اومیش چترویدی
اٹھارہویں لوک سبھا انتخابات میں بھلے ہی بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہو، لیکن بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ اس کے لیے سب سے بڑا جھٹکا ہی سمجھا جائے گا۔ 2014 میں جب پارٹی 283 سیٹوں کی اکثریت حاصل کرکے اپنے بل بوتے پر اقتدار میں آئی تھی، تب کہا گیا تھا کہ ملک کے ووٹر بیدار ہوگئے ہیں۔ انہیں غیرمستحکم حکومتیں منظور نہیں ہیں۔2019کے عام انتخابات نے اس تصور کو آگے بڑھایا اور برانڈ مودی کا نام قائم ہوگیا۔ لیکن2024میں حالات بدلے ہوئے ہیں۔ یہ سطریں لکھتے وقت تک بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے طور پر250کا ہندسہ بھی عبور کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھیں گے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے کہاں غلط ہو گئی؟
بی جے پی کو سب سے زیادہ امیدجس طرح اترپردیش سے رہی ہے، وہاں پارٹی کو سب سے زیادہ سیٹوں کا نقصان ہوا ہے۔ بہار میں بھی وہ سب سے بڑی پارٹی ہوا کرتی تھی، لیکن اس بار اسے جنتا دل یو شکست دیتا نظر آرہا ہے۔ وہ آگے نگل گیا ہے۔ مغربی بنگال میں اسے بڑی جیت کی امید تھی، تقریباً تمام ایگزٹ پولس ایسی ہی امید کا اظہار کر رہے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس اس کی نشستیں بھی کم ہوگئیں۔ راجستھان میں بھی پارٹی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپارہی ہے۔ ریاست کی آدھی سیٹوں پر ہی جیت حاصل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پارٹی کو ہریانہ میں بھی جھٹکا لگا ہے۔ لیکن پرجول ریونّاکیس کے بعد جس کرناٹک سے اسے سب سے بڑے جھٹکے کی امیدتھی، وہاں اسے اتنا نقصان نہیں پہنچا ہے۔ بھلے ہی بی جے پی تمل ناڈو سے بہت امیدیں لگائے بیٹھی تھی، لیکن وہاں بھی اسے 2014 کی طرح صرف ایک سیٹ پر ہی جیت حاصل ہوتی نظر آرہی ہے۔
بی جے پی کو مہاراشٹر میں بھی بڑا نقصان ہوا ہے۔ گزشتہ بار پارٹی کے یہاں سے22ممبران پارلیمنٹ جیتے تھے۔ لیکن اس بار اس کی نشستیں آدھی رہ گئی ہیں۔ این سی پی سے الگ ہو کر بی جے پی کا ساتھ دینے والے اجیت پوار کو صرف ایک ہی سیٹ ملتی نظر آرہی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کو اتر پردیش، راجستھان، مغربی بنگال، بہار اور ہریانہ سے بڑا دھچکا لگا ہے۔ تاہم پارٹی کو سب سے زیادہ حمایت مدھیہ پردیش سے ملی ہے۔ گجرات میں بھی اس کا گڑھ بچا ہوا ہے۔ آسام، اروناچل پردیش، اتراکھنڈ اور ہماچل میں بھی اس کا جادو چل رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر بی جے پی اتر پردیش میں کیوں کمزور ہوگئی؟ فوری طور پر دیکھیں تو سب سے بڑی وجہ یہاں کے نوجوانوں کا غصہ سمجھا جارہا ہے۔ ریاست میں بار بار امتحانی پرچے لیک ہوتے رہے۔ اس سے نوجوانوں میں غصہ تھا۔ اس کی وجہ سے ان کی ملازمتیں مسلسل دور جاتی رہیں۔اگنی ویر اسکیم کے تعلق سے اپوزیشن پارٹیوں ،خاص طور پر کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور ایس پی لیڈر اکھلیش یادو نے جس طرح ایشو بنایا، اس نے نوجوانوں میں بی جے پی کے خلاف غصہ بھردیا۔ رام مندر کی تعمیر کے بعد جس طرح سے پورا ملک ’رام مے‘ ہوگیا تھا، اس سے بی جے پی کو امید تھی کہ پارٹی کو رام بھکتوں کا کافی ساتھ ملے گا۔ لیکن اتر پردیش میں ہی رام کی لہر نہیں چل پائی۔ اترپردیش میں بی جے پی کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے 1999 کے عام انتخابات یاد آرہے ہیں۔ اس وقت اتراکھنڈ بھی اتر پردیش کا حصہ تھا، اس لحاظ سے اتر پردیش میں لوک سبھا کی85سیٹیں تھیں۔1998کے عام انتخابات میں بی جے پی ریاست سے52سیٹیں جیتی تھی۔ لیکن بعد میں کلیان سنگھ نے باغی رویہ اختیار کیا اور اگلے ہی سال ہوئے عام انتخابات میں بی جے پی کی نشستوں میں 23سیٹیں کم ہو گئیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اس بار بی جے پی کی اتر پردیش میں ہوتی نظر آرہی ہے۔ پارٹی اپنا تجزیہ تو کرے گی، لیکن بڑے پیمانے پر سمجھا جارہا ہے کہ بی جے پی کو ریاست میں سب سے زیادہ نقصان نوجوانوں کے غصے، مقامی سطح پر بدعنوانی کو روکنے میں ریاستی حکومت کی نااہلی اور غلط امیدوار دینے کی وجہ سے ہوا۔ مثال کے طور پر بلیا سے نیرج شیکھر کی امیدواری پر پارٹی کے ہی لوگوں کو سب سے زیادہ اعتراض تھا۔ خود وزیر اعظم مودی بھی پوسٹل بیلٹ میں چھ ہزار سے زیادہ ووٹوں سے پیچھے رہے، جس کا مطلب صاف ہے کہ بی جے پی کے تعلق سے ریاست میں ایک قسم کا غصہ تھا، جس کا اندازہ لگانے میں پارٹی ناکام رہی۔
بہار کے بارے میں یہ مانا جا رہا تھا کہ نتیش کو نقصان ہوگا، لیکن اس کے برعکس نتیش اپنی طاقت کو بچائے رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ریاست میں اب جنتا دل(یو) سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی ہے۔ تو کیا یہ تسلیم کرلیا جائے کہ 2020کے اسمبلی انتخابات کو کمزور کرنے کی مبینہ کوششوں کو پلٹ دیا ہے؟ پارٹی کو مہاراشٹر میں شاید اجیت پوار کو ساتھ لانا اس کے ووٹروں کو پسند نہیں آیا۔ بی جے پی ہی انہیں ریاست کے آبپاشی گھوٹالے کا ملزم مانتی رہی اور انہیں ہی نائب وزیر اعلیٰ بنا کر لے آئی۔ جب کوئی اپوزیشن کا ممبر پارٹی یا اتحاد میں لایا جاتا ہے تو سب سے زیادہ زمینی سطح کے کارکنان کو پریشانی ہوتی ہے۔ وہ پس و پیش میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ کل تک وہ اپنی پارٹی لائن کی بنیاد پر جس کی مخالفت کرتے رہے، اس کی اب کیسے حمایت کریں گے۔ مہاراشٹر کے کارکن اسی لیے مایوس رہے۔ جس کا اثر انتخابی نتائج پر نظر آرہا ہے۔
ہریانہ کے غالب جاٹ رائے دہندگان کو سب سے زیادہ غصہ اگنی ویر اور حکمرانی میں اس کی کم ہوتی شرکت داری کے تعلق سے رہا۔ اس کی وجہ سے یہاں کے ووٹروں کی اکثریت پارٹی سے ناراض ہوگئی اور نتیجہ سامنے ہے۔ راجستھان میں بی جے پی کے کارکن ہی وزیر اعلیٰ بھجن لال کو قبول نہیں کرپارہے ہیں۔ پارٹی کی سینئر لیڈر وسندھرا کو سائیڈ لائن کیا جانا بھی بی جے پی کی اندرونی سیاست پر اثرانداز ہوا۔ اسی کا اثر ہے کہ پارٹی ریاست میں توقع کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائی۔ مغربی بنگال میں ممتا اپنے قلعہ کو بچانے میں کامیاب رہیں۔ تاہم اوڈیشہ میں پارٹی کی زبردست کارکردگی رہی۔ جہاں ریاستی حکومت کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کی زیادہ تر سیٹوں پر وہ قابض ہوچکی ہیں۔
اس الیکشن نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اتحادی سیاست ختم نہیں ہوئی۔ دو مدت کار میں اپنے طور پر اکثریت حاصل کرنے کے بعد مودی-شاہ کی جوڑی نے مسلسل اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد جاری رکھا۔ لیکن اب مخلوط حکومت ہوگی، اس لیے اب اس جوڑی کو پہلے کی دو مدت کارکی طرح کام کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوا تھا کہ جس تنظیم کی وجہ سے بی جے پی کی پہچان تھی، وہ آہستہ آہستہ سائیڈلائن ہوتی چلی گئی۔ لیکن اکثریت نہ ملنے کی صورت میں اب تنظیم کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ اس الیکشن کا پیغام یہ بھی ہے کہ تنظیم کو زمینی سطح کے لوگوں پر اعتماد کرنا ہوگا۔ بی جے پی کے لیے راحت کی بات یہ ہے کہ تیسری بار وہ اقتدار میں آئے گی۔ اس نے ان ریاستوں میں بھی اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جہاں اس کا وجود نہیں تھا۔