ڈاکٹرسید احمد قادری
بابری مسجد کے بعد جس طرح بنارس کی گیان واپی مسجد یا متھرا کے عید گاہ سے لے کر سنبھل کی شاہی مسجد اور اس کے بعد اجمیر کی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے اندر مندرکی تلاش کے نام پر عدلیہ کے ذریعہ قانون کو طاق پر رکھتے ہوئے سروے کرائے جانے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں ۔ اس سے نہ صرف ملک کا امن و امان ، یکجہتی ، رواداری اور صدیوں سے چلی آ رہی گنگا جمنی تہذیب متاثر ہورہی ہے بلکہ ملک کا سیکولر دستور، آئین اور قانون نیز ملک کی سا لمیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔ایسے ناپاک اور فرقہ پرست کوششوں کے پس پشت کیا مقاصد کار فرما ہیں ۔ یہ بہت ہی واضح اور عیاں ہے ۔
اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے کہ ملک میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے ۔ اس وقت سے پورے ملک میں گجرات ماڈل (2002 ء) اور پھر اتر پردیش ماڈل کے نام پر اور آر ایس ایس کے خفیہ ایجنڈوں کو نافذ کرنے نیز ملک کو ہندو راشٹربنانے کیلئے ملک کے اقلیتوں خصوصاَمسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کران کے حقوق پر پہرے بٹھا کر ان کی زندگی ،ان کے مذہبی تشخص کو منظم اور منصوبہ بند طریقے سے دانستہ طور پر تنگ کرنے کی عملی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ کبھی حجاب کے نام پر کبھی حلالہ کے نام پر، کبھی 700 سالہ پرانے مدارس اور درگاہوں کی مشترکہ تہذیب کی روایت کو ختم کرنے کی عملی کوشش کے ذریعہ، کبھی کاشی کی صدیوں پرانی مساجد پر زبردستی قبضہ کی کوشش کر کے ، کبھی متھرا کے عید گاہ پر اپنا دعویٰ، کبھی تاج محل ، قطب مینار ، دہلی کی مساجداور پھر اب سنبھل کی شاہی مسجد اور اجمیر شریف کی درگاہ پر بھی ناجائز اور ناپاک ارادے کر کے یہ سب ہورہا ہے ۔جبکہ یہ انہیں ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ایسی کوششوں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے،لیکن اس سے بلا شبہ ملک کے آئین اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والوں کے لئے تشویش میں مبتلا ہونا فطری ہے ۔ یہی وجہ ہے جب جب ملک کے امن وچین کو ختم کرنے کی کوششیں دانستہ طور پر ہو ئی ہیں اور فرقہ پرستوں نے سازگار ماحول کو بگاڑنے کی کوششیں کی ہیں ، تب تب ملک کے امن پسند اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والے شہریوں نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے اپنے آئینی اور انسانی فرائض کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی گزارشات پر برسر اقتدار سربراہ کی جانب سے کوئی مثبت عملی اقدام کرنا تو دور ان کا جواب بھی دینا مناسب نہیں سمجھا جاتاہے ۔ابھی زیادہ دن نہیںہوئے گزشتہ ماہ یعنی نومبر 24 میں ہی جب اترا کھنڈ کو منافرت کی نرسری بنائے جانے اور نفرت انگیزی اور اشتعال پیدا کرنے کے عادی مجرم یتی نرسنگھا نند کو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار نہیں کئے جانے کے خلاف ملک کے 101 سابق نوکر شاہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو خط کے ذریعہ ملک کے اندر بالخصوص اتر پردیش ، اترا کھنڈ ، ہماچل پردیش اور راجستھان وغیرہ کے اندر بڑھتی فرقہ واریت، جارحیت اور منافرت پھیلانے والے عناصر کے بڑھتے عروج پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے لوگوں پر قد غن لگانے کی گزارش کی تھی تو بجائے اس خط پر کوئی مثبت عمل کے اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ۔اس سے قبل بھی سیکڑوں بار ملک کے دانشوروں نے حکومت کی بڑھتی فرقہ پرستی پر توجہ دلانے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن افسوس کہ ایسی ہر صدا ، صدابہ صحرا ثابت ہوئی ہے ۔اب ایک بار پھر ملک کے کئی شہروں کی کئی مساجد اور صدیوں پرانی درگاہوں میں مندر کی تلاش کے نام پر ملک کی فضا میں فرقہ واریت اور منافرت کا زہر گھولنے کی مذموم اور منظم کوشش کرنے والے عناصر کوقابو میں کئے جانے کیلئے ملک کی کئی سرکردہ شخصیات مثلاًامیتابھ پانڈے ، این سی سکسینہ ، شیومکھرجی ، ایس وائی قریشی ، نجیب جنگ ، ضمیرا لدین شاہ ، سعید شیروانی اور شاہد صدیقی وغیرہ نے ملک کے اندر فتنہ فساد برپا کرنے اور شرپسند انہ کوششوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے اندر فرقہ وارانہ رواداری ، ہم آہنگی اور خیر سگالی کی فضا قائم کرنے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کو ،بی جے پی کے رہنما کے طور پر نہیں بلکہ ملک کے سربراہ کی حیثیت سے ایسے حالات پر قدغن لگانے کے لئے ایک مشترکہ خط کے ذریعہ گزارش کی ہے۔ وزیر اعظم کے ذریعہ اس خط اور ملنے کی گزارش کا کیا جواب ملتا ہے ، اس کا پورے ملک کے سیکولر اور امن پسند شہریوں اور دانشوروں کو بہرحال انتظار ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے ملک کے اندر کی جن تاریخی مساجد اور درگاہوں پر بلا وجہ مندر کا جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ پیش کرتے ہوئے اشتعال اور تفرقہ پھیلایا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ایک عمومی نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ جن دنوں بابری مسجد کا تنازعہ عروج پر تھا اور کئی قیمتی انسانی جانیں خاک و خون میں نہا رہی تھیں ۔اس زمانے میں ملک کے فرقہ پرستوں نے یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ اگر ملک کے مسلمان بابری مسجد سے ہندوؤں کے آستھا کی قدر کرتے ہوئے دستبردار ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد نہ ملک کی کسی مسجد پر کوئی تنازعہ ہوگا اور نہ ہی ہندو مذہب کے لوگ کسی طرح کا دعویٰ پیش کریں گے ۔ یوں بھی 1991 ء میں پارلیمنٹ میں بنائے گئے قانون کے مطابق بابری مسجد کے سوا جو عبادت گاہیں 15 ؍ اگست 1947 ء تک جس مذہب کے ماننے والوں کے قبضے میں ہیںوہ اسی مذہب کے ماننے والوں کی رہیںگی۔اس گزارش اور وعدے پر یقین رکھتے ہوئے مسلمانوں نے ملک میں امن و امان اور صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کی روایات کو برقرار رکھنے کی خاطر براہ راست بابری مسجد سے دستبردار ہونے کا وعدہ تو نہیں کیا لیکن یہ وعدہ ضرور کیا کہ یہ معاملہ چونکہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔اس لئے سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا ، اس فیصلہ کو تسلیم کیا جا ئے گا ۔اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ بابری مسجد کا مقدمہ یہ قطئی نہیں تھا کہ وہاں کون پیدا ہوا ؟ بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ بابری مسجد کی زمین پر مالکانہ حق کس کا ہے ۔ لیکن اس معاملے کا فیصلہ (انصاف نہیں ) سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی اور حال ہی میں ریٹائر ہوئے سابق چیف جسٹس چندرچوڑنے دیا تھا۔اس فیصلے کے کافی دنوں کے بعد جب سابق چیف جسٹس چندر چوڑ سے مذکورہ فیصلے کے بار میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے آئین اور قانون کے بجائے اپنے ’’ بھگوان‘‘ کے کہنے اور اپنے مذہبی عقیدہ کی وجہ سے فیصلہ دیا تھا،اس بیان کے ذریعہ انہوں نے پوری دنیا کے سامنے عدلیہ کو شرمسار کیا ۔ اس فیصلہ کے بعد سابق جسٹس چندر چوڑ نے ایک اور بڑا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا کہ بنارس کی گیان واپی مسجد کے سلسلے میں جب تنازعہ شدت اختیار کرنے لگاتو ملک کے مسلمانوں نے سپریم کورٹ عذرداری داخل کرتے ہوئے ایک بار پھر یاد دلایا کہ’’ عبادت گاہ ایکٹ 1991 ء ‘‘ کے مطابق بابری مسجد کے سوا جتنی بھی اورعبادت گاہیں15 ؍ اگست 1947تک جس حیثیت میں ہیں اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے ،لیکن افسوس کہ سابق چیف جسٹس چندر چوڑ جو اپنے زیادہ تر فیصلے آئین اور قانون کے بجائے اپنے بھگوان کی مرضی کے مطابق کیا کرتے تھے ۔ ان کے سامنے جب بنارس کی گیان واپی مسجد کا مسئلہ زیر سماعت تھا ا س وقت مسجد کمیٹی کی جانب سے اپیل کی گئی کہ گیان واپی مسجد کے سلسلے میں ’’ عبادت گاہ ایکٹ 1991 ء ‘‘ کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے اس قضیہ کو ختم کیا جائے ، لیکن سابق چیف جسٹس نے اس معاملے میں بھی ایک کھڑکی یہ کہتے ہوئے کھلی چھوڑ دی کہ ’’ کسی عبادت گاہ کے کردار کا تعین کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے ‘‘ ۔جسٹس چندر چوڑ کی یہی وہ چھوڑی ہوئی کھڑکی ہے جو اب کشادگی اختیار کرتے ہوئے اتناوسیع و عریض دروازہ میں تبدیل ہو گیا ہے کہ اس دروازے سے گزشتہ چند برسوں میں فرقہ پرستوں نے ملک کے سربراہ کی خاموشی سے ہمت اور حوصلہ پاتے ہوئے ملک میں اشتعال اور منافرت بڑھانے کے لئے آئے دن کبھی کاشی ،کبھی متھرا،کبھی دہلی ، کبھی سنبھل اور کبھی اجمیر درگاہ سے ہوتے ہوئے اجمیر کی تاریخی مسجد ’اڑھائی دن کا جھونپڑا ‘ تک پہنچ گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے مشہور سینئر وکیل راجیو رام چندرن کا بیان تقویت دیتا ہے کہ’ اس وقت فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے مساجد کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے دراصل اس کے لئے سپریم کورٹ ہی ذمّہ دار ہے ۔ انھوں نے اس مسئلہ پر بہت ہی واضح طور پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سال بنارس کی تاریخی گیان واپی جامع مسجد میں سروے کی اجازت دے کر اس شر انگیز مہم کا دروازہ کھول دیا ۔یہ وہی مشہور وکیل ہیں جنھوں نے بابری مسجد ، رام مندر بھومی ملکیت کے مقدمہ میں مسلم فریق کی وکالت کی تھی ۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چندر چوڑ سنبھل کی شاہی مسجد پر ہوئے خون خرابہ کے بعد اپنے مختلف انٹرویو میں صفائی دیتے پھر رہے ہیں ۔ لیکن جو بات انھیں اب سمجھ میں آ رہی ہے، کاش کہ صاحب کے مسند پر رہتے ہوئے سمجھ میں آ جاتی تو ا س وقت جس طرح پورا ملک آتش فشاںبنا ہواہے ، شاید ایسا نہیں ہوتا ۔ سچ تو یہ ہے کہ جسٹس چندر چوڑ کی کھو لی گئی فرقہ واریت کی کھڑکی کو وقت رہتے بند نہیں کیا گیا تو ملک میں خانہ جنگی کی نوبت آ سکتی ہے اور ہر شہر سنبھل کی طرح مسلم نوجوانوں کے خون سے لہولہان ہوتا رہے گا ۔ فرقہ پرستوں کی طرز پر اگر مسلمانوں نے بھی اپنے صبر وتحمل کے برخلاف ایسے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کی تو نہ جانے مسلمانوں کے وقف پر بنائے گئے کتنے محل ڈھ جائیں گے اور جس طرح چند دنوں قبل جنتر منتر پر بودھسٹوں نے دعویٰ پیش کیا ہے ۔ ایسے دعوے کی صداقت کے لئے اگر رویش کمار کے مطابق ’ بھارت کھودو یوجنا‘ پر عمل کیا گیا تو ملک کی ہزاروں مندر ، بودھ مندر بن کر سامنے آئیں گی ،لیکن ملک کے مسلمان ملک کے اندر اپنے ہم وطن بھائیوں کے ساتھ محبت اور اخوت کے ساتھ ہر طرح کے مذہبی تنازعہ سے دور رہنا چاہتے ہیں ۔ ویسے اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت میں ہندوستانی مسلمان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔جس کا سدباب ضروری ہے اور اس کے لئے ملک کے امن پسند اورسیکولرازم پر یقین رکھنے والے شہریوں کے ساتھ مل جل کر ہی لائحہ عمل بنایاجائے ۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]