عبدالماجد نظامی
آج کی دنیا میں ہر طرف قتل و خون کی پھر وہی تہذیب پنپنے لگی ہے جس سے جان بچاکر دنیا کی قوموں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اب کسی کو دین و مذہب کے نام پر نہیں ستایا جائے گا، اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی، حکمرانی کا حق صرف ان کو حاصل ہوگا جنہیں عوام کی اکثریت محدود مدت کے لیے منتخب کرے گی اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ بھیدبھاؤ نہیں ہوگا اور ہر انسان کو یکساں طور پر ترقی کے مدارج طے کرنے کی نہ صرف اجازت ہوگی بلکہ قانون کی رہنمائی اور حمایت میں اس کے اسباب بھی مہیا کرائے جائیں گے۔ دنیا کی بیشتر اقوام کا یہ فیصلہ چند دنوں اور مہینوں کی محنت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے صدیوں پر محیط قتل و خون اور ذلت و بے کسی سے بھری تاریخ کا وہ تلخ تجربہ تھا جس نے انہیں یہ سکھایا تھا کہ بقاء باہم کے اصولوں پر گامزن رہنے میں ہی پوری انسانیت کی بھلائی کا راز مضمر ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتہ ہی میانمار سے جمہوریت کی خاطر کوشاں رہنے والے چار افراد کی پھانسی کی جو اندوہناک خبر آئی ہے، اس سے جمہوریت کے حامیوں کو شدید مایوسی ہاتھ لگی ہے اور اس بات کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ پڑوسی ملک میانمار میں عوام کی مرضی کے مطابق حکومت سازی کے عہد کا آغاز مستقبل قریب میں شاید ہی ہو پائے گا۔ یہ صورت حال اس لیے بھی تشویشناک ہے کہ ابھی تک ہمارے دوسرے پڑوسی ملک سری لنکا میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی فضا مسلسل قائم ہے اور گوٹابایا راج پکشے کے ملک سے بھاگ جانے اور استعفیٰ کے باوجود عوام کی پریشانیوں میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ جہاں تک میانمار کا تعلق ہے تو اس ملک کے حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ فروری 2021 میں وہاں کی فوج نے عوام کے ذریعہ منتخب سیاسی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے خلاف بغاوت کرکے حکومت پر قبضہ جمالیا تھا اور میانمار ملٹری کے اعلیٰ عہدیدار جنرل مین آنگ ہلاینگ نے اسٹیٹ ایڈمنسٹریٹو کاؤنسل کی تشکیل کرکے حکومت کرنا شروع کردیا تھا۔ فوجی بغاوت کے فوراً بعد نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی قدآور نیتا، جمہوریت کی بحالی کی علامت کے طور پر دنیا بھر میں معروف اور عالمی نوبل انعام برائے امن سے سرفراز آنگ سان سوچی اور ان کے دیگر لیڈران کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ اسی ملک میانمار میں بسنے والے دس لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ انتہا درجہ کے ظلم کا ارتکاب کیا گیا تھا، ان کا قتل عام ہوا، عزت و آبرو پر حملے کیے گئے اور انہیں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر بنگلہ دیش میں پناہ گزیں کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ نہ جانے کتنے روہنگیا مسلمان اپنی جان بچاتے بچاتے سمندر کی آغوش میں چلے گئے۔ کسی ملک نے بھی ان کے ساتھ انسانیت کا برتاؤ نہیں کیا۔ ایک مجبور و مقہور اور مظلوم قوم کی طرح وہ آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے ہیں اور اپنے وطن لوٹنے کی امید میں مشقتوں کا پہاڑ اپنے کاندھوں پر ڈھو رہے ہیں۔ اس پورے معاملہ میں سب سے افسوسناک پہلو یہ رہا ہے کہ امن کی خاطر نوبل انعام حاصل کرنے والی اسی آنگ سان سوچی نے میانمار کے باشندے روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کا نہ صرف یہ کہ دفاع نہیں کیا تھا بلکہ اس کے برعکس روہنگیا قتل عام میں ملوث میانمار کے جنرلوں کو بچانے کی ہرممکن کوشش کی تھی۔ اگر انہوں نے روہنگیا معاملوں پر اعلیٰ جمہوری قدروں کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں انصاف دلانے کی کوشش کی ہوتی تو آج انہیں دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہوتا۔ آج آنگ سان سوچی کو وہ قدر و منزلت تو نصیب نہیں ہے جو کبھی جمہوریت اور انسانی حقوق کے دفاع کی وجہ سے حاصل تھی لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ میانمار کے عوام کی جمہوریت کی راہ میں جو کوششیں جاری ہیں، ان کو اقوام عالم کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت کسی فرد یا خاص سیاسی پارٹی کے لیے نہیں ہے بلکہ ان اصولوں کی خاطر ہے جن کی حفاظت ہر حال میں مطلوب ہے تاکہ دنیا ایک بار پھر سے انارکی اور فسطائیت کی گود میں جاکر گھٹن محسوس نہ کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میانمار کی فوج نے جمہوریت کی بحالی کی راہ میں کوشاں رہنے والے چار افراد کو تختۂ دار پر لٹکا دیا تو دنیا بھر سے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہونی شروع ہوگئی۔ احتجاج کی سب سے پہلی اور مضبوط آواز کمبوڈیا سے اٹھی جو ان دنوں ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنس(آسیان) کی صدارت سنبھالے ہوئے ہے۔ اس احتجاج کی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ خود میانمار اس گروپ کا حصہ ہے۔ کمبوڈیا نے پھانسی دیے جانے سے قبل بھی میانمار سے گزارش کی تھی کہ وہ اس سے باز رہے کیونکہ اس کے اس اقدام سے آسیان ممبران اور ان کے حلیفوں میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔ لیکن میانمار کے فوجی حکمرانوں پر اس کا کوئی اثر اسی طرح سے نہیں پڑا جس طرح امریکہ، کناڈا، آسٹریلیا، برطانیہ اور یوروپی یونین کی مذمتوں اور اقتصادی پابندیوں کا نہیں ہوا تھا۔ فوجی جنرلوں کی اس بے باکی اور جرأت کی اصل وجہ یہ ہے کہ روس اور چین جیسے دو طاقت ور ممالک کی پشت پناہی انہیں حاصل ہے۔ چین کے مفادات تو بالخصوص میانمار کے ساتھ اس طرح وابستہ ہیں کہ وہاں اس نے کافی انوسٹمنٹ کر رکھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چین نہیں چاہتا کہ اس کی سرحد پر مزید ایک مسئلہ کھڑا ہو اور اسی لیے میانمار اس کا فائدہ خوب اٹھاتا ہے۔ چین وہ پہلا ملک ہے جس نے 2021 کی فوجی بغاوت کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ خود آسیان ممبران میں سے تھائی لینڈ کی حمایت میانمار کے باغی فوجیوں کو حاصل ہے۔ ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر میانمار کے فوجی حکمراں نے پھانسی کے لیے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ پہلی بڑی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ عوام کی جانب سے مسلسل بڑھتی صدائے احتجاج کو کچلنے میں فوجی جنرل ناکام ہوگئے ہیں، اس لیے یہ اقدام کرکے جمہوریت کے حامیوں کے حوصلے پست کیے جا سکیں اور ملک پر کنٹرول کو مضبوط کرکے اپنے لیے جواز کی راہ ہموار کرسکیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ مانی جاسکتی ہے کہ جنرل مین آنگ ہلاینگ فوجیوں کا حوصلہ بڑھانا اور حکومت چلانے کے معاملہ میں اپنی قابلیت کو ثابت کرنا چاہتا ہو، کیونکہ سابق جنرلوں کے مقابلہ میں مین آنگ کی قابلیت پر خود فوج کے اندر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ ان آوازوں کو بند کرنا بھی اس کے پیش نظر ہوسکتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ دنیا کی توجہ اس وقت سری لنکا اور روس پر مرکوز ہے، اس لیے میانمار کے فوجی جنرل نے مقامی اپوزیشن کو خاموش کرنے کے لیے اس وقت کو سب سے موزوں گمان کیا ہو۔ وجوہات جو بھی ہوں لیکن میانمار میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں اور حقوق انساں کے حامیوں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے۔ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ صرف میانمار میں نہیں ہو رہا ہے بلکہ چین، یوکرین، نائیجیریا، سوڈان، یمن، شام اور ایران و عراق اور فلسطین ہر جگہ یہ تماشہ چل رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ایران 2022 میں اب تک دو سو سے زائد لوگوں کو پھانسی دے چکا ہے اور اس سال کے آخر تک یہ تعداد بہت بڑھ جائے گی۔ ہمارا ملک ہندوستان خود اقلیتوں کے ساتھ نازیبا سلوک کر رہا ہے اور انسانی اور جمہوری قدروں کی پامالی ہر روز کھلے عام ہوتی ہے۔ اس سلسلہ کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا سب کی ذمہ داری ہے کہ جمہوری قدروں کی پامالی نہ ہو اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔ آج دنیا کا بیشتر حصہ مسائل کے طوفان میں اس لیے گھرتا جا رہا ہے کیونکہ مظالم کے خلاف اور مشترک انسانی قدروں کے حق میں آواز اتنی قوت سے بلند نہیں ہوتی جتنا کہ اس کاز کا تقاضہ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معصوم زندگیاں پھانسی کے پھندے پر نہ جھولیں تو ہمیں جمہوریت کی حفاظت کے لیے آگے آنا ہوگا۔ میانمار میں بھی اس بات کا قوی امکان پیدا ہو رہا ہے کہ جمہوریت کے شہیدوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور وہاں آزادی و انسانی حقوق کی بحالی کی آوازیں مزید تیز سے تیز تر ہوں گی۔ ایک پرامن اور ترقی پذیر معاشرہ کی تشکیل اس کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]