عبدالسلام عاصم
اگر سماجی ذمہ دار یہ شکایت کرنے لگیں کہ سماج خراب ہوگیا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ خرابی کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ کسی بھی سماج کی تشکیل چور، اچکے، لٹیرے، سیاسی، سماجی اور مذہبی شعبدہ باز، انتہا پسند، دہشت گرد، ماب لنچر اور اسی طرح کے دوسرے برے اور گندے لوگ نہیں کرتے۔ سماج کی تشکیل وہ لوگ کرتے ہیں جن کا تعلق انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ سے ہوتا ہے اوران اداروں کو افرادی قوت فراہم کرنے کی ذمہ داری اُن ماہرین پر ہوتی ہے جو دین اور دنیاکے تقاضوں کو علم و ہنر کے ذریعہ پورا کرتے ہیں۔ ان میں پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر، صنعتکار، انتظامی اہلکار، پولیس اکیڈمی اور نظم و نسق کے دیگر سہولت کارسبھی شامل ہیں۔
سماج کی تشکیل اگر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے تو پوچھا جانا چاہیے کہ پھریہ بُرے اور گندے لوگ کیسے سماج پر چھا جاتے ہیں۔ اس کا جواب گلوبل وارمنگ اور اس سے نجات کی جاری کوششوں کے حوالے سے یوں دیا جا سکتا ہے کہ گندے لوگ در اصل سماج کی تعمیر کی کوششوں کے ذیلی اور ضمنی نتائج کے طور پر سامنے آنے والے سماجی فضلے کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں بروقت ٹھکانہ لگانے کا نظم کرنے میں غفلت اور ناکامی کی قیمت آج عام لوگوں کوچکانا پڑرہی ہے۔
حالات کے موجودہ موڑ پرجہاں رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کے نام پر پھیلی خباثت سے ہر قدم پر زندگی کو تحفظ کا گلہ ہے، ایک بگڑے ہوئے سماج کے اِن ذمہ داراوں کو بھی جلدازجلد اپنی لاپروائی اور فضلات کی بروقت ری سائیکلنگ میں ناکامی کا عملاً اعتراف کرتے ہوئے اُسی طرح حرکت میں آنا چاہیے جس طرح گلوبل وارمنگ کے ذمہ داران( سائنسداں،صنعت کار اور تکنیکی سہولت کار)، تیل، گیس، کوئلے اور دیگر معدنیات سے ترقی کے رخ پر فائدہ اٹھانے کی سر پٹ دوڑ کے منفی نتائج پر بروقت قابو پانے کا نظم کرنے میں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے رات دن ازالے کے اقدامات میں لگے ہوئے ہیں۔
بدقسمتی سے اِس رُخ پر یہاں کہیں کوئی بھاگ دوڑ نظر نہیں آرہی ہے۔ حالانکہ ادراک سب کو ہے کہ سب اپنا بویا کاٹ رہے ہیں۔ نہ توتازہ غلط کار دوسروں کے انجام سے سبق لے رہے ہیں اور نہ نقصان اٹھانے والے نئے گمراہوں کو اعتماد میں لینے کی کوئی حکمت اختیار کر رہے ہیں۔ قوموں کے ایسے حالات سے گزرنے کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن سب کو یا تو تاریخ دوہرانے سے دلچسپی ہے یا اُسے اپنی مرضی سے مرتب کرنے کی دُھن سوار ہے۔ سارے علمی تقاضے اور شعور کو فرزانوں نے اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے منفی فائدہ اٹھانے تک محدود کر دیا ہے۔
یہ خرابیاں ایکدم سے پیدا نہیں ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعد کوئی پچیس برسوں تک ہندوستان کی جمہوریت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ راتوں رات بھائی سے ہمسایہ بن جانے والے پاکستان میں جمہوریت کُشی کے ذریعہ اقتدار کے پائے مضبوط کیے جا رہے تھے۔ وہاں صرف مذہب ہی نہیں مسلک بھی انسانی رشتوں کے آڑے آ رہا تھا۔ دوسری طرف ہندوستان بھی دائیں اور بائیں بازوؤں کی سیاست سے پاک نہیں تھا لیکن ان حوالوں سے یہاں آلودگی اتنی نہیں تھی کہ ایک دم سے سانس لینا مشکل ہو جائے۔ شاید یہی وہ سبب تھا جس نے حکمرانوں اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والوں کو جمہوریت کے استحکام کے تقاضوں کو عملاً پورا کرتے رہنے کے محاذ پر تساہل پسند بنا دیا اور سیاسی اور سماجی ذمہ داران مرحلہ وار ووٹوں کی سیاست کرنے، حکومت بنانے اور حکومتیں گرانے تک سب کچھ محدود کر بیٹھے۔ ایسا نہیں کہ اس کے جو ذیلی نتائج مرتب ہورہے تھے، ان کی طرف کبھی کسی نے توجہ نہیں دلائی ۔ لیکن ذمہ داران نے ایسی ہر توجہ کو بس اکیڈمک بحث تک محدود رکھا اور ایک آدھ موقع پر حرکت میں آئے بھی تو اشک سوئی سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ اس طرح پورا سیکولر عہد خرابی کی نذر ہوتا چلا گیا۔ اب حالات یہ ہیں کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے ایسا چولا بدلا ہے کہ اب وہ سیاسی کم اور دینی رہنما زیادہ نظر آرہے ہیں۔ فطرت کا تقاضہ وہ بھی نہیں تھا جو وہ کل کر رہے تھے اور آج بھی وہ اپنے محدود مفادات کیلئے جو کچھ کر رہے ہیں وہ فطرت کے ساتھ کھلوڑا سے علاوہ کچھ نہیں۔
خرابی کے رُخ پران تمام سیاسی تبدیلیوں میں اقلیت بالخصوص مسلمانانِ ہند کی سیاسی قیادت کبھی ایسے کسی مسلم رہنماکے ہاتھ میں نہیں تھی جس نے دو قومی نظریے کے یکطرفہ خسارے سے اجتماعی ملّی بہبود کے حق میں کوئی سبق لیا ہو ۔ بیشتر اشتہار اور اخبار پسندملّی رہنما سیکولر پارٹیوں کو ہی بلیک میل کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کی بہبود کا حصہ اپنے کھاتوں تک محدود رکھتے تھے۔ ایک طرف جہاں یہ سلسلہ چل رہا تھا، وہیں تکثیریت پسندی کی آڑ میں سیکولرزم کا دھندہ کر کے پوری قوم کو بے وقوف بنانے کی کانگریسی سیاست کی مخالفت کرنے والے حلقوں میں مرحلہ وار لیکن منظم طور پر دائیں بازو کا دخل بڑھنا شروع ہو گیا تھا۔ 1975 میں ایمرجنسی کے بعد تو کانگریس جیسے اپنے ہی حلقے میں اچھوت بن کر رہ گئی تھی۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب کانگریس اور دوسری سیکولر پارٹیوں کی مسلم ووٹ بینک کی سیاست اور باقی ووٹوں کی تقسیم پرسیاسی نظر رکھنے والوں نے سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا اور گزرتے وقت کے ساتھ انہیں مناسب لائحہ عمل تیار کرنے کی تحریک ملتی گئی۔
ملت کی نمائندگی کے نام پر اپنا کاروبار کرنے والوں کو ملک کی اکثریت کی سوچ میں کسی تبدیلی کا جائزہ لینے کی کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی ۔ بس ایک بے ہنگم کارواں آگے بڑھتا رہا ۔ آگے چل کر ملائم سنگھ اور لالو پرساد یادو تک سیکولر ملّی رہنما بن کر اقلیت کے ووٹوں سے اپنے محدود مفادات کی سیاست کی دکانیں دن دوگنی رات چوگنی چمکاتے رہے۔ ان کی صحبت میں کمیونسٹ بھی اندھی کانگریس دشمنی پر اتر آئے تھے۔ دوسری طرف غیر تکثیریت پسند سیاست کرنے والے دائیں بازو کے سیاست داں ملک کی اکثریت کو بجا طور پریہ تاثر دینے میں مرحلہ وار کامیابی حاصل کرتے رہے کہ اکثریت کے سیکولر ووٹوں کی تقسیم والے اقلیتی ووٹ بینک کی مفاد پرستانہ سیاست ملک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاسی مجبوریوں کے جذباتی استحصال کی نذر کر کے رکھ دے گی۔
یہیں سے اکثریت کا ووٹ بینک تیار کرنے کا کام شروع ہوا جس کا بنیادی مقصدبراہ راست اقلیت دشمنی ہرگز نہیںبلکہ اقلیت کے ووٹوں کی اہمیت کو مکمل طور پر ختم کر دینا تھا۔ ووٹ بینک کی جس گندی سیاست کی بنیاد کانگریس نے رکھی تھی جوابی ووٹ بینک سے اس کا زور توڑنے کے رُخ پر ابتدائی کامیابی کے لیے جو راہ تیار کی گئی اسے ہندوتو اور سیکولرزم دونوں سے ہم آہنگ رکھا گیا تاکہ کانگریس بیزار لیکن موقع پرست نام نہاد سیکولر جماعتوں کو ساتھ رکھا جاسکے۔
اس اجمالی جائزے کی روشنی میں دیکھا جائے تو سیکولرزم کا دھندہ کرنے اور اقلیت اقلیت کی رٹ لگانے والے جن رہنماؤں نے قومی سیاست کے سیکولر اور جمہوری کردار کو نقصان پہنچایا ہے، وہ آج بھی اقلیتی نوجوانوں کواپنی محدود سوچ کے حصار سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت میں تکثیریت پسندی پر اکثریت پسندی کو ترجیح دینے والوں کے بعض بیانات سے اُس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچ رہا ہے جو مجموعی قومی ترقی اور معاشرتی استحکام کے لیے ناگزیر ہے، لیکن اس کمی کودوسرے محاذ پر ضبط کی کمی سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ تصادم کا کوئی بھی راستہ خواہ وہ ذہنی ہی کیوں نہ ہو عام نوجوانوں کی زندگی بر باد کر سکتا ہے۔
وقت کا تقاضہ ہے ہندوستان کی با شعور نئی نسل ملک کی آزادی کی 75 ویں یعنی ڈائمنڈ جوبلی سالگرہ کے موقع پر کسی بھی طرح کے فوری ردعمل سے بچ کر رہے اور سوشل میڈیا پرمتصادم حلقوں کے خلاف ایسا کوئی جوابی محاذ نہ کھولا جائے جو جذباتی راحت تو پہنچا دے لیکن اُن مٹھی بھر عناصر کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے جو موجودہ حکومت کے تعلق سے کچھ اس قسم کی سوچ رکھتے ہیں کہ ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘۔ اس وقت کوئی بھی نام نہاد سیکولر لیڈر ہندوستانی مسلمانوںکے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی ہمت نہیں رکھتا۔ کیونکہ اُن کے نزدیک اُن کے ووٹوں کی ضرورت ختم ہو چکی ہے۔ ایسے میں ہندوستانی مسلمانوںکو جو حب الوطنی میں کسی سے کم نہیں، جذبات کی جگہ شعور سے کام لینا ہے ۔ ویسے بھی انسانی نفسیات کو سمجھنے والے اس سے مطلق اتفاق کریں گے کہ سماجی زندگی فطری تقاضوں سے عبارت ہے علمِ ریاضی سے نہیں۔ مذاہب کا اپنا جو کردار ہے وہ بھی انسانی مزاج ہی متعین کرتا ہے۔ ہمیں مذہب میں پناہ لینے یا اس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اُس کے تقاضوںسے پیش آنے کے طریقے کو بدلنا اور زمانے کی رفتار سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]