شاہد زبیری
وزیر اعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ روز یہاں بجنور میں ایک عوامی جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے نیشنل کرائم ریکارڈ بیو رو ( این سی آر بی ) کے حوالہ سے کہا کہ یو پی میں گزشتہ 5سالوں میں کوئی فساد نہیں ہوا ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکی ا س رپورٹ پرکون انگلی رکھ سکتا ہے لیکن یوپی میںمذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں آئے دن جو اضافہ ہورہا ہے اس کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے ۔ابھی گیان واپی مسجد میں شیو لنگ کی برآمدگی کا دعویٰ اور کاشی وشو ناتھ مندر کا تنازع عدالت میں زیر سماعت ہے کہ آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے یوپی کے کنوینرمکیش پٹیل نے بدایوں کی جا مع مسجد شمسی کو نیل کنٹھ مہادیو مندر ہو نے کا دعویٰ پیش کردیا اور ان کی ودیگرکی جانب سے عدالت میں رٹ پٹیشن بھی داخل کردی گئی اور تو اور دیوانی جج( سینئر ڈویژن) وجے گپتا نے دعوے سے متعلق سماعت پر رضامندی ظاہر کرتے ہو ئے 15ستمبر کی تاریخ سماعت بھی مقرر کردی۔ ہندو مہا سبھا کے کنوینر کا دعویٰ ہندو مہا سبھا کا ہی دعویٰ مانا جا ئے گا ۔ خبروں کے مطابق رٹ پٹیشن میں کہا گیاہے کہ جس جگہ جامع مسجد ہے یہاں پہلے راجہ مہیپال کا قلعہ اور نیل کنٹھ مہا دیو کا مندر تھا۔ ہندو مہاسبھا کے یوپی کے کنوینیر مکیش پٹیل کا دعویٰ ہے کہ قطب الدین ایبک کے داماد التمش نے راجہ مہیپال کا قتل کردیا تھا اور نیل کنٹھ مہا دیو مندر توڑ کر مسجد تعمیر کردی تھی۔ اس دعویٰ کی تاریخی حقیقت کچھ بھی ہو لیکن اس دعوے کے پیچھے ہندو سبھا کے مقاصد کسی سے چھپے نہیں ہیں اور نہ کسی کو اس بات پر حیرت ہونی چاہئے کہ دیوانی جج( سینئر ڈویژن ) اس معاملہ کی سماعت پر کیوں آمادہ ہو گئے اور کیوں اگلی سماعت کی تاریخ بھی لگا دی اس لئے کہ گیان واپی مسجد کے شیو مندر ہونے کے تنازع میں دائر کی گئی رٹ کی سماعت پر ذیلی عدالت نے اپنی مہر لگا کر اس کا دروازہ کھول دیا تھا اور پارلیمنٹ میں پاس کئے گئے 1991کے اس ایکٹ کے وجود اور اس کی آئینی حیثیت پر ہی سوال کھڑا کردیا تھاجس ایکٹ کی رو سے بابری مسجد کیس کے استثنیٰ کے ساتھ 1947کے بعد ملک بھر میں جو عبادت گاہیں ہیں خواہ وہ کسی مذہب یا فرقہ کی ہوںان کی حیثیت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا پھر بھی چیلنج کیا جا رہا ہے اور عدالتیں سماعت کررہی ہیں،گیان واپی مسجد کیس کے تنازع کی سماعت نے غلط یاصحیح ایک ایسی نظیر قائم کردی ہے جس کے بعد اب کسی بھی مسجد یا عید گاہ کے مندر ہونے پر کوئی بھی اور کسی بھی عدالت میں دعویٰ دائر کرسکتا ہے انتہا پسند ہندو تنظیمیں ایسی 30ہزار مساجد پر اپنا دعویٰ پیش کرتی رہی ہیں جو ان کے مطابق مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں ۔ مسجد شمس پر مندر ہو نیکا دعویٰ اس کی تازہ مثال ہے۔ کرناٹک کے بنگلورو کی عید گاہ پرہر چند مندر ہو نے کا دعویٰ تو نہیں پیش کیا گیا لیکن عیدگاہ کے میدان میں گنیش چترٹھی اتسو کئے جانے کی اجازت کی درخواست پر غور کرنے کیلئے کرناٹک ہائی کورٹ نے بنگلورو کے کمشنر کو اس بابت ملنے والی درخواستوں پر غور کرکے مناسب حکم جاری کرنے کی اجازت دے دی تھی اس حکم کے خلاف کرناٹک وقف بورڈ نے سپریم کورٹ کے دروازہ پر دستک دی اور سپریم کورٹ نے فریقین کو جوں کی توں صورتِ حال برقرار رکھنے کا حکم صادر کیا اور اسٹیٹس کو کے نفاذ کے حکم کے بعد اتسو کی تقریب نہیں ہو سکی ۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی جہاں سرکاریں ہیں وہاں اقلیت مخالف طاقتیں اور فرقہ پرست عناصر الگ الگ ناموں سے کافی سرگرم ہیں اور مسلم مخالف ماحول بنا نے کی سعی کررہی ہیں ابھی کل کی بات ہے کہ اترا کھنڈ کی بی جے پی سرکار میں ہریدوار کی د ھرم سنسد میں کھلے عام مسلمانوں کے قتلِ عام کی دھمکی دی گئی تھی ۔اس کیس میں ڈاسنہ غازی آباد کے ایک بدنامِ زمانہ اور فائر برانڈخود ساختہ سنت کو جیل جانا پڑا تھا اب اسی کیس میں فرار چل رہے سابق وسیم رضوی اب جتنیدر نارائن تیاگی نے عدالت میں خود سپردگی کی ہے اور ان کو اس کیس میں جیل جا نا پڑا ہے ۔اتراکھنڈ کی بی جے پی سرکار ملک کی ایسی پہلی سرکار ہے جس نے اترا کھنڈ میں کامن سول کوڈ کے نفاذ کی تجویز پاس کی ہے اور اس کیلئے باقاعدہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کامن سول کوڈ کا مسودہ تیار کرے گی ۔
مہاراشٹر میں بھی بی جے پی نے شیو سینا کے باغی شندے کی سرکار بنا نے اور سرکار میں شامل ہونیکا کارنامہ انجام دینے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ ریاستی اسمبلی میں شہر اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام تبدیل کئے جا نے کی تجویز پاس کی اور اورنگ آباد کا نام سمبھا جی نگر اور عثمان آباد کا نام دھارا شو کردیا۔ گجرات سرکار کا تازہ کارنامہ بھی سب کے سامنے ہے گجرات سرکار نے کس بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلقیس بانو کیس کے سزا یافتہ 11 درندوں کو جیل سے نہ صرف رہا کیا وشو ہندو پریشد کی طرف سے ان کو تلک بھی لگا یا گیا گل پوشی کی گئی اور منھ میٹھا کرا یا گیا جس کے خلاف ملک میں ہی نہیں ملک سے باہر بھی مظاہرے ہو رہے ہیں اور امریکہ کی حکو مت کے مذہبی تحفظ کے کمیشن نے بھی احتجاج کیا ہے ۔ مدھیہ پردیش کی شیو راج چوہان کی سرکار میں مسلم اقلیت کے مکانوں پر جس طرح بلڈوزر چلا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ آسام میں بھی بی جے پی کی سرکار ہے وہاں کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما آئے دن کسی نہ کسی بہانے مسلم اقلیت کا قافیہ تنگ کئے ہو ئے ہیں اب ان کے نشانہ پر دینی مدارس ہیںمدارس پر ان کی سرکا ر کا بلڈوزر بلا روک ٹوک چل رہا ہے۔ سرکار کی نظر میں آسام کے مدارس دہشت گردی کی نرسری ہیںاس لئے مدرسوں کو ہی زمین بوس کیا جا رہا ہے اور جب الزام ثابت نہیں ہوتا تو غیر قانونی تعمیر کا بہا نہ بنا کر مدرسوں کے انہدام کی کارروائی جا ری ہے۔ یو ڈی ایف کے سر براہ اور ممبر پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے بی جے پی سرکار کی اس اشتعال انگیز اور جارحانہ کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ جا نے کا عندیہ دیا ہے ۔آسام سرکار کی دیکھا دیکھی اب یوپی کی بی جے پی کی یوگی سرکار کو نہ جا نے غیر سرکاری مدرسوں کے سروے کرا ئے جا نے کی کیا ضرورت آن پڑی یوپی کے تمام اضلاع کے مجسٹریٹوں کو حکم دیا ہے کہ وہ 10ستمبر تک تمام غیر سرکاری مدارس کا سروے کراکر اپنی رپورٹ سرکار کو پیش کریں۔ ملی حلقوں میں مدارس کے اس سروے کو لے کر طرح طرح کے اندیشے ظا ہر کئے جا رہے ہیں لیکن کچھ نمام نہاد مسلم تنظیموں کے خود ساختہ قائدین جو خود کسی مدرسہ سے فارغ نہیں ہیں اور صرف دو رکعت کے امام ہیں وہ مدارس کے سروے کی حمایت میں سامنے آگئے ہیں ہندی اخبارات ان کے بیانات کو علمائے دیوبند کے بیانات کا نام دیکر گمراہ کررہے ہیں جبکہ مسلم پر سنل لاء بورڈ نے آسام اور یو پی سرکار کی طرف سے مدارس کے خلاف چلائی جا رہی اس مہم کو بی جے پی سرکاروں کا متعصبانہ اور غیر آئینی رویہ قرار دیا ہے اس بابت بورڈ کے قومی جنرل سکریٹری اور معروف عالم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مسلم پرسنل بورڈ کی طرف سے تفصیلی بیان جا ری کیا ہے اور حکومت کے اس غیر آئینی اور تعصبانہ رویّہ کی مذمت کی ہے اور مسلمانوں سے تحمل اور صبر سے کام لینے کی اپیل کی ہے ۔
[email protected]