لیبیا کی خانہ جنگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ یہ معمہ دن بہ دن الجھتا جارہا ہے۔ روس اور امریکہ کی کشمکش براعظم افریقہ کے اس عظیم ملک پر صاف نظرآرہی ہے۔ روس اور چین کا الگ موقف اورامریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کا موقف بالکل ان کے متضاد ہے۔ وہاں پر اقوام متحدہ کی نگرانی والی انتظامی اکائی یا حکومت جس کو اقوام متحدہ سپورٹ مشن ان لیبیا (UNSMIL )UN Suport Mission in Libyaکہا جاتا ہے۔ 9مہینے تک بغیر کسی سربراہ کے رہا۔ اس عہدے پر ایک ہنگامی سفارت کار کی تقرری کا افریقی ممالک اور روس وچین نے خیر مقدم کیا ہے۔ مگر مغربی ممالک، سینگالی کے سفارت کار عبدالحئی بیتھلی کی تقرری سے خوش نہیں۔
2011میں ’عرب بہاریہ‘ کے بعد کرنل قذافی کے زوال اور موت سے اب تک 7 افراد کو یہ ذمہ داری دی جاچکی ہے ۔ بیتھلی آٹھویں سربراہ ہیں مگر اس تنازعہ کا اہم پہلو یہ ہے کہ لیبیا کے گروپوں اور بااثر لیڈروں کو بیتھلی کی تقرری سے کوئی خوشی نہیں ملی ہے۔ زیادہ تر لیبیائی لیڈر او ر قومی سربراہان ان کی تقرری کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اس سے سینگل کے سفارت کار کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ خانہ جنگی سیاسی خلفشار اس قدر شدید ہے کہ کوئی بھی اقوام متحدہ کانگراں یہاں ٹک نہیں پایا ہے۔ سفارت کار اقوام متحدہ کے نمائندے پریشانیوں سے تنگ آکر معذرت کرلیتے ہیں ۔ 2021میں سلواکیہ کے سفارت کار جین کوبیس Jan Kubis عہدہ چھوڑ کر چلے گئے تھے اور طویل عرصہ گزرنے کے بعد ستمبر 2021میں مقرر ہوا ہے۔ یو این ایس ایم آئی ایل کے سربراہ کا کام کتنا پرخطر اور سنگین نوعیت کا ہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے ۔2011کے بعد سے اقوام متحدہ جمہوریت نظام نافذکرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور حالات بالکل اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی مصالحت کا ر بھی وہاں آزادی کے ساتھ کام کرلے۔ کئی مرتبہ عام انتخابات کی تاریخیں طے ہوچکی ہیں اور کئی دفعہ رد ہوچکی ہیں۔
ماہرین کی رائے ہے کہ روس جس کی لیبیا میں زبردست موجوگی (فوجی)ہے نہیں چاہتا کہ مغرب کے ذریعہ تھوپا گیا کوئی نظام یا کٹھ پتلی حکمراں وہاں برسراقتدارآجائے۔ روس اور چین دونوں مل کر مغربی ممالک کی ناک میں دم کیے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ممالک افریقی ممالک کے اس موقف کے حامی تھے کہ کوئی باہر کا (براعظم افریقہ کے باہر کا)سربراہ یواین ایس آئی ایل کے سربراہ کے عہدے پر فائز کیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ یہ موقف افریقی یونین کے موقف کے مطابق ہے۔ افریقی ممالک خارجی طاقتوں کی مداخلت کے سخت مخالفت میں اور امریکہ برطانوی وفرانس وغیرہ کی تقریباً ہر ملک میں مداخلت کی وجہ سے سیاہ فام افریقیوں کی عزت نفس کے منافی بنا کر پیش کیا جارہاہے۔ اس موقف کو آگے بڑھانے میں روس اور چین پیش پیش ہیں۔
خیال رہے کہ لیبیا میں اس وقت دوا کائیاں (انتظامی)حکومت کررہی ہیں ۔ دوسری اکائی گورنمنٹ آف نیشنل یونیٹی (جی این یو)کی ہے، جس کی قیادت عبدالمجید کررہے ہیں۔ n
کیا ہے لیبیائی پولٹیکل ڈائیلاگ فورم (ایل پی ڈی ایف)
یہ ایک مذاکراتی اور مشاورتی فورم ہے، جو 2020میں شروع ہوا تھا۔ اس فورم کے ذریعہ ایک جمہوری اور قابل اعتماد نظام بنانے میں مدد مل جائے۔ یہ مذاکراتی فورم اقوام متحدہ کے سپورٹ مشن ان لیبیا کی سفارشات پربنایاگیاتھا۔ اس کمیٹی کا کام متحدہ انتظامی اتھارٹی کے عہدیداروں کو منتخب کرناتھا۔لیبیا میں9ماہ بعداقوام متحدہ کی نگرانی والے ادارے UNSMIکے سربراہ کی تقرری بہرکیف ایک خوش آئند عمل ہے۔ یہ تبدیلی فی الحال لیبیا کے امور پر کسی حد تک روس اور چین کی بالادستی ثابت کرنے والی ہے۔لیبیا کڑھاؤمیں اتنی آگ لگی ہوئی ہے کہ ہرادارے، شخصیت اور گروپ کے ہاتھ جلے ہوئے ہیں، ہر طبقہ ہرفریق پھونک پھونک کر قدم بڑھارہاہے۔
گورنمنٹ آف نیشنل یونٹی(لیبیا)
لیبیا میںداخلی، سیاسی اتھل پتھل کو ختم کرنے کے لیے اور انتخابی عمل کو پورا کرنے کے لیے ایک عبوری حکومت اقوام متحدہ کی نگرانی میں بنائی گئی تھی۔ عبدالحمیدالدبیبہ، محمدالمنیفی کوصدارتی کونسل کاچیئرمین بنایاگیاتھا۔ اس طرح محمد المنیفی کو صدارتی کونسل کا ممبربنایاگیاتھا۔ جرمنی کو اختیار دیاگیاتھا کہ وہ انتظام اور انصرام کے لیے ایوان نمائندگان کے تحت کابینی وزا کی تقرری کرسکتا تھا۔دراصل غیرمتوقع واقعات اور فریقوں کے تنازع میں شامل ہونے کی وجہ سے انتخابات ممکن نہ ہوسکا۔ مگر اس عبوری حکومت کے سامنے سب سے بڑاچیلنج یہ ہے کہ مشرقی لیبیا کو کنٹرول کرنے والے والے ایوان نمائندگان نے Unity Governmentکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پاس کرکے اس سرکار کو متنازع بنادیا۔ اس قرار داد سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ لیبیا علاقائی خطوط پرکتنامنقسم اور اس ملک کے جغرافیائی طورپر ٹوٹنے کا کتنابڑاخطرہ ہے۔
لیبیا کامعمہ—— کون کیا ہے؟
عبد الحمیدالدبیبہ لیبیا کے وزیراعظم ہیں اور عالمی سطح پرتسلیم شدہ حکومت ’گورنمنٹ آف نیشنل یونین‘ کے سربراہ ہیں۔ ترکی اور دیگر لیبیا کے طبقات کی حمایت یافتہ حکومت کو 15فروری 2021میں مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی تقری لیبیائی سیاسی فورم کے ذریعہ ہوئی تھی۔ اس انتظامی اکائی کی تقرری کا مقصد دسمبر2021میں عام انتخابات کرانا تھا مگر غیریقینی صورت حال کی وجہ سے انتخابات نہیں کرائے جاسکے۔عبدالحمید الدبیبۃ’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ، سرمایہ دارہیں، ان کے پاس سول انجینئرنگ کی ڈگری ہونے کا دعویٰ کیاجاتا ہے مگر ٹورنٹویونیورسٹی سے ان کو فارغ بتاتے ہیں۔ یونیورسٹی نے اس بات سے انکارکیا ہے کہ وہ اس کے کبھی طالب علم بھی رہے ہیں۔ لیبیا میں الیکشن لڑنے کے لیے ڈگری ہونا لازمی ہے۔ وہ کرنل قذافی کے معتمد رہے ہیں۔ کرنل قذافی نے ان کو لیبیا انویسمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ کمیٹی کا سربراہ بنایا تھا۔n