لبنان کا شمار ایک زمانہ میں ایشیا کے خوشحال اور ماڈرن ملک کے طورپر ہوتا تھا۔ لبنان میں شیعہ سنی، عیسائی اور دروز طبقات کے لوگ باہمی افہام وتفہیم اور میل ملاپ کے ساتھ رہتے تھے۔ مگر بعدمیں سماج کے اس تنوع نے اس خوشحال ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا۔ غیرملکی مداخلت اسرائیل کی جارحیت اور آس پڑوس کے دیگر ممالک کی لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نے ایسے مقام پر لاکھڑا کیا جہاں ہر طرف تباہی، لاشوںکے ڈھیر اور نفسانفسی کا عالم تھا۔ بعدمیں اسرائیل کے عزائم کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے اندرونی معاملات اور بھی خراب ہوتے گئے۔ ارض فلسطین سے نکالے گئے ہزاروں مہاجرین لبنان پہنچے اور تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا جب اسرائیل نے فلسطینی مہاجرین کی عارضی بستیوں پر ایسی شرمناک بمباری کی جس میں سیکڑوں فلسطینی عورتیںاور بچے جاں بحق ہوئے۔ آج بھی جب لبنان کی تاریخ کا ذکر ہوتا ہے تو اسرائیل اور اس کے حلیفوںکی فلسطینیوں کے کیمپوں، صابرہ اور شاطیلہ کی تباہی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ملک آج تک اسی خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت کی مار جھیل رہاہے۔ آج لبنان نہ صرف یہ کہ مالی بحران کا شکار ہے بلکہ آس پڑوس کے ممالک اس کے بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کئی حلقے اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس خوشحال ملک کو ایک بار پھر اپنے قدموں پہ کھڑا کیا جاسکے اور اس کی راجدھانی بیروت کی پرانی شان وشوکت اور جاہ وحشمت واپس لوٹ سکے۔ اس معاملے میں اگرچہ سعودی عرب زیادہ سرگرم رول ادا نہیں کر رہا ہے مگر ایک زمانہ تھا کہ لبنان میں سنی سیاسی طاقتوں کو وہ مدد فراہم کر رہا تھا۔ رفیق حریری اور ان کے خاندان کو سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی جبکہ شیعہ ملیشیا حزب اللہ کوایران مدد فراہم کر رہا تھا۔ میشال نعیم آعون کی قیادت والی لبنانی فوج مختلف بحرانوں کی شکار تھی اور کئی ممالک وہاں کے سرکاری فوج کو مدد فراہم کرا رہے تھے۔ کئی ملک بطورخاص قطر لبنان کی فوج کی تنخواہیں اور راشن فراہم کرا رہا تھا۔ ایک زمانہ میں قطر کا کھلے عام اظہار تشکر کیا گیاتھا ۔ بہرکیف آج بھی حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ قطر ماضی کی طرح اب بھی لبنان پر گہرے اثرات رکھتا ہے۔ میشال نعیم آعون جوحال ہی میں چند ماہ قبل صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں ان کو قطر کی طرف سے ہر قسم کی مدد اورمراعات مل رہی تھیں۔ آج کے بدلے ہوئے حالات میں لبنان، عراق اور شام جیسے ممالک میں قیام امن کے لئے کئی علاقائی طاقتیں اورعالمی سپر پاورس کوشش کر رہی ہیں اس سلسلے میں فرانس پیش پیش ہے۔ فرانس کی نگرانی اور تال میل کے ساتھ کئی ممالک چاہتے ہیں کہ لبنان میں تمام طبقات حسب سابق امن اور خوشحالی کے ساتھ رہیں اور وہاں پر جانی ومالی نقصان کو کم کیا جائے۔
آئندہ چند دنوںمیں ماہ رواں کے دوران فرانس کی راجدھانی پیرس میں منعقد کانفرنس میں امریکہ علاقہ کے ایک اہم ملک مصر ، سعودی عرب اور قطر نے شرکت کی۔ خیال رہے کہ لبنان میں صدر آعون کی سبکدوشی کے بعد ابھی تک کسی نام پر اتفاق نہیں ہوپایا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب لبنان کے سب سے طاقتور عہدیدار صدر کے نام پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے نہیں بن پایا ہے۔ لبنان میں پارلیمنٹ ہی صدر کے عہدے پر اتفاق سے تقرری کرتی ہے مگر پارلیمنٹ میں کسی ایک پارٹی کی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے صدر کا عہدہ خالی پڑا ہے اور ایک عارضی صدر کام کر رہاہے۔ یہ صورت حال روزمرہ کی سیاست اور انتظامی امور پر اثرانداز ہورہی ہے۔ صدر ہی وہ عہدیدار ہے جو وزیراعظم اور اس کی کابینہ کو منظوری دیتا ہے، اس کی منظوری کے بغیر کابینہ کی تشکیل نہیں ہوپاتی۔ اس طرح لبنان ایک ایسے اقتصادی، سیاسی اور دفاعی بحرانوںکی زد میں آگیا ہے جن سے نکلنا فی الحال ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ جب تک صدر کے عہدے پر تقرری نہیں ہوتی وزیراعظم اوراس کے کابینہ کی تقرری ممکن نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیاں ہی صدر چنتی ہیں اور صدر ہی کابینی رفقا کو منتخب کرتا ہے۔ سابق صدر آعون اپنے داماد کو صدر مملکت بنانا چاہتے تھے جبکہ ان کا خود کا بھتیجہ بھی بہتر پوزیشن اور سیاسی طورپر مستحکم عہدے کا خواہشمند ہے۔ آعون خاندان اوران کے فرقے عیسائی سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے بھی بحران کو طویل کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں غیرملکی طاقتیں کس طرح لبنان میں امن قائم کرپاتی ہیں یہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ پچھلے دنوں لبنان کے سبکدوش صدر آعون نے پڑوسی ملک اسرائیل کے ساتھ غیرسرکاری طورپر ایک سمجھوتہ کرکے ملک کو درپیش بحرانوں میں سے ایک توانائی بحران کو قابو میں کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس میں لبنان کی مدد فرانس نے بھی کی تھی اور دونوں ملک فرانس کے تعاون سے بحرم روم کے سمندروں میں قدرتی گیس نکالنے میں معاون ہوئے تھے۔ فرانس کی کمپنی نے اس کا ٹھیکہ لیا تھا جس میں کچھ شیئرہولڈر قطر بھی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ قطر کے تعاون کے ساتھ سنی اور عیسائی پارٹیاں اس بحران کو حل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حزب اللہ کو اس سیاسی فارمولے میں کس حد تک شامل کیا جائے۔ حزب اللہ لبنان میں ایک بڑی سیاسی اور فوجی طاقت ہے اور اسرائیل کو قابو میں کرنے میں حزب اللہ کا اہم رول ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کئی دہائی قبل حزب اللہ کی طاقت کی وجہ سے اسرائیلی فوجیں وہاں کی خوبصورت وادی وادی شیبا سے انخلا کے لئے مجبور ہوئی تھیں۔ قطر نہ صرف یہ حزب اللہ اوراس کے حلیفوںکے ساتھ بہتر مراسم رکھتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ دیگر سیاسی حلقوں میں بھی اس کا اثرورسوخ ہے۔ مالی امداد کی وجہ سے قطر کی لبنان میں کافی اہمیت ہے۔ چھوٹا سا قدرتی دولت سے مالامال ملک قطر لبنان کی ساحل پر گیس کی تلاش میں لبنان کی مدد کر رہا ہے اس سے قبل ایک روسی کمپنی یہاں سے گیس نکالنے میں تعاون کر رہی تھی مگر اب اس کی جگہ قطر کی کمپنی گیس نکال رہی ہے۔ قطر کے ایران کے ساتھ بھی اچھے مراسم ہیں۔ قطر تہران اور خلیج کی ممالک کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر قطر اس قدر اہم رول ادا کر رہاہے توایران کو بھی اس بات پر اعتراض نہیں ہوگا کہ اس کو لبنان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے میں نظرانداز کردیا جائے اور کی ایک بڑی شیعہ آبادی حاشیہ پر چلی جائے۔نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر محمد بازی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور خلیج کے دیگر بااثرممالک قطر کے معاملات میں زیادہ عمل دخل نہیں کر رہے ہیں اور قطر ایک اہم رول ادا کر کے حالات کو کسی حد تک قابومیں لا سکتاہے۔ خیال رہے کہ قطر 2006میں حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ کے دوران اہم رول ادا کرچکا ہے۔ اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملہ کرکے بڑی تعداد میں جانی مالی نقصان کیا تھا اس وقت قطر نے لبنان میں تعمیرنو میں کافی اہم رول ادا کیا اور بعدمیں قطر اور لبنان کے درمیان ایک ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے جس کو دوحہ سمجھوتہ کہاجاتا ہے۔ اس کے بعد سے لبنان میں امن ہے اور حالات خانہ جنگی والے نہیں ہیں مگرموجودہ سیاسی تعطل قطر کی مداخلت اورمصالحت سے کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پیرس کانفرنس کس حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوپائے گی۔