آر وی شاردا پرساد
یہ بات آج بھی سبھی کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ مہاتما گاندھی کے قتل کو روکا جاسکتا تھا اگر ممبئی، پونے، گوالیار اور احمد نگر سے دستیاب خفیہ اطلاعات کی پوری تندہی سے چھان بین کی جاتی۔ بہت زیادہ سیاسی تحفظات کا دخل تھاکہ ہندو مہاسبھا کے کردار کی باریک بینی سے چھان بین نہیں کی گئی۔نہ ہی قتل کے بعد نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی ہدایات کے تحت تحقیقات کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ گوالیار میں ونائک دامودر ساورکر اورہندو مہاسبھا کے قائدین کو رہا کر دیا جائے۔ اطالوی ریوالور جسے ناتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کرنے کے لئے استعمال کیا تھا، وہ گوالیار کے مہاراجہ کے ملٹری سکریٹری کا تھا۔ناتھورام گوڈسے اور نارائن آپٹے کو ریوالور بھیجنے والے 5لوگوں میں سے گوالیار میں ہتھیاروں کے سب سے بڑے ڈیلر جگدیش پرساد گوئل کا چارج شیٹ میں نام ہی نہیں تھا۔ انتہا پسندی کے اس سخت گیر نظریہ کے حامل قائدین میں گوالیار ریاست میں ہندو مہاسبھا کے سربراہ اور سندھیا شاہی خاندان کے معالج ڈاکٹر دتاتریہ سداشیو پرچورے کو ٹرائل کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی، لیکن پنجاب ہائی کورٹ نے انہیں تکنیکی بنیاد پر بری کر دیا تھا۔ 3دیگر افراد جو گوالیار میں ہندو مہاسبھا کے اہم رہنما تھے، جسٹس آتما چرن کی ٹرائل کورٹ میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں نامعلوم افراد کے طور پر درج تھے، حالانکہ وہ گوالیار میں کھلے عام گھوم رہے تھے۔ میری آنجہانی والدہ کمالما شاردا پرساد 1948 میں لال قلعہ میں جسٹس آتما چرن کے سامنے مہاتما گاندھی کے قتل کے مقدمے میں استغاثہ کی ٹیم کا حصہ تھیں،انہیں خاص طور پر آسکر ہنری براؤن نے ممبئی کے چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے لئے منتخب کیا تھا۔ نفسیات میں پوسٹ گریجویٹ کے ساتھ ساتھ وہ مجاہدآزادی بھی تھیں جنہیں 1942 کی ہندوستان چھوڑو تحریک میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ بمبئی حکومت کے ہوم ڈپارٹمنٹ کے ساتھ ساتھ دیگر سرکاری محکموں میں ایک معروف قانونی فرم کے لئے کام کر چکی تھیں۔ان کودگمبررام چندر بیج کے نوکر شنکر کستایہ سے ثبوت حاصل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ پنے میں ہتھیاروں کے ڈیلر اور ہندو مہاسبھا کے رکن وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔ بیج ایک سکاٹ مین براؤن آزادی کے بعد ہندوستان میں رہا، اس نے سوچا کہ نفسیات میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری اور اپنی مادری زبان تلگو کی جانکاری کے ساتھ، میری والدہ شنکر کِستایا سے ثبوت حاصل کر لیں گی، جو ناخواندہ تھا اور صرف تیلگو گاؤں کی بولی اور تھوڑی مراٹھی بولتا تھا۔ میری والدہ کے مطابق سردار پٹیل کے لیے قومی مفادات کے متعدد تحفظات اس بات کو یقینی بنانے کے لئے تھے کہ ہندو مہاسبھا کے ملوث ہونے کی بہت باریک بینی سے تحقیقات نہ کی جائے۔ سب سے پہلے مہاسبھا نظام حیدرآباد کے خلاف چھاپہ مار لڑائی کر رہی تھی، جبکہ نظام کی بریگیڈدوم یعنی رضاکار فدائین ان کے دانت کھٹے کررہے تھے۔ 1938 میں ہی گوڈسے اور بال گنگادھر تلک کے پوتے جی وی کیٹکر سمیت 5 مہاسبھا لیڈران نے کانگریس پارٹی کی حیدرآباد شاخ کے ساتھ ساتھ آریہ سماج کے تعاون واشتراک سے نظام کے خلاف بھاگیہ نگر تحریک شروع کی تھی۔ نظام کے خلاف حیدرآباد کانگریس کی تحریک کی قیادت سوامی رامانند تیرتھ نے کی، جس میں ان کی مدد ان کے معاون این وی گاڈگل، پی وی نرسمہا راؤ، ایس بی چوہان اور ویریندر پاٹل نے کی۔ رضاکاروں کے ذریعہ کانگریس لیڈران کے قتل عام کے بعد نظام مخالف تحریک کی قیادت مہاسبھا کو منتقل ہوگئی، جس کی قیادت ناتھورام گوڈسے، جی وی کیٹکر، جی ایم نالاواڑے، وی بی داورے، ایس ایل کرندیکر اور پی ایم باپٹ نے کی۔تقسیم کے بعد پنے، احمد نگر اور گوالیار میں مہاسبھا کی شاخیں خفیہ طور پر نظام حیدرآباد کے علاقوں میں ہندوؤں کو ہتھیار فراہم کررہی تھیں تاکہ رضاکاروں کے ظلم سے خود کو بچاسکیں۔ پنے میں 2 سب سے بڑے ہتھیار سپلائر دگمبر رام چندر بیج، جو وعدہ معاف گواہ بن گئے اور گوالیار میں جگدیش پرساد گوئل تھے، جنہوں نے گوالیار کے مہاراجہ کو ملٹری سکریٹری سے ناتھورام گوڈسے تک ریوالور پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ دوسرا، گوالیار کی ریاست کا ہندوستان میں انضمام اس وقت انتہائی نازک مرحلے میں تھا۔ مہاراجہ جیواجی راؤ سندھیا کے طاقتور اور مقبول چچا سردار چندروجی راؤ انگرے نے گوالیار میں ہندو مہاسبھا قائم کی تھی۔ اس کی سربراہی برسوں تک ڈاکٹر دتاتریہ سداشیو پرچور نے کی، جو سندھیا خاندان کے معالج تھے، اور ونائک دامودر ساورکر کے معتمد خاص بھی تھے۔مہاسبھا کو گوالیار میں زبردست حمایت حاصل تھی اور امید کی جارہی تھی کہ وہ آزادی کے بعد حکومت بنائے گی‘تاہم گوالیار کے دیوان ایم اے سرینواسن جو جواہر لعل نہرو کے قریبی تھے اور جو میسور سول سروس کے رکن تھے، نے کانگریس کے وزراء کے بجائے حلف لیا۔نارائن ڈی آپٹے اور ڈاکٹر ڈی ایس پرچور نے سرینواسن کو دھمکی دی کہ وہ ’انہیں اور گاندھی کو ختم کر دیں گے۔‘ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دیوان ایم اے سرینواسن گاندھی جی سے ایک دن پہلے 29 جنوری 1948 کی سہ پہر برلا سدن میں مہاتما گاندھی سے ملنے گئے تھے۔
(نوٹ:کارنیگی میلن یونیورسٹی، یو ایس اے اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کانپور کے سابق طالب علم آر وی ویشویشوریا شاردا پرساد، ٹیکنالوجی کنسلٹنٹ اور دفاعی تجزیہ کار ہیں۔روی کے والد ایچ وائی شاردا پرساد کافی عرصے تک مسز اندرا گاندھی کے پریس مشیر تھے۔)
مہاتما گاندھی کو بچانے میں قائدین کی ناکامی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS