ایشیائی ممالک کی غیرملکی پالیسی کے مستقبل سے متعلق گزشتہ کئی دنوں سے طرح طرح کے سرسری اندازے لگائے جارہے تھے، لیکن گزشتہ ہفتہ کی دو اہم ملاقاتوں نے ان تمام اندازوں کو بحث کا موضوع بنادیا ہے۔ ایک ملاقات تو ہندوستان اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے مابین ہوئی ہے، جس میں کافی کچھ رسمی نظر آیا ہے۔ لیکن دوسری ملاقات نے ایک ممکنہ خطرے کے خدشہ کے سلسلہ میں پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے اور زیادہ بڑی شکل لے لی ہے۔ یہ ملاقات ہوئی ہے چین کے وزیرخارجہ اور طالبان کے لیڈر ملابرادر کے مابین اور یہ ایسے وقت میں ہوئی ہے جب طالبان بڑی تیزی سے افغانستان میں تسلط قائم کرتے جارہے ہیں۔ طالبانی خیمہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ تین-چوتھائی افغانستان پر اپنا قبضہ جما چکا ہے۔ اس دعویٰ کا اہم پہلو یہ ہے کہ افغانستان کی سرحدوں کی زیادہ تر چوکیوں پر قبضہ کرکے طالبان نے دوسرے ممالک سے ہونے والے کاروبار پر بھی ممکنہ اپنا کنٹرول قائم کرلیا ہے۔ ایسے میں طالبانی لیڈروں سے چینی وزیرخارجہ کی ملاقات سے یہی پیغام جارہا ہے گویا چین نے افغانستان میں طالبان حکومت کی تشکیل سے قبل ہی اسے اسے قبول کرلیا ہو۔
دراصل حقیقت تو یہ ہے کہ طالبان ہمیشہ سے چین کی ’ڈپلومیسی‘ کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ اس کی دو-تین اہم وجوہات ہیں۔ پہلا تو یہ کہ چین نے افغانستان میں تقریباً 400ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ اپنے بیلٹ روڈ اِنی شیئٹو کو اب پی او کے سے بڑھا کر افغانستان تک لے جانا چاہتا ہے۔ اس میں دونوں کا فائدہ ہے۔ دوسری وجہ طالبان کے کندھے پر بندوق رکھ کر ہندوستان پر نشانہ لگانے کی ہے۔ طالبان کے جیش اور لشکر جیسے دہشت گرد گروپوں سے دوستانہ تعلقات ہیں اور چین چاہتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ طالبان کی اس دوستی کا ہندوستان کے خلاف اسٹرٹیجک بڑھت کے لیے استعمال کرسکے۔ لیکن ایک اور وجہ ہے جو اصل میں فوری طور پر چین کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ طالبان کے آنے سے چین کو اپنے شن جیانگ صوبہ میں دقتوں میں اضافہ ہونے کا ڈر ہے، جہاں اس نے اویغور مسلمانوں کو غیراعلانیہ قید میں رکھا ہے۔ اس صوبہ میں چین اور افغانستان کے درمیان 8کلومیٹر لمبی سرحد ہے، جہاں الگ مشرقی ترکستان بنانے کے مطالبہ کے ساتھ دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حالیہ رپورٹ میں بھی سیکڑوں بیجنگ مخالف شدت پسندوں کی افغان-چین سرحد پر موجودگی کا ذکر ہے۔ یہ شدت پسند تنظیمیں چین کے خلاف سر اٹھانے کے لیے اویغور مسلمانوں کو بھی مسلسل بڑھاوا دیتی رہتی ہیں۔اسی ڈر کو دور کرنے کے لیے چین کوئی رسمی رشتہ نہ ہونے کے باوجود سال1996میں طالبان کے پہلے دور کے وقت سے ہی اس کے رابطہ میں ہے۔ سمجھا جارہا ہے کہ ملا برادر سے ملاقات میں چین کا یہ ڈر دور ہوگیا ہے اور اسے طالبان سے اس بات کا اعتماد حاصل ہوگیا ہے کہ وہ اس معاملہ میں چین کا ساتھ دے گا اور سرحد پر سرگرم دہشت گرد گروپوں کو بھی ساتھ لائے گا۔
پاکستان بھلے ہی اس بحران کو آسمان سے گری سوغات سمجھ رہا ہو، لیکن اس کے ہاتھ زیادہ کچھ لگتا نظر نہیں آرہا ہے۔ معاشی طاقت کے سبب چین کے لیے یہ اپنا دائرہ وسیع کرنے کا ایک سنہرا موقع ضرور ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر طالبان اقتدار میں آتے ہیں تو ملک چلانے کے لیے ضروری معاشی وسائل کی فراہمی کے لیے ان کے پاس بھی چین کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوگا۔ چین اگر طالبان کی قیادت میں ہی سہی، لیکن افغانستان کو کھڑا رکھنے میں مثبت رول نبھاتا ہے تو بھی اس میں ہندوستان کو اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن چین کی فطرت کو دیکھتے ہوئے یہ سورج کے مغرب سے نکلنے والی بات لگتی ہے۔ فی الحال تو اپنے اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے طالبان اور چین-پاکستان جس طرح کی گروپ بازی میں مصروف ہیں، اس سے افغانستان میں اماوس کی رات مسلسل لمبی ہوتی جارہی ہے۔
اس معاملہ میں پاکستان سے جو امید تھی، اس نے ویسا ہی کیا ہے۔ چین کی کٹھ پتلی بن چکی عمران حکومت نے اس ملاقات کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس کے لیے پاکستان نے امریکہ سے ملے دانا-پانی کے احسان کو بھی طاق پر رکھ دیا ہے۔ پاکستان نے ایک طرف امریکہ کو افغانستان کا قصوروار قرار دے دیا ہے، وہیں دوسری طرف چین کو امن کی سب سے بڑی امید بتایا ہے۔ عمران خان نے تو شرمندگی کی ہر حد پار کرتے ہوئے خون کی ہولی کھیل رہے طالبان کو دہشت گرد ماننے سے انکار کردیا ہے۔ عمران کی نظر میں طالبان عام پشتوں شہری ہیں اور ان میں سے 30ہزار پناہ گزیں کے طور پر پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ چین کو ’دیوار‘ بناکر پاکستان ایک تیر سے دو نہیں، بلکہ تین ہدف-امریکہ، ہندوستان اور افغان حکومت- پر ایک ساتھ نشانہ لگارہا ہے۔
یہاں وہ پہلی ملاقات اہم ہوجاتی ہے جس کا ذکر میں نے اس مضمون کے آغاز میں کیا ہے۔ ہندوستانی وزیرخارجہ ایس جے شنکر اور ان کے امریکی ہم منصب اینٹنی بلنکن کی اس ملاقات نے اس کہرے کو صاف کرنے کا کام کیا ہے، جو اس معاملہ میں امریکہ کے متضاد رویہ کے سبب بن رہا تھا۔ ایک طرف امریکہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کی واپسی کروا رہا تھا، وہیں دوسری طرف اسے دہشت گردوں کا اڈہ بننے سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کررہا تھا۔ لیکن کئی سوال ابھی بھی باقی ہیں۔ جیسے کہ دونوں فریقوں کی میٹنگ سے یہ مشترکہ سوچ سامنے آئی ہے کہ افغانستان بحران کا فوجی حل نہیں ہوسکتا اور اس کے لیے طالبان کو جدوجہد کا راستہ چھوڑ کر بات چیت کی ٹیبل پر آنا ہوگا، لیکن یہ سب ہوگا کیسے، اس کا کوئی ایکشن پلان سامنے نہیں آیا ہے۔ امریکہ زیادہ سے زیادہ محض طالبان پر نگرانی کی بات کررہا ہے۔ بیشک حالیہ دنوں میں ہندوستان-امریکہ کے مابین اعتماد میں اضافہ ہوا ہو، لیکن امریکہ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ بغیر اپنے فائدے کے کسی ملک سے تعلقات نہیں بناتا۔ اس وجہ سے بھی یہ سوچ مضبوط ہوتی ہے کہ کہیں افغانستان میں چین کے بڑھتے دخل کے سبب تو امریکہ ہندوستان کو آگے نہیں کرنا چاہتا۔ ویسے بھی افغانستان میں اپنی فوج کی موجودگی کے وقت سے ہی امریکہ چاہتا رہا ہے کہ ہندوستان بھی وہاں اپنی فوج بھیجے، لیکن ہندوستان ایسی کسی بھی جرأت بیجا سے بچتا رہا ہے۔
ہندوستان کو اس سمجھ داری کا آگے بھی مظاہرہ کرنا ہوگا کیوںکہ موجودہ صورت حال میں ذرا سی اسٹرٹیجک اور ڈپلومیٹک غلطی افغانستان کو ہندوستان اور چین کا اکھاڑہ بناسکتی ہے۔ چین کی ہی طرح ہندوستان نے بھی نئے افغانستان کی تعمیر میں بھاری بھرکم سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ خطرہ صرف اس سرمایہ کاری کے کھٹائی میں پڑنے کا نہیں ہے، اس سے بڑی تشویش اس بات کی ہے کہ آگے چل کر کہیں طالبان کی سرپرستی میں افغانستان ہندوستان مخالف سرگرمیوں کا مرکز نہ بن جائے۔ اس لیے اس مسئلہ پر امریکہ کا ساتھ ملنے سے جوش میں آنے کے بجائے پہلے کی ہی طرح ہوش والی حکمت عملی پر آگے بڑھتے رہنا سمجھداری ہوگی۔
اس سب کے دوران پاکستان بھلے ہی اس بحران کو آسمان سے گری سوغات سمجھ رہا ہو، لیکن اس کے ہاتھ زیادہ کچھ لگتا نظر نہیں آرہا ہے۔ معاشی طاقت کے سبب چین کے لیے یہ اپنا دائرہ وسیع کرنے کا ایک سنہرا موقع ضرور ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر طالبان اقتدار میں آتے ہیں تو ملک چلانے کے لیے ضروری معاشی وسائل کی فراہمی کے لیے ان کے پاس بھی چین کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوگا۔ چین اگر طالبان کی قیادت میں ہی سہی، لیکن افغانستان کو کھڑا رکھنے میں مثبت رول نبھاتا ہے تو بھی اس میں ہندوستان کو اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن چین کی فطرت کو دیکھتے ہوئے یہ سورج کے مغرب سے نکلنے والی بات لگتی ہے۔ فی الحال تو اپنے اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے طالبان اور چین-پاکستان جس طرح کی گروپ بازی میں مصروف ہیں، اس سے افغانستان میں اماوس کی رات مسلسل لمبی ہوتی جارہی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)