عبدالسلام عاصم
گزشتہ سال دنیا بھر میں مسلح تنازعات کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق 43 ہزار انسانی جانوں کا ناحق زیاں ہوا۔ یہ افسوسناک اطلاع اقوام عالم کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریس نے صرف اِن ہلاکتوں پر افسوس ظاہر نہیں کیا بلکہ ارتقاء پذیر دنیا میں زندگی کے تئیں انسانی رویے میں بہتر تبدیلی کے حوالے سے سوچنے والوں کو یہ بتا کر اور زیادہ متحرک کرنا چاہا کہ تنازعات، کشیدگی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تشدد کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کی مجموعی تعداد اب دس کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔
دنیا میں دس کروڑ مہاجرین کی موجودگی کی اطلاع کوئی ایسی خبر نہیں کہ اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا جائے۔ غالباً اِس یقین کے ساتھ ہی اس عالمی رہنما نے مسلح تنازعات سے عام شہریوں کو بچانے سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں یہ وارننگ بھی دی کہ اب جنگوں سے گریز کیا جائے جو دنیا بھر میں انسانی جانوں کے لیے تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق گزشتہ برس گنجان طور پر آباد علاقوں میں انسانی زندگی کیلئے انتہائی نامناسب واقعات سے متاثر ہونے والوں میں 94 فیصد متاثرہ زندگیاں عام شہریوں کی تھیں۔ یوکرین کی جنگ نے انسانی زندگی کی خستہ حالی کا دائرہ بڑھانے میں تازہ ترین افسوسناک کردار ادا کیا ہے۔ ارتقاء پذیر دنیا میں زندگی کے تئیں انسانی رویے میں بہتر تبدیلی کے حوالے سے سوچنے والوں کو بہرحال مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اُنہیں انسانی رشتوں پر غیر انسانی مفادات اور محدود نظریات کے علاوہ رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کو ترجیح دینے والوں کے گھروں میں پیدا ہونے والی نئی نسل کو اعتماد میں لے کر یہ بتانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ یہ دنیا روز ازل سے ارتقا کے سفر پر ہے۔ یہ سفر کسی منزل کے رُخ پر نہیں بلکہ ایک سے زیادہ موڑ سے گزرنے والاایک سلسلہ ہے اور اس کے عصری مرحلے کے عینی شاہد ہم لوگ ہیں۔ عہد بہ عہد جاری یہ سلسلہ رفتارِ زمانہ سے علمی اور سائنسی ہم آہنگی کے ساتھ جیسے جیسے آگے بڑھے گا اوہام کے اندیشوں کے ہیولے گرتے جائیں گے اور امکانات کے نت نئے در کہیں افق در افق تو کہیں پرت در پرت کھلتے جائیں گے۔
جنگوں اور تنازعات سے محدود فائدہ اٹھانے والے اکثر کہتے ہیں کہ پتہ نہیں عقلیت اور عملیت پسند لوگ کتنی حسرتوں کے ساتھ آخری سفر کریں گے۔ ایسے طنز یا سنی سنائی باتیں دہرانے پر قادر لوگوں کے فرار پسند جملے صحافت کی دنیا میں ناچیز نے بھی اکثر سنے ہیں لیکن جواب آں غزل پر ہمیشہ اپنا کام آگے بڑھانے کو ترجیح دیتا رہا۔ اس سفر میں ایک مرتبہ میرے ہی ایک شاگرد نے ایک موضوعاتی گفتگو میں مجھے یہ بتا کرانتہائی خوش کُن طریقے سے حیران و ششدر کر دیا تھا کہ ’’رفتار زمانہ سے جس موجودہ ہم آہنگی کے ہم ناظر ہیں وہ ارتقا پذیر دنیا میں عمل کی تحریک سے لیس خواب چھوڑ کر جانے والوں کے احسان کا ہی نتیجہ ہے‘‘۔
اس طویل جملے کو سمجھنے میں مجھے تھوڑی دیر تو ضرور لگی لیکن اس کے بعد میں اِس سچ کے یقین کے ساتھ اچھل پڑا کہ نقشِ ثانی کے نقشِ اول سے بہتر ہونے کا فطری سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔
جاوداں سلسلہ ہے زندگی ہر صبح کے ساتھ
موت کے حصے میں لاشوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اس واقعاتی تمہید کے ساتھ جو بتانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ سائنس عملاً کسی کے مذہبی عقیدے سے متصادم نہیں۔ البتہ وہ تشکیک، تحقیق اور پھر تصدیق کو بنیادی انسانی حقوق گردانتا ہے۔ جو لوگ (بہ کثرت) یہ مانتے ہیں کہ دنیا ایک طے شدہ حقیقت ہے وہ سائنس کے نزدیک بھی غلط نہیں کہتے، لیکن وہ اِس سچ کو صرف مانتے ہیں، جانتے نہیں! مانتے اس طرح ہیں کہ اِس کا بس راست مطلب نکالتے ہیں اور جانتے اس لیے نہیں کہ تفہیم کیلئے اس پرغور نہیں کرتے!!!
متحرک سائنسی علم کا جاری تجزیاتی سفرجب مرحلہ وار تجرباتی دور میں داخل ہوا توتقلید پر شعور کو ترجیح دینے والوں نے دیکھا کہ بندھے ٹکے اصولوں کو طے شدہ ماننے والوں نے ادیان کا رشتہ عقل سے بس اس حد تک قائم رہنے دیا ہے کہ عقل بس اس کی تائید کرتی رہے۔ جامد اتفاق پر متحرک اختلاف علم کے فروغ کیلئے ناگزیر ہے اور اس سچ کوماننے والوں نے یہیں سے اپنا راستہ الگ کیا اور مرحلہ وار ان کے نت نئے انکشافات نے عقائد کے نام پر ایک سے زیادہ شعبدوں کی پول کھول کر رکھ دی۔
دین کے نام پر دنیا پرستی کا کاروبار کرنے والوں نے یہیں سے اُس محاذ آرائی کی راہ ہموار کی جو آج پوری دنیا کو آزمائش سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ جہل اور غریبی سے بری طرح آلودہ معاشروں میں یہ شعبدہ زوال کے رخ پر اسی قدر ہی شباب پر ہے جس قدر ترقی کے رُخ پر سائنسی علوم کو عروج حاصل ہے۔ اس طرح ایک طرف دنیا کو جہنم بنا کر رکھ دینے والی سوچ سے نئی نسل کے ذہنوں کو آلودہ کیا جا رہاہے تو دوسری طرف دنیا کو انگیخت کرنے والی ’’تعلیم‘‘ زندگی کے حق میں ہر روز امکانات کے نئے در وا کرتی جا رہی ہے۔
اس پس منظر میں انسانی بہبود کے حق میں درپیش حالات سے نمٹنا کہیں دشوار تو کہیں بے حد دشوار ضرور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا ایک قابل لحاظ حصہ بشمول بر صغیر اس وقت معکوس ترقی کی رخ پر ہے۔ اس حصے میں سائنسی ترقیات سے منفی استفادہ کیا جارہا ہے۔ ایسا نہیں کہ اس میں سارا قصور یکطرفہ ہے لیکن ایک سے زیادہ نوعیت کے خاطیوں کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان میں بھی اچھے برے کی تمیز سے کام لیں اور کسی کم خطرے کو سرے سے کسی خطرے پر محمول ہی نہ کریں۔
اعتدال پسند مذہبی حلقوں میں مذاہب اور سائنس میں عدم مغائرت پراظہار خیال کرنے والے اکثر علم کو عقیدے کی پیداوار دکھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن شہادتوں کے نام پر وہ صرف ادعائیت سے کام لیتے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مذہب نے ہی یونانی فلسفے کے گرداب میں بھٹکنے والوں کو جدید سائنس کی بنیاد فراہم کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فرق بس اتنا ہے کہ مذاہب خالق سے بحث کرتے ہیں اور سائنس خلق سے۔ اس کے بعد یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ یہ ہمارے دَور کا اَلمیہ ہے کہ مذاہب اور سائنس دونوں کی قیادت ایک دُوسرے سے ناآشنا لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ اس لیے دونوں حلقے ایک دوسرے کے علم سے ناواقفیت کی وجہ سے مدِّمقابل کو اپنا مخالف تصورکرنے لگے ہیں۔ بالفرض ایسا ہے تو اس صورتحال کو بدلنے اور دونوں کو ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم بنانے کیلئے کیا کرنا چاہیے، اس پر کوئی بات کیوں نہیں کی جاتی اور یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ اگر دنیا بساط آخرت ہے تو اس مغائرت سے اِسے الٹنے کی کوشش تو نہ کی جائے۔
مذاہب اور سائنس پر یہ باتیں سمجھنے کیلئے ہمیں انسانی زندگی کے ارتقائی سفر کا انتہائی بے باکانہ جائزہ لینا ہو گا۔ دنیا میں صدیوں سے آباد قبیلے آپس میں ہمیشہ متصادم رہا کرتے تھے۔ زر، زن اور زمین کیلئے ہی بیشتر لڑائیاں لڑی گئیں اور انہیں نسل آئندہ کیلئے حق و باطل کی لڑائی کا نام دے دیا گیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جنگیں ہمیشہ انسانی زندگی کی ارتقاء کا حصہ رہی ہیں۔ پہلے قبیلے ہوا کرتے تھے۔ پھر ان میں سے کچھ اقوام بن کر ابھرے۔ مقصد وہی رہا ایک دوسرے کے مال و دولت پر قبضہ کرنا۔ یہ سلسلہ ہزاروں برس قبل اس وقت سے جاری ہے جب موجودہ جغرافیائی ناموں سے موسوم خطے اور سرحدوں میں بٹے ممالک موجود نہیں تھے۔ یعنی کہیں بھی کوئی قوم ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ نامی شناخت کے ساتھ اپنا وجود نہیں رکھتی تھی۔ امریکہ، چین اور جاپان تھے اور نہ یوروپ اور ایشیا کی کوئی پہچان تھی۔ رفتہ رفتہ انسانوں نے تہذیب و تمدن کے ساتھ ارتقائی منازل طے کیں۔ اس سفر میں بلاشبہ زبردست ظاہری تبدیلیاں سامنے آئیں۔ انسانی حقوق کی پاسداری اور اُن کی پُر زور وکالت اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ لیکن آج بھی ایک بڑا حلقہ بباطن حیوانی جذبات سے کامل نجات نہیں پا سکا ہے۔ انسانی ارتقاء کے احسن پہلوؤں کو انسانوں نے ہی ہجرت، علاقائی دریافت اور استعماریت کے عنوانات سے زبردست نقصان بھی پہنچایا ہے۔ بر صغیر سمیت دنیا کے کئی خطے اسی نقصان کی قیمت چکا رہے ہیں۔ باوجودیکہ اس سفر کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ارتقاء کا سفر انسانوں کو مہذب بنانے کا دائرہ تیزی سے وسیع کرتا جا رہا ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]