مغربی ایشیا کے ایک شاندارملک لبنان میں حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ مالی بدحالی، سیاسی عدم استحکام اورسیکورٹی کی غیریقینی صورت حال پہلے سے کئی فرقوں اور نسلی خطوط پر بنٹے ہوئے لوگوں میں انتشار پیدا کرنے کے سامان مہیا کرارہی ہیں۔ کئی ملک اس کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان میں امریکہ، فرانس، سعودی عرب، قطر اور مصر شامل ہیں۔ پچھلے دنوں انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ نے کرپشن سے پیدا ہونے والے بحران پر فکرمندی کا اظہار کیا تھا۔ یہ بحران اس قدر گہرا اور ہر سطح پر ہے کہ سینٹرل بینک کے اعلیٰ ترین عہدیدار تک کرپشن کے معاملات میں ملوث ہیں اور کئی مرتبہ ان کو عالمی اداروں کے سامنے قانون کا سامنا کرنے کے لئے کہا جاچکا ہے۔
پچھلے دنوں مذکورہ بالا پانچوں ممالک نے بحران کو ختم کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل پیش کرنے کی کوشش کی تھی، مگر لبنان کی کچھ سیاسی شخصیات اور پریشر گروپ اپنے اپنے فرقے اورکچھ حد تک ذاتی مفاد کے لئے ان ممالک کے ذریعہ تجویز کردہ مشوروں پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لبنان میں سیاست، فوجی امور ، داخلی سیاست اور بین الاقوامی روابط اس قدر آپس میں الجھے ہوئے ہیں کہ فی الحال ان حالات سے نمٹنے کا کوئی امکان نظرنہیں آرہا۔ مختلف سیاسی گروپوں اور ملیشیا گروپ اپنے غیرملکی سرپرستوں کے دست نگر ہے۔ کچھ ایران، شام اور کچھ سعودی عرب، قطر اور کچھ گروپ فرانس اورامریکہ کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔صدر کے عہدے پر انتخاب نہیں ہوپایا ہے اور مورونائب عیسائیوں کے لئے محفوظ اس عہدے کو پر نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہ عہدے مائیکل آعون کی مدت پوری ہونے کے بعد اکتوبر 2022 سے خالی پڑا ہے۔ عہدوں پر تقرری کی کھینچ تان اس قدر شدید ہے کہ پورا نظام حکومت منہدم ہوگیا ہے۔ صدر کے عہدے پر کئی فریق جہاد آذرکی حمایت کر رہے ہیں۔ وہ مڈل ایسٹ میں آئی ایم او کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک زمانے میں وہ لبنان کے وزیر خزانہ رہے ہیں۔ حزب اللہ اور ملیشیا ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس تعطل کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ امریکہ اور فرانس اس بابت سخت وارننگ دے چکے ہیں کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ کسی دیگر صدر کی موجودگی میں آئی ایم ایف اور مغربی ممالک کوئی مالی تعاون اس کے ساتھ نہیں کریںگے۔
لبنان میں صدرکا عہدہ 31؍اکتوبر 2022سے خالی ہے۔ ایک کارگزار انتظامیہ پورا نظام چلا رہی ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے عہدے پر 14؍مئی 2022سے ایک کارگزار وزیراعظم نجیب مکاتی کام کر رہے ہیں۔اس نظام میں صدر کو پارلیمنٹ چھ سال کے لئے منتخب کرتی ہے۔ وزیراعظم اور نائب وزیراعظم کو صدر نامزد کرتے ہیں اورپارلیمنٹ کی رائے لیتے ہیں۔ صدر مورونائٹ اور وزیراعظم سنی اور اسپیکر شیعہ ہوتا ہے۔ یہ فارمولہ 1932 کی مردم شماری پر مبنی ہے۔ حتیٰ کہ مورونائٹ اکثریت میں ہیں۔
اگرچہ یہ صورت حال نئی نہیں ہے کیونکہ لبنان میں 1980کی دہائی میں خانہ جنگی کا دور شروع ہوا تھا جس پر عالمی برادری نے مداخلت کرکے ایک طائف سمجھوتے کے ذریعہ حل کرانے کی کوشش کی تھی مگر اب صورت حال اسی طرف جاری ہیں ۔ اندیشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملک پھر خانہ جنگی کی طرف گامزن ہے۔ امریکہ نے آگاہ کیا ہے کہ کچھ عناصر اور افسران انتخاباتی عمل میں مانع ہورہے ہیں اوراگریہی صورت حال برقرار رہی تو ملک ایک غیرمعمولی بحران کے غار میں گرجائے گا۔
خیال رہے اس وقت لبنان میں کوئی بھی مستقل حکومت نہیں ہے اور نہ ہی کسی بااثر آئینی عہدے پر کوئی شخص مستقل طورپر فائز ہے۔ وزیراعظم اور صدر کے حساس ترین عہدوں پر عارضی اور کارگزار صدور اور وزرائے اعظم گزشتہ تقریباً 15-16ماہ سے فائز ہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبران کے درمیان اختلافات کی وجہ سے وہاں پر کوئی مستقل حکومت نہیں بن پارہی ہے۔ وزیراعظم اور ممبران پارلیمنٹ کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہے اس وجہ سے مختلف طبقات کے ممبران پارلیمنٹ الگ الگ شخصیات پر مصر رہتے ہیں۔ کیونکہ صدر کے عہدے پر عیسائی، وزیراعظم کے عہدے پر شیعہ مسلمان اور وزیراعظم کے عہدے پر سنی مسلمان فائز رہتا ہے۔ جبکہ فوج کے اعلیٰ ترین عہدے پر عیسائی سربراہ کے فارمولے پر اتفاق رائے کیا گیا تھا۔ یہ فارمولہ طائف میں ہونے والی امن کانفرنس میں طے پایا تھا۔ مگر آج کے حالات بالکل دوسرے ہیں۔ لبنان اوراسرائیل اگرچہ حالت جنگ میں ہیں اور اسرائیل نے لبنان کے بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود پچھلے دنوں فرانس کی مصالحت کے ساتھ کچھ سمندری علاقوںمیں اسرائیل اور لبنان قدرتی گیس نکالنے پر متفق ہوگئے تھے۔ یہ ٹھیکہ دونوں فریقوں کے سمجھوتے کے بعد فرانس کی ایک کمپنی کودیا گیا تھا۔ کئی حلقوںمیں اس سمجھوتے کو لے کر نااتفاقی پائی جاتی ہے اور اس کو اسرائیل کے ساتھ کسی بھی معاہدے کی مخالفت کئی گروپ کر رہے ہیں۔ یہ گروپ خاص طورپر شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے لئے اہم اورحساس مسئلہ ہے۔ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے لبنان میں انتخابات ہوگئے تھے، مگر غیرمستقل اورغیر مستحکم سیاسی صورت حال کی وجہ سے ابھی بھی کوئی بھی انتظامیہ کام نہیں کرپارہی ہے۔ بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ افواج کو دینے کے لئے تنخواہیں نہیں ہیں اور ان کا گزربسر قطر کی امداد پر ہورہا ہے۔ یہ صورت حال اس قدر غیرمعمولی ہے کہ کوئی بھی فریق اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگرچہ مغربی ایشیا میں پچھلے دنوں فرقہ وارانہ اور جیوپولیٹیکل بحران کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر لبنان تک اس کے اثرات منتقل نہیں ہوئے ہیں کیونکہ امریکہ اور فرانس اپنے اپنے طریقے سے اس خطے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل بھی اس صورت حال کا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور سرحدوںکو تبدیل کرنے کی کئی دفعہ کوشش کرچکا ہے، مگر لبنان اور اسرائیل سے لگے ہوئے سرحد پر جو گائوںآباد ہیں ان کے عوام اسرائیل کے تئیں اس قدر سخت اور شدت پسندانہ موقف رکھتے ہیں کہ وہ کسی طریقے سے اسرائیل کو اپنا عمل دخل بڑھانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ ان علاقوںمیں اقوام متحدہ کی نگرانی والی ایک امن فورس بھی تعینات ہے۔ مگر اس کے باوجود اسرائیل اپنے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آرہا ہے۔ اسرائیل نے اپنا عمل دخل بڑھانے کے لئے کئی کوششیں کی ہیں اورنئی فوجی چوکیاں بنانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس کے خلاف برسرپیکار مختلف ملیشیائوں نے اس کی مزاحمت کی ہے۔ کئی رضاکار اور مقامی ، دیہی لوگوںنے چوکیاں بنانے کی مخالفت کی ہے اور وہ اسرائیل کی فوج کے ٹینکوںاور بلڈوزروںکے سامنے لیٹ کر اسرائیل کو باز آنے کی کوشش کرچکے ہیں۔
لبنان: اقتصادی اور سیاسی بحران برقرار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS