عبدالماجد نظامی
امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کا شہر لاس اینجلس سپنوں اور خوابوں کا شہر ہے۔ یہاں وہ تمام دلکش مناظر پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھنے کی تمنا ہر دل میں پائی جاتی ہے لیکن اکثریت کو صرف اس بات پر اکتفا کرنا پڑتا ہے کہ وہ ان مناظر کا مشاہدہ بس اسکرین پر کرے اور وقتی طور پر لطف اندوز ہوجائے۔ یہاں ہالی ووڈ کے ستاروں سے لے کر جدید ترین اشیاء ٹیکنالوجی بنانے کی فیکٹریوں اور امیر ترین لوگوں کی دلچسپی کے سامان کی بہتات تک سب کچھ موجود ہے۔ پوری دنیا کے لوگ اس شہر کو دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں اور جب بھی کسی کو موقع ملتا ہے کہ وہ یہاں آ جائے تو وہ اپنی حسرتوں اور تمناؤں کی تمام حدود کو پار کرکے دلفریبی کے سمندر میں ڈوب جانا چاہتا ہے۔ لیکن یہی شہر لاس اینجلس ان دنوں اپنی رعنائی و دلفریبی، خوبصورت قدرتی مناظر اور اہل ثروت و ارباب چنگ و رباب کی بے انتہا دولت کے لیے چرچہ میں نہیں ہے بلکہ ایک ایسی قدرتی آفت کی چپیٹ میں پھنس جانے کی وجہ سے چرچہ میں ہے جس سے نجات پانا امریکہ جیسے امیر ترین اور دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کے بس سے باہر کی چیز معلوم ہوتی ہے۔
یہ قدرتی آفت جس سے لاس اینجلس اور وہاں کے جنگلات و باغات سے لے کر حیوانات و انسان تک سب دوچار ہیں، اس کو آتش زنی کے واقعہ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ گویا کوئی معمولی واقعہ ہو جو کسی ادنیٰ کوتاہی کی وجہ سے رو پذیر ہوگیا ہو۔ حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ اب تک ہزاروں کی تعداد میں گھر بار تباہ ہوچکے ہیں۔
28لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور ایک اندازہ کے مطابق 250 ارب ڈالر کی املاک تباہی کا شکار ہوچکی ہے۔ فضاء اس قدر آلودہ ہوچکی ہے کہ سانس لینا مشکل ہے۔ پانی کے تمام مصادر متاثر ہوچکے ہیں اور اس کا پینا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کیلیفورنیا کی سرکار کی کوتاہیوں کی پوری تفصیل سامنے آ رہی ہے کہ جنگل و پہاڑ اور پانی کے ذرائع کو محفوظ بنائے رکھنے کے لیے جو بجٹ مطلوب تھا، اس میں کمی کر دی گئی تھی جس کے نتیجہ میں ایسے ضروری اقدامات نہیں کیے جا سکے جن کی بدولت بحران پر بر وقت قابو پایا جا سکتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ایسی خبریں بھی آئیں کہ جب آگ بجھانے والا عملہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے آگے بڑھا تو اس کو صحیح وقت پر مناسب مقدار میں پانی تک مہیا نہیں کیا گیا تاکہ آگ پر جلد قابو پایا جا سکے۔ لیکن معاملہ اتنا بھی معمولی نہیں ہے۔ کیلیفورنیا میں جو کچھ ہوا ہے اور اب تک جاری ہے، یہ ایک غیر معمولی اور سنگین واقعہ ہے۔ اس سے قبل آسٹریلیا، اٹلی، یونان اور ترکیہ میں آگ زنی کے جو واقعات ہوئے تھے، وہ اقوام عالم کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھے لیکن اس کے باوجود ان سے کوئی سبق نہیں لیا گیا۔ مذکورہ بالا تمام واقعات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک اٹل حقیقت ہے اور اس کے نتیجہ میں سطح سمندر کا بڑھ جانا، جنگلوں میں آگ لگ جانا، بے وقت بارش کی وجہ سے روز مرہ کی زندگی کا ناقابل یقین حد تک متاثر ہوجانا اور بے وقت سیلاب یا قحط کے حالات کا پیدا ہونا، یہ سارے حالات بتاتے ہیں کہ انسانوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے تباہی کا انتظام کیا ہے۔
قدرتی ذرائع کو ماحولیاتی توازن کا خیال رکھے بغیر غیر ذمہ دارانہ ڈھنگ سے استعمال کرنا، مرفہ الحالی کی سطح کو ہر روز بڑھانا اور آئندہ نسلوں کے لیے نت نئے مسائل پیدا کرنا بلکہ اس زمین کو ان کے لیے ناقابلِ عیش بنانا- اس طرح کے اقدامات ہی سیلاب، آگ زنی اور شدت کی گرمی و برسات کے لیے ذمہ دار ہیں۔ دنیا کے امیر ملکوں اور وہاں کے سرمایہ داروں نے اس صورتحال کو سنگین بنانے میں اپنا منفی کردار سب سے زیادہ ادا کیا ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے اور اس کا مناسب حل تلاش کرنے کے لیے عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں برسوں سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکا جائے تاکہ جو ممالک سطح سمندر سے بہت قریب ہیں، وہ اس کا شکار ہوکر اپنا وجود ہی ختم نہ کرلیں۔ آسٹریلیا اور امریکہ کی طرح جنگل میں بے قابو ہوجانے والے آتش زنی کے واقعات رونما نہ ہوں تاکہ پھل پھول اور حیوانات کے وجود سے قدرتی توازن برقرار رہے۔
لیکن اس معاملہ میں سب سے زیادہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ مغربی ممالک اور بطور خاص امریکہ کر رہا ہے۔ یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ کیلیفورنیا آگ کی ہولناک لپٹوں سے جھلس اور جل رہا ہے، امریکہ کے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کو پیرس معاہدہ سے الگ کر لیا ہے اور عملی طور پر یہ اعلان کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی نام کی کسی مصیبت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ قدم نہایت خطرناک ہے اور پوری دنیا کی کوششوں کو ناکام بنانے جیسا جرم ہے۔ اس معاملہ کی سنگینی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ٹرمپ کو اس قسم کے فیصلوں سے روکا جانا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کے ادارہ پر کون دباؤ بنا سکتا ہے؟ ٹرمپ اس طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں جن کو سرمایہ دار کہا جاتا ہے۔ وہ خود بھی ایک سرمایہ دار ہیں اور ہمیشہ اس بات کے منکر رہے ہیں کہ ماحولیات میں کوئی تبدیلی بھی ہوتی ہے۔ یہی سرمایہ دار طبقہ دنیا بھر میں ماحولیاتی مسائل پیدا کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔
ان میں حرص اور لالچ انتہا درجہ کو پہنچ چکی ہے۔ حرص ایسا خطرناک مرض ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اسی لیے گاندھی جی نے سمجھایا تھا کہ اس دنیا کے قدرتی ذرائع تمام انسانوں کی ضرورتوں کے لیے بالکل کافی ہیں لیکن ان کی تمناؤں کے لیے قطعاً کافی نہیں ہیں۔ آج اس کا نقشہ صاف نظر آ رہا ہے کہ تمناؤں کا شہر لاس اینجلس خاکستر ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کے صدر میں اتنی حساسیت تک نہیں پائی جاتی ہے کہ وہ پیرس معاہدہ سے باہر آنے کے بجائے اس کوشش کو کامیاب بنانے کی فکر کرتے تاکہ دنیا کے باقی ممالک بھی اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے ادا کرنے کا عزم دکھاتے اور جہنم کے دہانے پر کھڑی اس دنیا کو ہالی ووڈ کی فلموں کے افسانوں میں نہیں بلکہ حقیقت کی زمین پر بچانے کو یقینی بنایا جاتا۔
جب تک اقوام عالم مشترکہ طور پر اس جہت میں کام نہیں کریں گی اور امیر و طاقت ور ممالک بطور خاص اس پر توجہ نہیں دیں گے تب تک دنیا کا کوئی شہر یا ملک خود کو محفوظ نہیں سمجھ سکتا ہے۔ کل سڈنی تو آج لاس اینجلس ہے۔ کل کوئی دوسرا شہر ہوگا۔ ہمیں اس معاملہ میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ بالکل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے نتائج بہت سنگین ہیں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]