عام انتخابات کے پل صراط سے گزررہی مرکزکی مودی حکومت کے ہتھیار ایک ایک کرکے کند ہوتے جارہے ہیں۔ جھوٹ، مکر، فریب کا پردہ چاک ہورہاہے تو کہیں عوام کے اشتعال کاسامنا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ ’ بھگت ‘ کہے جانے والاطبقہ بھی کروٹ لے کر بیدار ہورہاہے۔ وزیراعظم مودی کے حلقہ انتخاب وارانسی میں ٹیلی ویژن چینلوں کے کھلے مباحث کے دوران ہونے والے سوالات بتاتے ہیں کہ خود وزیراعظم کیلئے بھی پنگھٹ کی ڈگر بہت مشکل ہونے والی ہے۔پانچ ہزار روپے کا رسوئی گیس سلنڈر اور500روپے فی لیٹر پٹرول خریدنے کے عزم کا اظہار کرنے والے بھی ندامت کا اظہار کرتے نظرآرہے ہیں۔ نظریہ جبرکو اپنی حکومت اور سیاست کا خشت اول سمجھنے والی حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کو ان حالات میں مرکزی ایجنسیوں کی بے لگام طاقت کا ہی سہارا تھا۔مقابلہ سے پہلے ہی حزب اختلاف کو کھیل سے باہر کرنے کیلئے ای ڈی، سی بی آئی، آئی ٹی اور این سی بی جیسے آئینی اداروں کا بے دریغ استعمال ہوا۔ اب تک یہ آئینی ادارے حکمرانوں کے احکامات کی تعمیل میں مخالفین پر بجلی بن کرکے گرتے رہے۔کہیں انہوں نے حزب اختلاف کے قائدین کو پس دیوار کیا تو کہیں کسی منتخب وزیراعلیٰ کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر آقائوں کی شاباشی حاصل کی۔
لیکن اب مرکزی حکومت ان ہتھیاروں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال نہیں کر پائے گی اور نہ یہ ادارے حزب اختلاف کے قائدین کو اپنی سینگوں پر اچھالنے کا بے لگام شوق ہی پورا کرسکتے ہیں، کیوں کہ عدالت عظمیٰ نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ( ای ڈی)کے ان اختیار ات کو محدود اور کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت وہ کسی کو بھی کسی بھی وقت گرفتار کرسکتا تھا۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ ای ڈی اب پری وینشن منی لانڈرنگ ایکٹ(پی ایم ایل اے) کے تحت ملزم کو براہ راست گرفتار نہیں کرسکتا۔ ای ڈی یعنی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ تب ہی گرفتار کرسکتا ہے جب خصوصی عدالت شکایت کا نوٹس لے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیاہے کہ اگر ای ڈی پی ایم ایل اے کے تحت گرفتاری کرنا چاہتا ہے تو اسے خصوصی عدالت سے رجوع کرنا ہوگا اور اسے بتانا ہوگا کہ وہ ملزم کو اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہے۔ یعنی ای ڈی کو گرفتار کرنے سے پہلے عدالت کی منظوری لینی ہوگی۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جرم کا نوٹس لینے کے بعد ای ڈی اور اس کے افسران پی ایم اے ایل قانون کی دفعہ 19 کے تحت ملزم کو گرفتار کرنے کے اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ خصوصی عدالت کو سب سے پہلے سمن جاری کرنا ہوگا اور اگر ملزم اس سمن کا صحیح جواب دیتا ہے تو ان کے ساتھ ’نظربند‘ نہیں سمجھا جا سکتا۔جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اجول بھوئیاں کی بنچ نے مزید واضح طور پر کہاکہ اگر ای ڈی کسی ملزم کی تحویل چاہتا ہے تو اسے خصوصی عدالت میں درخواست دینی ہوگی۔ اگر عدالت کو لگتا ہے کہ حراست میں پوچھ گچھ کی ضرورت ہے تو اجازت دی جائے گی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ دفعہ 204 کے تحت سمن جاری ہونے کے بعد اگر ملزم سمن کے مطابق خصوصی عدالت میں پیش ہوتا ہے تو اسے حراست میں نہیں سمجھا جائے گا اور اس لیے، اس کیلئے ضمانت کی درخواست دینا ضروری نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ خصوصی عدالتیں بعض معاملات میں ملزم کو حاضری سے استثنیٰ بھی دے سکتی ہیں۔
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ یا ای ڈی وزارت خزانہ کے ماتحت کام کرنے والی مرکزی حکومت کی وہ طاقتورایجنسی ہے جو ملک میں منی لانڈرنگ کے معاملات کی تحقیقات کرتی ہے۔پی ایم ایل اے قانون کی دفعہ 19 ای ڈی افسران کو کسی شخص کو اس کے قبضے میں موجود مواد اور اس یقین کی بنیاد پر گرفتار کرنے کی اجازت دیتی ہے کہ وہ شخص مجرم ہے۔اس کے علاوہ ایک برس قبل مودی حکومت نے ایک گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا جس کے مطابق ای ڈی کو یہ اختیارات بھی دیے گئے کہ وہ شاہ و گدا اور ادنیٰ و اعلیٰ کی کسی تمیزکے بغیر سیاسی طور پر نمایاں افراد، سیاسی جماعتوں کے رہنما، اعلیٰ حکام، جج اورسابق و موجودہ فوجی اہلکار وںحتیٰ کہ ریاستوں کے سربراہ یعنی وزرائے اعلیٰ تک کو بھی صرف اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرکے اپنی حراست میں لے سکتا ہے،پوچھ گچھ کرسکتا ہے، گرفتار بھی کرسکتا ہے۔اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال اور جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین کو ای ڈی نے گرفتار کر کے بی جے پی کی راہ کے کانٹے صاف کیے تھے۔
ممکن ہے حکومت اوراس کے حاشیہ بردار عدالت کے اس فیصلہ کو بھی ’ دبائو‘ کانتیجہ قرار دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک بار پھر مخصوص وکلا اور عزت مآب سابق جج صاحبان کا مکتوب گرامی آجائے اور کہاجائے کہ ’ عدل کی پاسداری‘کاخیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ فیصلوں اور احکامات پر دبائو، خوف اور لالچ اثراندازہورہے ہیں۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ مرکزی ایجنسیوں کے پر کترنے، ان کی مشکیں کسے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔موجودہ انتخابی ایام میں عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ حکومت کے آزمودہ ہتھیاروں کی دھارکند کرنے کا ایسا عمل ہے جو بی جے پی کے خرمن آرزوکی تاراجی پر منتج ہوسکتاہے۔
[email protected]