زبان کا مسئلہ

0

زبان اورعلاقہ کا تنازع بہت ہی حساس ہوتاہے، معمولی معمولی بات پر ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں اترپردیش اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران اردوزبان پر تنازع کھڑا ہوا تھا، وہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا کہ مہاراشٹر اور کرناٹک میں کنڑاورمراٹھی زبانوں کا تنازع کھڑا ہوگیا۔ کرناٹک کے بیلگاوی میں بس میںصرف کنڑجاننے والے کنڈیکٹر سے مراٹھی میں بولنے کی ضد سے بات اتنی بڑھ گئی کہ احتجاج، اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بسوں پر سیاہی پوتنے، بین ریاستی بسوں کی سروس بندکرنے اوربیان بازی سیاست کے آخری حد تک پہنچ گئی ۔ادھر تمل ناڈومیں ہندی کو لے کر مرکز اورریاستی حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں ۔

تملناڈوسرکارنے نہ صرف تمل، انگریزی اورہندی سہ لسانی فارمولہ کومسترد کردیاہے ، بلکہ ریاست میں قومی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے سے بھی انکار کردیاہے ۔مرکزی وزیرتعلیم دھرمیندر پردھان نے تملناڈوکے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن کوقومی تعلیمی پالیسی کو لے کر ایک خط کیا لکھا، ایسالگا جیسے ریاست میں سیاسی زلزلہ آگیا۔پہلے اسٹالن نے اس کے جواب میں بہت سخت باتیں کہیں ، پھر ان کے بیٹے اودے ندھی اوراے راجہ نے بہت کچھ کہہ دیا اورساری حدیں پارکرگئے ۔جب ہندی کی بات آئی ، توریاست کی اپوزیشن پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے اوردیگر علاقائی پارٹیاں بھی حکومت کے ساتھ کھڑی نظرآئیں۔ اب بی جے پی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زبان کولے کرحرکت میں آگئی ہے ، چونکہ ریاست میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس لئے بی جے پی یکم مارچ سے زبان کو لے کر باقاعدہ مہم شروع کرنے جارہی ہے۔ مرکزاورتمل ناڈوکی سرکاریں قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کولے کر آمنے سامنے ہیں۔ 2020سے ہی اسٹالن سرکار اس کی مخالفت کررہی ہے اور اب اس نے مختلف اسکیموں کیلئے فنڈروکنے کاسنگین الزام مرکز پر لگایا ہے اور اس کو بھی اسی زبان کے تنازع سے جوڑدیا ہے ، جس کی وجہ سے اس پر دونوں طرف سے بیان بازی کچھ زیادہ ہی ہورہی ہے ۔

بیلگاوی میں بس کنڈیکٹر سے مراٹھی اورکنڑزبانوں کولے کر جو تنازع شروع ہوا،وہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ دونوں ریاستوں کی حکومتیں آمنے سامنے ہوجائیں۔ملک میں ان گنت زبانیں بولی جاتی ہیں اورکسی بھی علاقہ میں ہم دوسرے سے یہ امید نہیں کرسکتے کہ ہم جو زبان جانتے ہیں ، وہ اسی میں بات کرے اور اس کو زیادہ طول بھی نہیں دیناچاہئے کہ بات بگڑجائے، لیکن ارادتاًیا غیر ارادتاً بیلگاوی میں بس کے اندر تنازع کھڑاکیا گیا ، جس کے بعد معاملہ وحالات خراب ہوگئے ۔یہ تو اچھاہوا کہ اترپردیش اسمبلی میں اردوزبان کا تنازع صرف 2دن ہی چلا اوراس پر زیادہ سیاست نہیں ہوئی ، جس کی وجہ سے زیادہ بیان بازی نہیں ہوسکی اور حکومت پر کوئی آنچ نہیں آئی ۔بیلگاوی میں جوہوا یا تمل ناڈومیں جو ہورہاہے، اسے غلط ہی کہا جائے گا۔اس سے سیاست تو یقیناآگے بڑھ رہی ہے ، لیکن زبان کی توہین ہورہی ہے ، جس سے لوگوں کے احساسات و جذبات جڑے ہوتے ہیں اور وہ جذبات جب مجروح ہوتے ہیں ، تواس کا منفی اثر حالات پر پڑتا ہے۔ کرناٹک، مہاراشٹراورتملناڈو میں یہی دیکھنے کو مل رہاہے ۔ پرانے تنازع کو ہوا دی گئی، تو چنگاری شعلہ بن گئی اورنقصان ملک اورلوگوں کا ہورہاہے ۔زبان الگ سیاست میں پس رہی ہے ۔اس سے کچھ لوگوں کو جہاں کسی خاص زبان سے محبت بڑھے گی اوروہ اسے آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے ، توکچھ لوگوں کو نفرت ہوگی اوروہ اسے نیچادکھانے کیلئے جدوجہد کریں گے ۔ لوگوں اورعلاقہ میںبھی کشیدگی بڑھ سکتی ہے، جیساکہ بیلگاوی میں ہم دیکھ رہے ہیں ۔کرناٹک اورمہاراشٹر کے درمیان ایک بار پھرسرحدی تنازع بڑھنے کا امکان ہے ۔

نہ تو کسی پر دوسری زبان تھوپنے کی کوشش کرنی چاہئے اور نہ ہی کسی زبان کی توہین کرنی چاہئے۔ اگرزبانیں ملکی ہیں، تو انہیں لوگوں کو بولنے اورپڑھنے دینا چاہئے اورفروغ کے مواقع کو بندنہیں کرناچاہئے ۔کسی بھی زبان کے ساتھ حق تلفی نہیں ہونا چاہئے ۔سرکاروں کو بھی اس معاملہ میں کشادہ دل ہوناچاہئے، تنگ نظر نہیں ۔ایسانہ ہوکہ ایک یا چندزبانوں کے فروغ کیلئے سرکاری سطح پر کوششیں ہوں اورباقی کے سامنے مشکلات کھڑی کی جائیںیاانہیں نظرانداز کیا جائے ، جن سے وہ فروغ نہ پاسکیں ۔بہرحال اس حساس مسئلہ کوسیاسی بنانے سے گریز کیا جائے ۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS