سری لنکا: حالات کیلئے پکشے برادران ذمہ دار

0

دوراندیش لیڈر ملک کے اچھے دنوں میں بھی اتنی ہی سیاست کرتے ہیں کہ وہ انتخابات جیتتے رہیں اور ملک کے اقتصادی اور سماجی طور پر ٹوٹنے، بکھرنے کے آثار پیدا نہ ہوں، البتہ ہرمعاملے میں سیاست کرنے والے لیڈران یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے، پہلے کے مقابلے ایک ملک کا انحصار دوسرے ملکوں پر بڑھا ہے، ملک کی داخلی صورت حال کا اثر اس کی عالمی ساکھ پر پڑتا ہے، اس کا نقصان اسے اقتصادی اور سیاسی محاذ پر اٹھانا پڑتا ہے۔ بات اگر سری لنکا کی موجودہ صورت حال کی کریں تو ایک پرامن اور خوشحال ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں بیشتر سری لنکن لیڈروں نے نہایت مذموم رول ادا کیا ہے۔ پکشے بھائیوں کے رول کی تو جتنی مذمت کی جائے،کم ہے۔ وہ اقتدار کے حصول کے لیے حیرت انگیز ’کارنامے‘ انجام دیتے رہے، زبان و ثقافت اور مذہب کی سیاست کرتے رہے، یہ سمجھتے رہے کہ ان کے لیے حالات یکساں رہیں گے، ان کے چاہنے والے کبھی ان کے خلاف نہیں جائیں گے مگر جب عام لوگوں کے پیٹ پر بن آتی ہے تو سیاست کی حقیقت بھی انہیں سمجھ میں آنے لگتی ہے جیسے سری لنکا کے لوگوں، بالخصوص سنہالیوں کو سمجھ میں آنے لگی ہے اور وہ انہی پکشے بھائیوں کے خلاف مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں جن کے کبھی وہ مداح اور حامی ہوا کرتے تھے۔ حالات خراب ہونے پر پہلے سری لنکا کے وزیراعظم مہندا راج پکشے کو سرکاری رہائش گاہ چھوڑنی پڑی تھی، آج گوٹابیا راج پکشے کو سرکاری رہائش گاہ چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ پر پناہ لینی پڑی ہے۔ لوگوں کی حمایت میں مشہور کرکٹرس جے سوریہ اور سنگ کارا بھی میدان میں اترے ہیں اور ظاہر ہے، وہ اس لیے اترے ہیں، کیونکہ ملک کے حالات پر وہ خاموش تماشائی نہیں بنے رہ سکتے، البتہ ان کرکٹروں نے سڑک پر اترنے میں ذرا تاخیر کر دی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پکشے بھائیوں کی حکومت کے دائرۂ خوف سے باہر نکلنے میں تاخیر کر دی، ورنہ سری لنکا کے یہ حالات نہ ہوتے۔
اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ سری لنکا کے لیے تملوں کی علیحدگی پسندگی ایک مسئلہ تھی مگر اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ تملوں کے ساتھ زبان و ثقافت کے نام پر بڑی زیادتی کی گئی، انہیں کئی مرحلے پر یہ احساس دلایا گیا کہ سری لنکا پر جو حق سنہالیوں کا ہے، وہ ان کا نہیں ہے۔ اس کا بھیانک نتیجہ نکلنا تھا اور نکلا۔ ایل ٹی ٹی ای تحریک وجود میں آئی۔ 18 مئی، 2009 کو پربھاکرن کو ہلاک کیے جانے کے بعدسمجھا گیا تھا کہ علیحدگی پسند تملوں کو حکومت عام معافی دے دے گی، انہیں نئے سرے سے پرامن زندگی شروع کرنے کا موقع دے گی مگر اگلے ہی دن 19 مئی کو پربھاکرن کے 12 سالہ بچے بالاچندرن کو سینے میں گولی مار کرموت کے گھاٹ اتارا گیا، یہ ہلاکت سری لنکن حکومت کی منشا ظاہر کر دینے کے لیے کافی تھی۔ اس کے بعد پکشے بھائیوں کے دور حکومت میں عیسائی اور پھر مسلمان نشانے پر لیے گئے، مسجدوں پر حملے ہوئے، اپریل 2019 میں کولمبو کے تین چرچوں اور ایک بڑے ہوٹل میں دھماکے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک شروع ہوا جیسے سری لنکا کے سبھی مسلمان دہشت گرد ہوں، کورونا میں انہیں اپنے مردوں کو دفنانے پر پابندی عائد کی گئی، حجاب ایشو بنا، حلال گوش ایشو بنا یعنی پکشے بھائیوں کے لیے بظاہر بدھسٹ سنہالی ہی اہمیت کے حامل رہ گئے تھے۔ دوسری طرف وہ ہندوستان کے مقابلے چین کو ترجیح دینے لگے تھے، اس کے قرض پر سپنوں کی عمارتیں کھڑی کرنے لگے تھے مگر یہ سپنے ان کے دعوؤں کی طرح کھوکھلے ثابت ہوئے۔ کورونا کی وجہ سے سری لنکا کے ایکسپورٹ پر اثر پڑا، وہاں سیاح بھی کم آئے تو ان کی نااہلی جگ ظاہر ہوگئی۔ اس کے باوجود وہ اقتدار سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوئے، یہ تو عام لوگوں کی مجبوری ہے کہ وہ احتجاج کر رہے ہیں اور ان کے احتجاج نے پہلے راج پکشے کو ان کی حقیقت کا احساس دلایا تھا، اب گوٹابیا راج پکشے کو احساس دلایا ہے مگر لوگوں نے پکشے بھائیوں کی سیاست کو سمجھنے میں اتنی تاخیر کر دی ہے کہ سری لنکا کئی طرح کے مسئلوں میں گھر چکا ہے۔ اس کے پاس زرمبادلہ برائے نام ہے، چنانچہ وہ امپورٹ کرنے کی بہتر پوزیشن میں نہیں، پٹرول اور ڈیزل کی قلت ہے، ضروری ادویہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں، بجلی کا بحران ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ سری لنکا کی موجودہ صورت حال کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اپریل میں لوگوں کے سرکار کے خلاف احتجاج شروع کرنے کے بعد سے وہاں دو بار ایمرجنسی نافذ کرنی پڑی ہے۔ مہندا راج پکشے کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد رنل وکرم سنگھے وزیراعظم بنے تھے مگر انہوں نے یہ کہہ کر لوگوں کو مایوس کر دیا تھا کہ ’یہ بحران اور برا ہوگا۔‘ اقوام متحدہ کا یہی ماننا ہے کہ ’سری لنکا انسانی بحران کی کگار پر ہے۔‘یہ ان سوالوں پر غور کرنے کا وقت ہے کہ کیا سری لنکا کے حالات سے دیگر ملکوں کے لوگوں کو سبق نہیں لینا چاہیے؟ اپنی سرکار کی کارکردگی کو لیڈروں کے جذباتی نعروں کے بجائے اقتصادی حصولیابیوں پر پرکھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS