بھارت کے نائب صدر کے انتخاب کی تازہ صورت حال: این ڈی اے اور ’انڈیا‘ کی کشمکش

0

عبدالماجد نظامی

بھارت کی جمہوری سیاست میں نائب صدر کا عہدہ نہ صرف دستوری اعتبار سے اہم ہے بلکہ پارلیمانی جمہوریت کے توازن میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ نائب صدر بیک وقت ملک کے دوسرے سب سے بڑے آئینی عہدے پر فائز ہوتا ہے اور ساتھ ہی راجیہ سبھا(ایوانِ بالا) کا چیئرمین بھی ہوتا ہے۔ اس حیثیت سے نائب صدر کا منصب صرف اعزازی نہیں بلکہ پارلیمانی عمل اور بحث و مباحثے کو سنبھالنے میں ایک عملی کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بار اس عہدے کے انتخاب کو سیاسی جماعتیں نہایت سنجیدگی سے لیتی ہیں اور اسے اپنے اتحاد کی طاقت کے مظاہرے کے طور پر پیش کرتی ہیں۔موجودہ منظرنامہ یہ ہے کہ اس وقت بھارت میں نائب صدر کے عہدے کے لیے نامزدگی کے کاغذات داخل کیے جا رہے ہیں۔ برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اور اس کے اتحادیوں پر مشتمل این ڈی اے(نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کی جانب سے ایک مضبوط امیدوار کھڑا کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی چھتری، یعنی انڈیا اتحاد(I.N.D.I.A bloc) نے بھی اپنی جانب سے امیدوار نامزد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ صورت حال اس انتخاب کو محض ایک رسمی عمل کے بجائے ایک بڑی سیاسی کشمکش اور عددی طاقت کے مظاہرے میں تبدیل کر رہی ہے۔

اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں ایک نظر نائب صدر کے عہدے کی اہمیت پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ ہندوستان کے آئین کے مطابق نائب صدر کا انتخاب لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے تمام منتخب اور نامزد اراکین پر مشتمل الیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ نائب صدر کی آئینی ذمہ داریوں میں سب سے اہم راجیہ سبھا کی صدارت ہے۔ راجیہ سبھا میں قانون سازی، بحث و مباحثہ اور مختلف آئینی مسائل کے حل میں نائب صدر کو غیر جانبدار، منصفانہ اور مضبوط رول ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس منصب پر بیٹھنے والا شخص پارلیمانی وقار اور جمہوری روایت کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔

اب اصل موضوع پر واپس آتے ہیں، سب سے پہلے این ڈی اے کے امیدوار اور حکمت عملی کی بات کرتے ہیں۔ این ڈی اے کی قیادت بی جے پی کے ہاتھ میں ہے، جس نے گزشتہ برسوں میں لوک سبھا میں اپنی واضح اکثریت کے ساتھ ملک کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ نائب صدر کے عہدے کے لیے این ڈی اے کی جانب سے ایک ایسا چہرہ لایا گیا ہے جس پر اتحادیوں کے ساتھ ساتھ غیر جانبدار جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جا سکے۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ یہ انتخاب اپوزیشن کو مزید حاشیے پر ڈالنے اور اپنی ’’وسیع البنیاد‘‘ قبولیت کا مظاہرہ کرنے کا موقع ثابت ہو۔

وہیں دوسری جانب انڈیا اتحاد کا موقف اور حکمت عملی کی اگر بات کی جائے توانڈیا اتحاد، جس میں کانگریس کے علاوہ ترنمول کانگریس، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، دراوڑ منیتر کڑگم اور کئی دیگر جماعتیں شامل ہیں، اس انتخاب کو اپنی سیاسی موجودگی کو مستحکم کرنے کے ایک اہم موقع کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ اگرچہ اعداد و شمار کے اعتبار سے اپوزیشن کی پوزیشن کمزور ہے، لیکن اس کی کوشش ہے کہ ایک ایسا امیدوار میدان میں لایا جائے جو نظریاتی طور پر بی جے پی کے برعکس تاثر پیش کرسکے اور ملک کے جمہوری تنوع کی نمائندگی کرے۔ جہاں تک عددی حقائق اور انتخابی امکانات کی بات ہے تو نائب صدر کے انتخاب میں ووٹ دینے کا حق دونوں ایوانوں کے ارکان کو ہوتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں این ڈی اے کے پاس واضح عددی برتری ہے، کیونکہ لوک سبھا میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت ہے اور راجیہ سبھا میں بھی وہ ایک بڑی طاقت کے طور پر موجود ہیں۔

ایسے میں انتخابی نتیجہ کافی حد تک این ڈی اے کے حق میں جاتا نظر آتا ہے۔ تاہم اپوزیشن اس انتخاب کو ایک ’’اخلاقی معرکہ‘‘ کے طور پر لڑ رہی ہے تاکہ کم از کم عوامی سطح پر یہ پیغام جائے کہ بی جے پی کی مطلق العنانی کو چیلنج کرنے والی ایک مضبوط آواز موجود ہے۔سیاسی اور سماجی تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ انتخاب صرف نائب صدر کے عہدے کے لیے نہیں بلکہ ملک کی وسیع تر سیاست میں بھی ایک علامتی جنگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ این ڈی اے کے امیدوار کی کامیابی جہاں حکومتی اتحاد کی یکجہتی اور طاقت کو مزید نمایاں کرے گی، وہیں اپوزیشن کے امیدوار کی موجودگی عوامی بیانیے میں جمہوری مزاحمت اور اختلاف رائے کو اجاگر کرے گی۔ موجودہ سیاسی ماحول میں جب اپوزیشن کو بارہا تقسیم اور کمزوری کے طعنے دیے جاتے ہیں، تو انڈیا اتحاد کی یہ کوشش کہ وہ متحد ہوکر نائب صدر کے لیے مشترکہ امیدوار کھڑا کرے، عوامی تاثر کے لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مستقبل کی سیاست پر اس کے کیااثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

نائب صدر کے انتخاب کا نتیجہ کسی بھی صورت میں بھارت کی مستقبل کی سیاست پر اثر ڈالے گا۔ اگر این ڈی اے اپنے امیدوار کو کامیاب کرا لیتا ہے تو یہ اس بات کا عندیہ ہوگا کہ اگلے عام انتخابات تک بی جے پی اپنی سیاسی مشینری پر مضبوط کنٹرول رکھتی ہے۔ دوسری طرف اگر اپوزیشن اتحاد اپنی قوت کو نمایاں کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، تو یہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لیے اپوزیشن کی تیاری اور بیانیے کو تقویت پہنچا سکتا ہے۔مجموعی طور پر نائب صدر کے انتخاب کی موجودہ صورت حال بھارتی سیاست میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کر رہی ہے۔ یہ انتخاب محض ایک آئینی عہدے کے حصول کی دوڑ نہیں بلکہ اتحادوں کی طاقت، عوامی تاثر اور جمہوری اقدار کے اظہار کا ایک موقع ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا یہ انتخاب این ڈی اے کی برتری کو مزید مستحکم کرے گا یا انڈیا اتحاد کو ایک نئی سیاسی توانائی فراہم کرے گا۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS