ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
گجرات کی اسمبلی نے متفقہ طور پرجیسی قراردار منظور کی ہے، ویسی ملک کی ہر اسمبلی کو کرنی چاہیے۔ اس قراردار میں کہا گیا ہے کہ گجرات کی تمام پرائمری کلاسوں میں گجراتی زبان لازمی ہوگی۔ پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے طلبا کے لیے گجراتی پڑھنا لازمی ہوگا۔ جو اسکول اس التزام کی خلاف ورزی کریں گے، ان پر 50ہزار سے 2لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ جو اسکول اس اصول کی خلاف ورزی ایک سال تک کریں گے، ریاستی حکومت ان کی منظوری رد کردے گی۔ گجرات میں باہر سے آکر رہنے والے طلبا پر مذکورہ اصول نافذ نہیں ہوگا۔میری رائے یہ ہے کہ غیر گجراتی طلبا پر بھی یہ اصول نافذ ہونا چاہیے، کیونکہ ہندوستان کے کسی بھی صوبہ سے آنے والے طلبا وطالبات کے لیے گجراتی سیکھنا بہت آسان ہے۔ اس کا رسم الخط تو ایک -دو دن میں ہی سیکھا جا سکتا ہے اور جہاں تک زبان کا سوال ہے، وہ بھی چند ہفتوں میں سیکھنا مشکل نہیں ہے۔ یہ بات تمام ہندوستانی زبانوں کے بارے میں نافذ ہوتی ہے، کیونکہ تمام ہندوستانی زبانیں سنسکرت کی بیٹیاں ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ جن افسروں اور تاجروں کو تھوڑے عرصے میں ہی اپنا صوبہ بدلنا پڑتا ہے، کیا ان کے بچوں کو مشکل درپیش نہیں آئے گی؟ وہ کتنی زبانیں سیکھیں گے؟ اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ بچپن میں کئی زبانیں سیکھ لینا بہت آسان ہوتا ہے۔ میں نے فارسی رسم الخط کچھ ہی گھنٹوں میں سیکھ لیا تھا اور انگریزی، روسی، جرمن اور فارسی جیسی غیر ملکی زبانیں سیکھنے میں بھی مجھے چند ہفتے ہی لگے تھے۔ اگر ہمارے ملک کے بچوں کے لیے مقامی زبان سیکھنا لازمی قرار دے دیا جائے تو ہندوستان کے کروڑوں بچے ایک سے زیادہ زبان جاننے و بولنے والے بن جائیں گے۔ جدید ہندوستان میں کروڑوں لوگ ایک دوسرے کے صوبوں میں رہتے ہیں اور آتے جاتے ہیں۔ یہ عمل قومی یکجہتی کو تقویت بخشے گا اور ہمارے نوجوانوں کی فکری صلاحیتوں کو نئی رفتار دے گا۔اگر ہندوستان میں مقامی زبان کی لازمی پڑھائی کا اصول نافذ ہوجائے تو ہمارے پڑوسی ممالک بھی اس پر عمل کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ نیپال میں نیپالی اور ہندی، سری لنکا میں سنہالی اور تمل، افغانستان میں پشتو اور دری اور پاکستان میں پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچ زبانوں کو ایک ساتھ جاننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ ایسا ہونے پر ان ممالک کا اتحاد نہ صرف مضبوط ہوگا بلکہ ان میں باہمی ہم آہنگی میں بھی اضافہ ہوگا۔ جب مادری زبانوں کے تئیں محبت میں اضافہ ہوگا تو ہر قوم کی قومی زبان یا رابطہ زبان کو بھی اس کا مناسب مقام ملے گا۔ ہندوستان میں انگریزی کی غلامی کیوں بڑھتی جارہی ہے؟ کیونکہ ہم نے اپنی مادری زبانوں کو اپنی پڑھائی میں ملازمہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ اسی لیے ہندوستان میں آج بھی انگریزی ملکہ بنی ہوئی ہے۔ ہمارے بچے بی اے، ایم اے کی پڑھائی اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی کام میں ایک انگریزی ہی نہیں، بلکہ مختلف غیر ملکی زبانوں سے فیضیاب ہوں، یہ بھی ضروری ہے لیکن بچپن سے ہی مادری زبان اور قومی زبان کو نظرانداز کرنا کسی بھی قوم کو سپر پاور یا خوشحال نہیں بنا سکتا۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]