احتجاج میں لگ جاتے ہیں جن سے بھی جو ہو سکتا ہے وہ اپنے طریقے پر اپنی شدید نفرتوں کا اظہار کرتے ہیں اور وہ دنیا کو پیغام دیتے ہیں ہم سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں لیکن اپنے آقا رسول اکرم ؐ کے ساتھ ادنیٰ بے ادبی برداشت نہیں کرسکتے ‘اس لئے کہ حُب نبوی ہماری زندگی کا عظیم سرمایہ ہے‘دنیا وآخرت کی کامیابی اسی سے وابستہ ہے ‘عظمتِ رسالت کے تحفظ کے لئے ہم اپنی سو جان بھی قربان کرسکتے ہیں ۔اس طرح کے تصور اور یقین سے کسی مسلمان کا دل خالی نہیں ہے اور اس کا علم ساری اقوام کوبھی ہے ‘غیر مسلم طاقتیں جانتی ہیں کہ ہم کسی بھی سازش اور منصوبہ بندی سے مسلمانوں کے دل ودماغ سے نبی ؐ کی محبت کو کھرچ نہیں سکتے اور یہ ہونا بھی چاہئے اس لئے کہ حُب نبوی ایمان کی بنیادی شرط ہے ‘اگر اس میں کوئی خامی رہ گئی تو ساری چیزیں نامکمل ہیں ‘وہ مسلمان ہی نہیں ہو سکتا جس کا دل محبت رسالت سے خالی ہو۔منافقین اپنی زبان سے رسالت کی شہادت دیتے تھے لیکن دل میں محبت نہیں تھی اللہ تعالی نے قرآن میں صاف اعلان کر دیا کہ یہ مسلمان نہیں بلکہ جھوٹے اور مکار لوگ ہیں‘یہ جہنم میں سب سے نیچے طبقہ میں جلیں گے اور انہیں سخت عذاب دیاجائے گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری نجات کے لئے یہی محبت کافی ہے ‘دلوں میں عقیدت و احترام کے بسا لینے اور جذبۂ فدائیت کے پیدا کر لینے سے ہماری ساری ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے ؟ظاہر ہے کہ عمل اور کردار نبوی ؐکو اپنائے بغیر محض دعوی ٔ محبت نجات کا سبب نہیں بن سکتا ‘ اور نہ اس سے اللہ اور اس کے رسول ؐ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے ‘اس لئے کہ حضور ؐ کی بعثت اسوہ کی حیثیت سے عمل میں آئی ہے‘اللہ تعالی نے اس لئے آپ کو بھیجا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ کر عمل کریں جیسا آپ ؐکھاتے ہیں ویسا ہی ہم کھائیں ‘جیسا آپؐ پہنتے ہیں ویسا ہی ہم پہنیں ‘جیسا آپؐ سلوک کرتے ہیں ویسا ہم بھی کریں ‘گویا ہر امر میں رسول اللہ ؐ کی پیروی اختیار کی جائے ۔قرآن کریم میں اس کو صاف انداز میں کہہ دیا گیاہے :’’تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے‘‘ ۔
یعنی عبادات ہوں یا معاملات، نجی امور ہوں یا معاشی ومعاشرتی ہر موڑ پر اللہ کے نبی کی زندگی کو آئیڈیل بنایا جائے اور ان ہی کے اسوہ کے مطابق زندگی گذاری جائے جو ان کی حیات مبارکہ کو اپنے لئے نمونہ بناتا ہے کامیابی اسی کے لئے ہے اور اسی کو اللہ کی رضامندی حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی زندگی اور عمل کو اپنی خوشنودی کی کسوٹی اور معیار قرار دیا ہے، کیوں کہ اپنی خوشنودی کا طریقہ بتانے کے لئے قانون ہدایت کے ساتھ عملی نمونہ کی سخت ضرورت تھی، اس سے بات جلد سمجھ میں آتی ہے اور عمل میں آسانی بھی پیدا ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان چیزوںکو از خود عمل کرکے نہیں بتا سکتے اس لئے کہ کسی انسان میں اللہ کو دیکھنے اور برتنے کی قدرت نہیں؛ اس لئے اپنی نیابت کیلئے انسانوں میں سے ہی سب سے بہتر انسان کا اس کے لئے انتخاب کیا گیا تاکہ وہ بشری طبیعتوں سے ہم آہنگ امور کو انجام دے۔ اور اللہ سے محبت رکھنے والوں کے لئے ایک راستہ متعین کرلیاجائے جو محبت الٰہی کے لئے نشان ثابت ہو۔ سورہ آل عمرانمیں ارشاد باری ہے ’’اے نبیؐ! آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری راہ پر چلو تاکہ تم سے اللہ محبت کرنے لگے‘‘
آیت کی تشریح کرتے ہوئے مشہور مفسر قرآن مفتی محمد شفیع ؒ لکھتے ہیں: ’’ محبت ایک مخفی چیز ہے کسی کو کسی سے محبت ہے یا نہیں اور کم ہے یا زیادہ اس کا کوئی پیمانہ بجز اس کے نہیں کہ حالات اور معاملات سے اندازہ کیا جائے،محبت کے کچھ آثار اور علامات ہوتی ہیں۔ ان سے پہچانا جائے، یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کے دعویدار اور محبوبیت کے متمنی تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان آیات میں اپنی محبت کا معیار بتلایا ہے، یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ ہو تو اس کے لیے لازم ہے کہ اس کو اتباع محمدیؐ کی کسوٹی پر آزماکر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہوجائے گا، جو شخص اپنے دعویٰ میں جتنا سچا ہوگا اتنا ہی حضور اکرم ا کی اتباع کا زیادہ اہتمام کرے گا اور آپ کی لائی ہوئی روشنی کو مشعل راہ بنائے گا اور جتنا اپنے دعوے میں کمزور ہوگا اسی قدر آپ کی اطاعت میں سستی اور کمزوری دیکھی جائے گی‘‘۔
(معارف القرآن :۲؍۵۵)۔
غرض کہ اللہ اور اس کے رسول ؐ سے محبت کا تقاضا ہے کہ قرآن و سنت پر عمل کیا جائے اور رسول اکرم ؐ نے جو نقش چھوڑا ہے اس پر اپنی زندگی کو ڈھالا جائے ‘ان کے دیئے گئے خطوط پر چلنے کو سب سے زیادہ عزیز سمجھا جائے ۔اس لئے کہ یہی مقصد رسالت اور یہی راہ نجات ہے۔ لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ سیرت کے جلسوں میں ‘جمعہ کے خطبوں اور عام اجتماعات میںسیرت کا جب بھی تذکرہ کیا جائے تو بحیثیتِ اسوہ کیا جائے اور عوام کواس کے اپنانے کی تلقین کی جائے۔رسول اکرم ؐکی حیات طیبہ کا ہر پہلو روشن اور تابناک ہے ‘آپ ؐکی ولادت سے وفات تک جتنے واقعات پیش آئے ہیں ان میں سے جس کا بھی تذکرہ کیا جائے اجرو ثواب سے خالی نہیں ہے ‘ان کو بھی بیان کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان اپنے پیغمبر ؐ کی زندگی اور حالات سے واقف ہو سکیں لیکن جس پر زیادہ زور دینا چاہئے وہ آپؐ کا اسوہ اور آپ ؐ کی تعلیمات ہیں جن کے لئے آپ ؐکی بعثت عمل میں آئی ۔زمانۂ جاہلیت میں ساری برائیاں موجود تھیں ‘ان کی جہالت اور بدکرداری ضرب المثل ہے لیکن آپ ؐ نے آسمانی تعلیمات کے ذریعے ان کو ایسا پاک وصاف بنایا کہ وہ مقدس اور پاکیزہ گروہ بن گئے ‘اللہ تعالی نے ان کے لئے اپنی رضا کا اعلان کیا اور ان کو جیتے جی جنت کی بشارت سنائی ‘اگر تعلیمات ِ رسول ؐ پر عمل نہ کرتے تو انہیں یہ اعزاز حاصل نہ ہوتا اور کامیابی نہ ملتی ‘اسی طرح معجزات ِ نبوی کاتذکرہ بلا شبہ ہمارے لئے خیر وبرکت اور ایمان کی تازگی کا ذریعہ ہے۔ لیکن ان سے ایک مسلمان کوایسا طریقہ نہیں مل سکتا جس پر چل کر وہ رضائے الہی کا مستحق ہو سکے ‘ اللہ تعالی نے وہ محض اثبات رسالت اور تائید کے لئے آپ ؐ کے دست مبارک پر ظاہر کئے تھے ‘ان سے اسوہ یا کوئی نمونہ نہیں مل سکتا۔اس لئے آپؐ کی سیرت کو پڑھا جائے یا بیان کیاجائے تو بحیثیت معجزہ نہیں بلکہ بحیثیت اسوہ اور نمونہ تاکہ لو گوں میں عمل کا جذبہ پیدا ہو اور وہ جان سکیں کہ ان ہدایات اور تعلیمات پر عمل کئے بغیر وہ ابدی راحت کے مستحق نہیں ہیں۔آج دنیا کو اسوہ اور نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔تعلیمی ‘سیاسی ‘اقتصادی‘معاشرتی ‘اخلاقی اور مختلف جہتوں سے صحیح آئیڈیل کے لوگ منتظر ہیں ‘ان کی صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔مغربی افکار و خیالات نے دل و دماغ کو فرسودہ کردیا ہے ‘ہرطرف اخلاقی انارکی پائی جارہی ہے ‘ ہر جگہ برائیوں کا ایک امنڈتا ہوا سیلاب نظر آرہا ہے ‘ٹکنالوجی اور سائنسی ترقی کے باوجود لوگوں کو اپنی زندگی میں بے چینی محسوس ہورہی ہے بلکہ پوری دنیا سسک رہی ہے اور وہ ایسی راہ کی تلاش میں ہے جس سے جسم کو روحانیت حاصل ہو اور قلب کو حقیقی طمانیت نصیب ہو۔ایسے وقت دنیا کے سامنے رسول اکرم ؐکی تعلیمات پیش کرکے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہی وہ اسوہ ہے جس میں روحانی طمانیت ہے ‘اس راستہ پر چلنے والا ناکام نہیں ہوسکتا‘دنیا وآخرت دونوں جگہ کی بھلائی اس سے نصیب ہوگی ‘اس کے علاوہ دنیا کا کوئی اسوہ پریشانیوں اور مشکلات سے نجات نہیں دے سکتا۔بالخصوص آج اخلاق نبوی کو عام کیا جائے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے ۔‘رسول اکرم ؐ کو اللہ تعالی نے بلند اخلاق پر فائز کیا تھا تاکہ اس سے لوگ متأثر ہوکر آپ سے قریب ہوں ‘چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔آپ ؐ کے عالی اخلاق اور کریمانہ برتاؤ کو دیکھ کر لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوے اور بہت کم عرصہ میں پورا عرب اسلام کے سامنے سرنگوں ہوگیا ‘اسلام ایسے اخلاق کی ہدایت دیتا ہے اور ایسے کردار کے حامل افراد کو جنت کی بشارت دیتا ہے ‘اخلاق سے عاری دنیا کو جب اس طرح کی باتیں بتائی جائیں گی توممکن ہے کہ وہ اسلام سے قریب ہو اور ہدایت ان کا مقدر بن جائے ۔
رسول اکرم ؐکی بعثت ساری دنیا کیلئے ہے ‘کسی مخصوص قوم ‘زمانہ یا ملک اور علاقہ کے لئے نہیں ہے ‘آپ ؐ غیر مسلموں کے بھی پیغمبر ہیں لیکن انہیں اس کا علم نہیں ہے ‘اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ تعلیمات اور اخلاق نبوی سے ان کو روشناس کرائیں اور سیرتِ نبوی ؐ کے مختلف گوشے ان کے سامنے پیش کریں ‘اس سے فاصلے کم ہوں گے غلط فہمیاں دور ہوںگی اور اسلام سے رفتہ رفتہ قریب ہوںگے اور دعوت کاہمارا فریضہ بھی تکمیل پا سکے گا ۔اس لئے سیرت النبی کے جلسوں اور اجتماعات میں اپنوں اور غیروں کو تعلیمات اور سیرت نبوی سے ہم آگاہ کریں ‘مختلف زبانوں میں لٹریچر عام کریں جس میںآپؐ کے کریمانہ اخلاق کے مختلف واقعات اور تعلیمات کے اہم پہلوؤں کو پیش کیا جائے ۔یہ دین کی اہم خدمت ہوگی ورنہ ان اہم ذمہ داریوں کو چھوڑ کر محض جشن میں مصروف رہنا نہ تو وقت کا تقاضہ ہے اور نہ ہی اس سے ہمارا فریضہ ادا ہوگا۔یہ حقیقت ہے کہ خود مسلمان عملی اعتبار سے پیچھے ہیں ‘ان کا کردار ایسا نہیں جس میں لوگوں کیلئے کوئی کشش ہو ‘مسلم معاشرہ آج آلودہ ہوچکا ہے ‘ہمارے بچے اور نوجوان مغربی طرز کے عاشق ہیں ‘ان کو صحیح طرح درود اور تشہد پڑھنا نہیں آتا ‘نماز کے طریقے سے وہ ناواقف ہیں ‘چند سورتیں بھی صحیح طرح یاد نہیں ‘رسول اکرم ؐ کے مبارک خاندان سے ناواقف ہیں ‘بہت سے لوگوں کو آپ ؐ کے والد ‘والدہ ‘چچا ‘پھوپھی اور دوسرے لوگوں کے نام کا بھی علم نہیں ہے ‘کیا یہی ہمارے ایمان کا تقاضا اور یہی عشق رسول ہے ؟ہم عہد کریں کہ خود اپنی زندگی کو تعلیمات نبوی کے سانچے میں ڈھالیں گے اور اپنے گھر وں کونور نبوت سے روشن کریں گے ‘جہاں تک طاقت ہوگی آپ ؐ کے اخلاق کریمانہ اور تعلیمات کو عام کریں گے‘ یہی حقیقی محبت اور یہی عشق رسول ہے ۔