سرینگر:صریرخالد،ایس این بی
جموں کشمیر سرکار نے ایک انتہائی اہم فیصلے کے تحت اپنے یہاں کے قانون میں تبدیلی کرتے ہوئے اول درجہ سے قبل کے ننھے منوں کو کتابوں کے بوجھ سے پوری طرح اور اول سے دسویں تک کے طلبائ کو جُزوی طور، کتابوں کے بوجھ سے آزاد کردیا ہے۔ نرسری کی کلاسز کیلئے بچوں کو کوئی کتاب یا بستہ نہیں اٹھانا ہوگا جبکہ سرکار نے مختلف جماعتوں کے طلباٗ کے بستوں کا باضابطہ وزن مقرر کرتے ہوئے طلباء کو اضافی کتابیں اٹھانے پر مجبور کرنے کو ممنوع ٹھہرایا ہے۔
محکمہ تعلیم کے پرنسپل سکریٹری اصغر سامون کے دستخط سے بدھ کی رات کو جاری کردہ ایک حکم نامہ میں اسکولوں کو دوسری جماعت تک کے بچوں کو کوئی ’’ہوم ورک‘‘ نہ دینے کا بھی پابند بنادیا گیا ہے۔ بھاری بستوں کے بوجھ تلے دبے بچپن کو راحت دلانے والا یہ فیصلہ جموں کشمیر اسکول ایجوکیشن ایکٹ 2002کے ضابطہ نمبر 8 میں ترمیم کرکے لیا گیا ہے۔حکم نامہ ، جو سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں کیلئے نافذ العمل ہوگا،میں بتایا گیا ہے کہ پری پرائمری اسکول یعنی نرسری کے بچوں کیلئے کوئی باضابطہ کتاب وغیرہ نہیں ہوگی بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ دو نوٹ/ ورک بُکس دی جاسکتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نئے قانون کے مطابق یہ کاپیاں بھی اسکول میں ہی رہا کرینگی ۔ جیسا کہ حکم نامہ میں درج ہے ’’پری پرائمری درجہ کے طلباٗ کوئی بستہ نہیں اٹھائیں گے سوائے لنچ بکس کیلئے کسی ہلکی چیز کے‘‘۔ اپنی نوعیت کے اس اہم حکم نامہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس درجہ کے طلباٗ کو کیا کیا کتابیں پڑھائی جاسکتی ہیں اور انکے بستوں کا زیادہ سے زیادہ وزن کتنا ہوسکتا ہے۔ نئے قانون کے مطابق اول اور دوسرے درجہ کے طلبہ کو فقط زبان، تیسرے سے پانچویں درجہ کیلئے زبان،ماحولیاتی سائنس اور ریاضی اور چھٹی سے دسویں تک کے بچوں کو ان مضامین کے علاوہ سماجی سائنس یا پھر ان ضابطہ کار اداروں (بورڈ وغیرہ) کی تجویز کے مطابق کہ جنکے ساتھ متعلقہ اسکول منسلک ہوں، کا مضمون پڑھایا جائے گا۔ تاہم اسکول بستوں کے زیادہ سے زیادہ وزن کے قانون کی ان سبھی اسکولوں کو پاسداری کرنا ہی کرنا ہوگی۔ چناچہ جہاں اول درجہ سے نیچے کے بچوں کو کتابوں اور بستوں کے بوجھ سے پوری طرح آزادی دی گئی ہے وہیں اول تا دوسری جماعت کے اسکول بستے کا زیادہ سے زیادہ وزن ڈیڑھ کلو اور تیسری تا دسویں جماعت تک کے بچوں کیلئے باالترتیب تین، چار، پانچ اور ساڑھے پانچ کلو مقرر کیا گیا ہے۔ سرکار نے واضح کرتے ہوئے حکم دیا ہے ’’طلباٗ کو اضافی کُتب یا اضافی سامان لیکر اسکول آنے کیلئے نہیں کہا جانا چاہیئے‘‘۔
حکم نامہ میں تنبیہاََ کہا گیا ہے کہ حکم عدولی کرنے والے اسکولوں کی منظوری کاالعدم کی جائے گی۔
یہ حکم اپنے آپ میں تاریخی ہے کیونکہ اسکولی بچوں کے بستوں کا بوجھ آئے دن بڑھتا ہی جارہا تھا جسکی وجہ سے نہ صرف چھوٹے بچوں کی جسمانی صحت بلکہ انکی ذہنی صحت پر بھی اثر پڑتا تھا اور انہیں کھیل کود کیلئے بھی کوئی وقت نہیں ملتا تھا۔اس طرح کی شکایات عام ہیں کہ بعض نجی اسکولوں کی جانب سے غیر ضروری کُتب کو لازمی کرکے طلباٗ پر ایسا ان چاہا اور نا پسندیدہ بوجھ ڈالا جارہا ہے کہ جس سے بصورتِ دیگر بچا جاسکتا ہے۔چناچہ نئے سرکاری حکم نامہ پر نہ صرف بچے بلکہ انکے والدین بھی کافی خوش نظر آرہے ہیں۔ جیسا کہ سید شائستہ نامی ایک خاتون، جنکی بچی شہرِ سرینگر کے ایک نامی نجی اسکول میں چھٹی جماعت کی طالبہ ہیں، نے کہا ’’یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اس پر عمل بھی ہونا چاہیئے۔ سچ پوچھیئے کہ میری بچی کا بستہ اتنا بھاری ہے کہ میں جب اسے صبح اسکول بس میں بٹھانے کیلئے جاتی ہوں تو میں یہ بستہ مشکل سے اٹھا پاتی ہوں۔کئی بار میں نے سوچا کہ یہ ننھی سی جان اتنا بھاری بستہ کیسے اٹھاتی ہوگی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بچوں کو وہ غیر ضروری چیزیں پڑھائی جاتی ہیں کہ جو انکی سمجھ سے باہر ہیں لیکن انہیں رٹا لگانا پڑتا ہے‘‘۔ انہوں نے تاہم کہا کہ اس قانون پر عمل ہونے کے ساتھ ساتھ سرکار کو یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ بچوں کو واقعی کم لیکن مناسب کتابیں پڑھائی جاتی ہیںنہیں،تعلیم کا وقت کی ضرورت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔
جموں کشمیر میں پرائیویٹ اسکولوں کی انجمن ’’پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن ، (جے اینڈ کے) نے تاہم تازہ سرکاری فیصلے پر محتاط ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے صدر اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر جی این وار نے کہا’’ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر آیا ہے کہ جب ہم سب کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ تعلیم ایک انتہائی اہم چیز تو ہے لیکن زندگی کے بعد آتی ہے۔ ہم قریب 2600 اداروں کی ایک انجمن ہے اور موجودہ حالات میں ہمارا کسی فیصلے کو زیرِ غور لانے کیلئے ممکن نہیں ہے البتہ ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ محکمہ تعلیم کی سربراہی اصغر سامون صاحب جیسے قابل ترین افسر کے پاس ہے جن سے فقط خیر ہی کی توقع کی جاسکتی ہے‘‘۔ مسٹر وار نے مزید کہا’’مجھے ذاتی طور یقین ہے کہ سامون صاحب ہر فیصلہ بچوں کے مفاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرینگے لیکن بہت حساس معاملوں میں مشاورت کی ضرورت رہتی ہے۔پھر بستوں کا بوجھ کم کرنا ہمارے یہاں تعلیم کو درپیش واحد مسئلہ نہیں ہے۔مجھے امید ہے کہ سامون صاحب کے رہتے سرکار دیگر اہم ترین مسائل کے بارے میں بھی سوچے گی‘‘۔
جموں کشمیر میں اسکولی طلباء کی کتابوں کے بوجھ سے آزادی دلانے کا قانون متعارف
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS