محمد فاروق اعظمی
ادب انسانی جذبات‘احساسات اور خیالات کا آئینہ دار ہے‘جو دل کی گہرائیوں میں چھپے رازوں کو آشکار کرتا ہے اور انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی روشنی ہے جو زندگی کی بے رنگی کو رنگین کر دیتی ہے‘جو خوابوں کو حقیقت کا لباس پہناتی ہے‘اور جو مایوسی کو امید میں بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ مگر جب ہم موجودہ دور کے ادب پر نظر ڈالتے ہیں تو دل میں ایک عجیب سا بوجھ اور بے چینی جنم لیتی ہے۔ وہ ادب جو کبھی سچائی‘دیانت داری اور انسانی اقدار کا علمبردار تھا‘آج غیر ادبی رویوں‘سیاست اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
ادب کے میدان میں ایوارڈز اور تقریبات ہمیشہ تخلیق کاروں کیلئے ان کی محنت کی پہچان کا ذریعہ رہی ہیں۔ ان مواقع پر ادیبوں کی تخلیقات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا تھا اور ان کی صلاحیتوں کو دل کھول کر سراہا جاتا تھا۔ لیکن آج یہ خوبصورت روایات سیاسی اور ذاتی مفادات کے جال میں الجھ کر اپنی شفافیت کھو چکی ہیں۔ وہ ادیب جو اپنی محنت اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے نمایاں ہونا چاہتے ہیں‘ان کا راستہ ان لوگوں نے روک رکھا ہے جو محض تعلقات اور شہرت کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف نئے لکھنے والوں کیلئے مایوسی کا سبب بنتا ہے بلکہ ان کے تخلیقی سفر کو دشوار تر کر دیتا ہے۔
جب ایک نیا ادیب اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی جستجو کرتا ہے اور اس کے سامنے یہ ناانصافیاں آکھڑی ہوتی ہیں تو وہ دل شکستہ ہو کر کیا کرتا ہے؟ کیا وہ اپنے خواب دفن کر دیتا ہے یا پھر اسی سیاست کا حصہ بننے پر مجبور ہو جاتا ہے جس نے اس کے راستے بند کئے؟ یہ سوال ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ تخلیقی آزادی کا فقدان ان ادیبوں کیلئے ایک اذیت ناک حقیقت بن چکا ہے جو اپنی تحریروں کے ذریعے انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ان کے خواب نہ صرف بکھر جاتے ہیں بلکہ وہ ادب کی اصل روح کو بھی زخمی کر دیتے ہیں۔
ادب کے زوال کی ایک اور شکل ان تقاریب میں نظر آتی ہے جو بظاہر ادبی خدمات کے فروغ کیلئے منعقد کی جاتی ہیں‘مگر درحقیقت ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ خود کو بڑے ادیب اور نقاد کہلانے والے افراد ان مواقع کو اپنی ذاتی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ وہ ان ادیبوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو ان کی ’علمی برتری‘ کو بے نقاب کرنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں کولکاتا کے مضافات میں ایک واقعہ سامنے آیا جو ادب کی اس زبوں حالی کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ ایک شعری مجموعہ کی تقریب کیلئے منتظمین نے کئی ادیبوں سے ان کی سہولت کے مطابق وقت طلب کیا۔ سب نے اپنا وقت بتایا اور تقریب میں شرکت کیلئے آمادگی ظاہر کی۔ لیکن جب دعوت نامہ جاری ہوا تو ان ادیبوں کا ذکر غائب تھا جن سے وقت لیا گیا تھا اور ان کی جگہ ایک خاص گروہ کے افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔
جب اس رویے پر منتظمین سے بات کی گئی تو انہوں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ مہمانِ خصوصی کی شرط تھی کہ فلاں فلاں شخص کو مدعو نہ کیا جائے۔ مہمان خصوصی کی شخصیت بھی ایسی منفرد اور اپنی مثال آپ ہے جس کی جھلک کسی اور میں نہیں ملتی۔
یہ صورتحال نہ صرف ادبی تقریبات تک محدود ہے بلکہ مجموعی طور پر تخلیقی میدانوں میں ایک عام روایت بنتی جا رہی ہے‘جہاں ذاتی پسند و ناپسند اور تعلقات کی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ ایسے میں‘تخلیق کاروں کیلئے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف اور اپنی محنت کا صحیح معاوضہ پانا مشکل تر ہو چکا ہے اور یہ رویہ نئے چیلنجز کو جنم دیتا ہے‘خاص طور پر سوشل میڈیا کے دور میں۔ سوشل میڈیا کا دور ادب کیلئے ایک دو دھاری تلوار بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ ایک وسیع پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے تخلیق کار اپنی تخلیقات دنیا تک پہنچا سکتے ہیں‘وہیں دوسری طرف اس نے ادب کی حقیقت اور معیار کو پیروکاروں اور مقبولیت کے پیمانوں سے ناپنا شروع کر دیا ہے۔ اس نئے دور میں ایک نظم کی خوبصورتی یا ایک کہانی کی گہرائی کی قدر کم ہو گئی ہے اور اس کی مقبولیت اور لائکس کی تعداد کو ہی اس کا معیار سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ ایک شاعر جو اپنے دل کی گہرائیوں سے لکھتا ہے‘جب اپنی تخلیق کو صرف ’لائکس‘ کی محتاج پاتا ہے‘تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے؟ کیا وہ اپنے تخلیقی عمل کو ایک کاروبار میں بدلتا محسوس کرتا ہے؟ کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کے الفاظ کا جادو اب کوئی معنویت نہیں رکھتا؟
یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا نے ادب کو ایک نیا رخ دیا ہے‘مگر جب یہ رجحانات سیاست اور گروہ بندی کے اثرات سے متاثر ہوتے ہیں تو ادب کی اصل روح مزید کمزور پڑ جاتی ہے۔ اس صورت میں‘تخلیق کار کی سچائی اور آزادی پر سوالات اٹھتے ہیں‘اور وہ اپنے فن کو محض مقبولیت یا ذاتی مفادات کیلئے قربان کر دیتا ہے۔ جب ادب کا مقصد محض شہرت یا تعلقات کے ذریعہ کامیابی حاصل کرنا بن جائے‘تو تخلیق کی سچائی کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ادب اور سیاست کا رشتہ ہمیشہ سے پیچیدہ رہا ہے۔ سیاست کا ادب پر اثر مثبت بھی ہو سکتا ہے‘خاص طور پر جب وہ انسانی فلاح اور بھلائی کیلئے ہو‘لیکن جب یہ تعصبات اور گروہ بندی کی آڑ میں تبدیل ہو جائے‘تو یہ ادب کی آزادی اور اس کی سچائی کو متاثر کرتا ہے۔ کئی بار ادیب اپنے تخلیقی عمل میں دیانت داری کے بجائے سیاست اور گروہ بندی کے مفادات کے تابع ہو جاتے ہیں۔ اس سے ادب کی روح مجروح ہوتی ہے اور اس کے پیغام میں بے خودی آ جاتی ہے۔ سچے ادیب کا کام انسانیت کی بھلائی کیلئے ہوتا ہے‘نہ کہ اپنے ذاتی مفادات یا نظریات کے پرچار کیلئے۔ وہ ہمیشہ آزاد ہوتا ہے‘اور اس کی تخلیقات کا مقصد انسانوں کے دلوں میں محبت‘انصاف‘اور امن کی روشنی بھرنا ہوتا ہے۔
اس تمام صورتحال میں‘جہاں سوشل میڈیا اور سیاست دونوں نے ادب کی حقیقت اور معیار کو متاثر کیا ہے‘وہیں تخلیق کاروں کیلئے ایک نئی جدوجہد پیدا ہو گئی ہے۔ انہیں اپنی تخلیقی آزادی اور سچائی کا دفاع کرنا پڑتا ہے‘تاکہ وہ ادب کو اس کی اصل روح میں زندہ رکھ سکیں‘اور انسانیت کیلئے ایک روشنی کا ذریعہ بن سکیں۔ کیوں کہ ادب کا مقصد صرف تفریح فراہم کرنا نہیں ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو دلوں کو جوڑنے‘نفرت کو محبت میں بدلنے اور مایوسی کے اندھیروں میں امید کی روشنی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ادب انسان کے اندر کی حقیقت کو آشکار کرتا ہے‘اسے اس کی خامیوں اور خوبیوں کے بارے میں سوچنے کا موقع دیتا ہے اور اس کی تخلیقات کے ذریعے انسان اپنے آپ کو نئے زاویے سے دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ ادب کا کام صرف کہانیاں سنانا نہیں‘بلکہ ایسی کہانیاں سنانا ہے جو دلوں کو چھو لیں‘جو روح کو جھنجھوڑ دیں اور جو ذہنوں کو نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کر دیں۔
ادب کی اصل روح کو بحال کرنے کیلئے ہمیں اپنی سوچوں اور رویوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ ہمیں تعمیری تنقید کو فروغ دینا ہو گا جو ادب کیلئے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ادب کے حقیقی معیار کو مقبولیت کے پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا۔ ہر تخلیق کا اصل معیار اس کی معنویت اور گہرائی میں ہے۔ ہمیں ادبی تقریبات میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ تخلیق کاروں کو ان کی محنت اور صلاحیت کے مطابق انعامات ملیں اور وہ اپنی تخلیقات کو پوری آزادی کے ساتھ دنیا کے سامنے لا سکیں۔ سوشل میڈیا کے دور میں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ادب کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت ہے‘نہ کہ لائکس یا فالوورز کی تعداد بڑھانا۔
ادب صرف الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ یہ ایک مقدس ذمہ داری ہے۔ ادب انسان کی روح کا آئینہ ہوتا ہے جو اس کی اندرونی حقیقتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ انسانیت کیلئے ایک رہنمائی بن سکتا ہے جو ہمیں اس کی فطری حقیقتوں سے روشناس کراتا ہے اور ایک بہتر دنیا کے قیام کیلئے راہ ہموار کرتا ہے۔ اگر ہم ادب کو اس کی اصل روح کے ساتھ پروان چڑھائیں تو یہ نہ صرف معاشرتی ترقی کا باعث بن سکتا ہے بلکہ انسانیت کیلئے ایک روحانی سکون کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم ایک ایسا ماحول پیدا کریں جہاں ادب انسانیت کی خدمت میں ایک روشنی کی مانند چمکے‘جہاں ہر تخلیق کا مقصد محبت‘ہم آہنگی اور انصاف کا پیغام ہو اور جہاں تخلیق کار اپنی تخلیقی آزادی کے ساتھ اپنے خوابوں کو دنیا کے سامنے لا سکیں۔ ادب کو اس کی اصل شکل میں پروان چڑھانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے تاکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کیلئے ایک امید کا چراغ بنے اور ان کی فلاح و بہبود کا باعث بنے۔