ڈاکٹر سید ظفر محمود
مرکزی حکومت نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ ملک کے تقریباً90فیصد حصہ میں تباہ کن کورونا وائرس کی قطعیت کی بھاری شرح(High rate of positivity) چل رہی ہے یعنی کہ 734 اضلاع میں سے640 میں یہ شرح 5فیصد کی قومی دہلیز کو پار کر چکی ہے، دیہی علاقوں میں زیادہ خطرہ لاحق ہے۔لکھیم پور کے ایم ایل اے لوکیندر پرتاپ سنگھ نے وزیراعلیٰ کو خط لکھا ہے کہ ان کے ضلع میں کوئی بھی گائوں کورونا سے آزاد نہیں ہے، مرکزی وزیر و بریلی کے ایم پی سنتوش گنگوار نے بھی مدلل تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس سیاق و سباق میں سپریم کورٹ نے طبی آکسیجن کے تخمینہ دستیابی اورتقسیم کے لیے قومی مہم جو دستہ یا ٹاسک فورس (National Task Force)قائم کیا ہے جو یہ بھی تجویز کرے گا کہ ضروری مقدار میں آکسیجن کس طرح مہیا کی جائے۔ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان نے اس ٹاسک فورس کے ہر رکن سے بذات خود گفتگو کی، ان میں مغربی بنگال کی ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر بھبودیش بسواس، میدانتا ہاسپیٹل گڑگائوں کے چیئرمین ڈاکٹر نریش تریہن، ممبئی کے بریچ کینڈی ہاسپیٹل کے ڈاکٹر ظریرفاروقی اڈواڈیا،کرسچن میڈیکل کالج ویلور کے چیئرمین ڈاکٹر جے وی پیٹر وغیرہ شامل ہیں۔ مرکزی حکومت کے اعلیٰ ترین افسر شاہ یعنی کیبنٹ سکریٹری اس کے کنوینر ہیں۔ ادھرعالمی شہرت والے بین الاقوامی سائنسی جرنل لینسٹ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ کووڈ-19 پر قابو پانے سے متعلق اپنی شروعاتی کامیابی کا ہمارے ملک عزیز ہندوستان نے بیجا صرفہ کردیاجبکہ کووڈ کی دوسری لہر و اس کی نئی شکلوں سے متعلق تنبیہ کی جارہی تھی اور بیماری پھیلانے والے زبردست وائرس کے باوجود انتخابی و مذہبی اجتماعات پر روک نہیں لگائی گئی۔ابھی تک 3فیصد سے کم شہریوں کو ویکسین لگ سکی ہے۔امریکہ میںانسٹیٹیوٹ برائے پیمائش و تخمینہ صحت(Institute for Heath Metrics and Evaluation)نے پیشین گوئی کی ہے کہ آئندہ اگست کے اوائل تک کووڈ سے ہندوستان میں خدا نخواستہ دس لاکھ اموات ہوچکی ہوں گی۔ ہمیں اس بیماری سے متعلق اپنے اقدامات کی ایسی تعمیر نو کرنی ہو گی جس کے قلب میں سائنس ہو۔اس رپورٹ کا کچھ اثر دکھائی پڑنے لگا ہے، صوبائی حکومتیں لاک ڈائون کر رہی ہیں۔
کووڈ سے نجات شدہ وہ مریض جنھیں گردے یا دل کی بیماری ہو یا کینسر ہو، انھیں کووڈ کی وجہ سے کالے پھپھوندکی بیماری بھی دیکھنے میں آئی ہے، اس کا سائنسی نام ہے میوکور مائیکوسس،اس کا فوراً اینٹی فنگل علاج شروع کردیا جانا چاہیے۔مع احمدآبا دصوبہ گجرات کے چار اضلاع میں اس کے 300 مریضوں کی خبر مل چکی ہے، ممبئی و دہلی کے ڈاکٹروں نے بھی اس مرض کی تصدیق کی ہے۔ یہ تفصیل دے کر قارئین کو ڈرانا مقصد نہیں ہے بلکہ اس سے سبق لے کر ضروری احتیاطی کارروائی کرلینے کی تلقین کرنا ہے۔
پونہ کے سیرم انسٹیٹیوٹ کے جواں سال چیئرمین آدار پونا والا نے غریبوں کو ویکسین لگانے کی عالمی مہم میں نمایاں حصہ لینے کا وعدہ کرتے ہوئے متاثر ممالک کے ساتھ کروڑوں ڈالر کے سودے کیے ہیں وہ بکھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں کیونکہ اب ملک میں ہی کووڈ کی تیز بڑی لہر آگئی ہے اور ان کی سب ویکسین ہمیں ہی چاہیے۔ساتھ ہی پوناوالانے اندرون ملک سپلائی کی جانے والی ویکسین کی قیمت میں اضافہ کر دیاہے اور وہ جناب خود لندن میں ہیں۔ انھوں نے برطانوی میڈیا کو بتایا ہے کہ وطن میں انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں اور واپسی پر مسلح گارڈوں کے ساتھ ہی ان کی نقل و حرکت ممکن ہوگی۔ ممبئی ہائی کورٹ میں ایک عرضداشت کے ذریعہ پوناوالا کے لیے مزید حفاظتی بندوبست کیے جانے کا مطالبہ کیا گیاہے۔ہمارے ملک کی پالیسی کی تشکیل پر مرکوز آبزرور ریسرچ فائونڈیشن کے فیلو منوج جوشی نے کہا ہے کہ ویکسین بنانے کی ہندوستان کی استطاعت کم ہے، ہم ایک غریب ملک ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر کچھ عاجزی و انکساری پیدا کریں۔ گزشتہ برس پوناوالا نے عالمی ویکسین کمپنی ایسٹرا زینیکا کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ وہ پونہ میں ’آکسفورڈایسٹرازینیکا‘ ویکسین کی ایک ارب خوراک تیار کریں گے، جسے ہندوستان میں کووی شیلڈ کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے انھیں بل گیٹس فائونڈیشن سے 30کروڑ ڈالر کی گرانٹ ملی، تاکہ وہ غریب ممالک کو ویکسین کے ہدیہ کی دیکھ ریکھ کرنے والی تنظیم گاوی الائنس(Gavi Alliance)کووی شیلڈ کی 20 کروڑ خوراک سپلائی کردیں۔امید ہے کہ حکومت ہند کے ذریعہ 20 کروڑ ڈالر کی گرانٹ کی مدد سے پوناوالا جون تک اپنا ہدف پورا کر پائیں۔ادھر وقت سے مکمل سپلائی نہ کرنے پر پونا والا کوایسٹرا زینیکا سے قانونی نوٹس مل چکا ہے۔نیپال کو20 لاکھ خوراک دینے کا معاہدہ ہوا تھا جس کے لیے 80 فیصد ایڈوانس رقم بھی پونا والا کو مل گئی تھی لیکن صرف 10 لاکھ خوراک ہی سپلائی ہوسکیں۔ پوناوالانے نیپال کی باقی رقم واپس کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن نیپال نے اس کو لینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ ہندوستان کی وبا ان کے دروازہ پر بھی دستک دے رہی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ پوناوالا لندن میں ٹیسٹنگ و بکری کے لیے دفتر کھول رہے ہیں جس میں 33کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی۔ صدر بائڈن سے ٹوئٹ کے ذریعہ پوناوالا نے اپیل کی تھی کہ ویکسین بنانے میں کام آنے والے خام مال پر پابندی ہٹا دیں۔ہندوستان کے مشیر برائے قومی تحفظ اجیت ڈوبھال نے امریکہ میں اپنے ہم منصب سے گفتگو کی جس کے نتیجہ میں پوناوالا کے ذریعہ حوالہ دی جانے والی پابندی ہٹ گئی۔دہلی و تلنگانہ کے وزرائے اعلیٰ نے کہا ہے کہ ویکسین کا فارمولہ دیگر کمپنیوں کو بھی دیا جائے تا کہ زیادہ مقدار میں ویکسین جلد تیار ہوسکے۔
حکومت ہند کی تنظیم برائے دفاعی تحقیق و ترقی (Defence Research and Research Organization: DRDO) نے حیدرآباد کی ڈاکٹر ریڈی لیباریٹری کے اشتراک سے کورونا مریضوں کے علاج کے لیے دوا تیار کی ہے جس کے عوامی استعمال کو ڈرگس کنٹرولر نے منظوری دے دی ہے۔ اس دواکا نام ہے ٹو ڈی جی(2-Deoxy-D-Glucose: 2-DG)جو ایک چھوٹے پیکٹ میں پائوڈر کی شکل میں آتی ہے، اسے پانی میں گھول کر پی لینا ہے۔اس دوا کا ٹسٹ ملک کے اسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لیے کامیابی سے کیا جا چکا ہے۔دہلی کے گنگارام ہاسپیٹل کے ڈاکٹر امبریش ساتوک کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 صرف پھیپھڑوں کی بیماری نہیں ہے بلکہ اس سے خاص کر ذیابیطس (Diabetes) والے مریضوں میںخون منجمد ہوسکتا ہے اور اس کی گردش میں رکاوٹ بھی آ سکتی ہے۔ کووڈ کے جو مریض اسپتالوں میں بھرتی ہوتے رہے ہیں، ان میں سے 14-28 فیصد میں یہ حالت پیدا ہوسکتی ہے، اسے کہتے ہیں تھرومبوسس (Thrombosis)۔ در اصل کووڈ مریض کے پھیپھڑے کی دیوار میں یہ وائرس چپک جاتا ہے، اس کے پڑوس میں ہی خون کی شریانیوں یا باریک رگوں(Blood vessels) کی تھیلیاں موجود ہوتی ہیں جن پر وائرس حملہ کرکے ان کی اندرونی لائننگ کو خراب کرتا ہے جس کی وجہ سے وہاں خون منجمد ہونے لگتا ہے۔ کووڈ سے نجات شدہ وہ مریض جنھیں گردے یا دل کی بیماری ہو یا کینسر ہو، انھیں کووڈ کی وجہ سے کالے پھپھوند(Black Fungus)کی بیماری بھی دیکھنے میں آئی ہے، اس کا سائنسی نام ہے میوکور مائیکوسس (Mucormycoosis)،اس کا فوراً اینٹی فنگل علاج شروع کردیا جانا چاہیے۔مع احمدآبا دصوبہ گجرات کے چار اضلاع میں اس کے 300 مریضوں کی خبر مل چکی ہے، ممبئی و دہلی کے ڈاکٹروں نے بھی اس مرض کی تصدیق کی ہے۔ یہ تفصیل دے کر قارئین کو ڈرانا مقصد نہیں ہے بلکہ اس سے سبق لے کر ضروری احتیاطی کارروائی کرلینے کی تلقین کرنا ہے۔ جو صاحب آج وینٹی لیٹر پر ہیں انہوں نے آج سے چند ہفتہ قبل کوئی ایسا کام ضرور کیا ہو گا جو کووڈ گائڈ لائنس کے مطابق انھیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لہٰذا اب ایسا نہ کیا جائے تا کہ آج سے چند ہفتوں بعد وینٹی لیٹر پر جانے سے بچا جا سکے۔
[email protected]