لوک سبھا الیکشن کے نتائج: سیاسی پارٹیوں کے لئے سبق : عبدالغفار صدیقی

0

عبدالغفار صدیقی

عام انتخابات ہوگئے۔رزلٹ آگیا۔ تاج پوشی ہوگئی ایک بار پھر مودی جی کے سرپر وزرات عظمیٰ کی پگڑی بندھ گئی،مگر اس بار اس پگڑی میں پھولوں کے ساتھ کچھ کانٹے بھی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی ان خاروں کو کس حد تک اور کس وقت تک برداشت کرتے ہیں۔ویسے ان میں سہن شکتی(تحمل) بہت ہے۔ان کے مخالفین انھیں نہ جانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں،بقول ان کے جی بھر کر گالیاں دیتے ہیں اس کے باوجود بھی مودی جی کے لب بے مزہ نہیں ہوتے۔اس بار جس حکومت کی سربراہی انھیں سونپی گئی ہے اس میں دودرجن سے زیادہ پارٹیاں ہیں،بیشتر پارٹیاں ان کی فکر اور تہذیب سے اتفاق نہیں رکھتیں،مثال کے طور پر ٹی ڈی پی کو ہی لے لیجیے،اس نے اعلان کردیا ہے کہ آندھرپردیش میں مسلمانوں کو دیا جانے والا 4 فیصد ریزرویشن جاری رہے گا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے نام پر تو بی جے پی والوں کا ذائقہ بدل جاتا ہے،وہ اس کو کیسے برداشت کریں گے؟نتیش جی بھی کچھ کم مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہیں،جب ضرورت پڑتی ہے ٹوپی اور رومال گلے میں ڈال کر مولانا نتیش بن جاتے ہیں۔انہوں اگنی ویر یوجنا پر نظر ثانی کی گزارش تاج پوشی سے پہلے ہی کردی ہے۔لوک دل کے جینت چودھری کسانوں کے مسیحا سمجھے جاتے ہیں او رمودی حکومت کو کسان اپنا دشمن مانتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس طرح کی متضاد خیال پارٹیاں کس وقت تک ایک ساتھ رہ سکتی ہیں۔مودی جی نے پچھلے پچیس سال(15سال وزیر اعلیٰ اور 10سال وزیر اعظم) جس انداز سے حکومت کی ہے وہ بالکل آزاد انہ طرز تھا،ان پر کسی کا دباؤ نہیں تھا۔اپوزیشن نام کی کوئی چیز ان کے سامنے نہیں تھی۔وہ جو چاہتے تھے کرتے تھے اور جو چاہتے تھے ہوتا تھا۔ وزراتوں کے قلم دان الگ تھے مگر سب میں سیاہی ایک ہی تھی۔مگر اب کیا ہوگا جب وزراتیں الگ ہوں گی اور ان کی سیاہی بھی دوسروں کی ہوگی،معلوم نہیں ایسے قلم سے مودی جی اپنی مرضی کی کہانی کس طرح لکھوائیں گے۔ مودی جی نے جس حکومت کا حلف اٹھایا ہے اگر اسے پانچ سال چلانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ ایک غیر معمولی کارنامہ انجام دیں گے۔

اس وقت ذرائع ابلاغ میں ایک بحث یہ چل رہی ہے کہ موجودہ انتخابات میں کس کی جیت ہوئی ہے؟کیا مودی جی کو واقعی کامیابی ملی ہے؟یا وہ بظاہر جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہمیں ان ایشوز کو نظر میں رکھنا ہوگا جن کو سامنے رکھ کر ہمارے محترم وزیراعظم نے انتخابی مہم چلائی تھی۔ان کی پوری مہم خاص طور پردو نکات پر محدود تھی۔ایک یہ کہ ’’جو رام کو لائے ہیں ہم ان کو لائیں گے‘‘۔اور ’’یہ لڑائی رام بھکتوں اور رام ودروہیوں کے درمیان ہے۔‘‘یعنی اس انتخاب کا ہم ایشو شری رام تھے۔اسی کو سامنے رکھ کر جنوری میں مندر کا افتتاح کیا گیا تھا حالانکہ تمام پنڈت اور مہاراج اس بات پر متفق تھے کہ ابھی اس کی شبھ گھڑی نہیں ہے۔اب ایودھیا میں بی جے پی کی شکست نے یہ ثابت کردیا کہ واقعی وہ شبھ گھڑی نہیں تھی۔وہ ایودھیا جس میں شری رام کا بھویہ رام مندر ہے۔ جس کے افتتاح کے موقع ہر ایک دو نہیں ہزاروں عظیم الشان شخصیات پہنچی تھیں،پورے پردیش کا ماحول ’’رام مے‘‘ہوگیا تھا۔جے شری رام کے ادگھوش سے پورا ملک گونج رہا تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ آنے والے عام انتخابات میں بی جے پی کے علاوہ کسی پارٹی کو کوئی سیٹ نہیں ملے گی مگر اسی رام نگری سے بی جے پی ہار گئی اور افسوس اس بات کا ہے کہ ایک دلت سے ہار گئی،جن کا نام اودھیش ہے اوراتفاق یہ ہے کہ شری رام اور ان کے والد شری دشرتھ کو بھی’’اودھیش‘‘ کہا جاتا ہے،اس شکست نے یہ ثابت کردیا کہ رام کا اصلی بھکت کون ہے۔
دوسرا ایشوجس پر پوری مہم چلی وہ مسلمان ہے۔کہا گیا کہ اگر کانگریس آگئی تو مسلمانوں کو سب کچھ دے دے گی،یہاں تک کہ ہماری بہنوں کے منگل سوتر بھی چھین کر مسلمانوں کے حوالے کردے گی۔اس ملک میں مسلمان 1500 سال سے رہ ہے ہیں۔بھارت میں نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں اور اتنے بے وقوف بھی نہیں ہیں جتنا آپ انھیں سمجھتے ہیں۔

جو سیاسی جماعت 400 پار کے نعرے سے میدان میں اتری ہواور جس نے اس کے حصول کے لیے سارے سرکاری تنتر منتر کا استعمال کیا ہو اس کے باوجود اسے سرکار بنانے کے لیے ضروری 272سیٹیں بھی نہ ملی ہوں تو اسے شکست نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟ان 240سیٹوں میں بھی کتنی سیٹیں وہ ہیں جو مسلمانوں کی نادانی اور غیر دانش مندی کی وجہ سے جیتے ہیں،جن میں اترپردیش کی 18 سیٹیں وہ ہیں جہاں بی ایس پی نے مسلمانوں کو ٹکٹ دیا اور بعض مسلمانوں نے انھیں ووٹ دیا۔اس کے باوجود بھی بہن جی دلتوں کو شکریہ ادا کررہی ہیں اور مسلمانوں کو کوس رہی ہیں۔اس سے پہلے بھی بہن جی اپنی شکست کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہراتی رہی ہیں۔

اس صورت حال میں مسلمانوں کا کوئی اہم کردار نہیں ہے اس لیے کہ مسلمان اس ملک میں صرف پندرہ فیصد ہیں اور بہت کم سیٹوں پر موثر ہیں۔البتہ ان کی ہار میں ملک کے دلت طبقات کا اہم کردار ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے یہ کہنا کہ اس بار 400 سے زیادہ سیٹیں جیتنا ہے اور پھر آئین بدلنا ہے۔خود مودی جی کے دل کی منشا بھی یہی تھی۔اس اعلان نے ملک کی اقلیتوں اور اوبی سی نیز ایس سی ایس ٹی طبقات کے اندر خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا ایک احساس پیدا کردیا تھا۔

انتخاب میں انڈیا الائنس نے بھی بہت دور اندیشی سے کام لیا۔خاص طور پر راہل گاندھی،کھرگے جی اور اکھلیش یادو نے جس تحمل کا اظہار کیا وہ روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ البتہ اس الائنس کو باقی رہنا چاہئے۔ علاقائی پارٹیوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ان کی بقا الائنس کی بقا میں ہے۔الائنس کو ابھی سے ان ریاستوں میں محنت کرنا چاہئے جہاں آنے والے دو سال کے اندر اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں۔کانگریس کو بہت دن بعد عزت دار فتح نصیب ہوئی ہے،سماج وادی پارٹی کو بھی اترپردیش میں دوبارہ قدم جمانے کا موقع ملا ہے۔بنگال میں ٹی ایم سی نے بھی بہت اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ان رہنماؤں کو اس جیت کے لیے عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور کسی غرور وتکبر میں نہیں آنا چاہئے۔

ملک میں انتشار و افتراق کی جو مہم چلائی گئی تھی اسے عوام نے مسترد کردیا ہے۔انھوں نے آئین بدلنے کے جو ارادے ظاہر کیے تھے اس پر ووٹروں نے پانی پھیر دیا۔اس کے ووٹ فیصد میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔بھارت ایک عظیم ملک ہے،اس کی عظمت اس کی انیکتا میں ایکتا مضمر ہے۔ مسلمان بھی اسی ملک کے باشندے ہیں، انھوں نے بھی اسی مٹی میں جنم لیا ہے،اس کی تعمیر میں ان کے اجداد نے بھی خون جگر لگایا ہے،اس کی آزادی اور تحفظ کی خاطر ان کے اسلاف کے سر بھی تن سے جدا ہوئے ہیں،وہ یہاں کسی اسلامی نظام کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں،نہ ہی وہ دوسروں پر شریعت نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،وہ تو خود اسلام اور شریعت سے دور بھاگ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS