لیلۃ القدر اور مسلمان!

0

ریاض فردوسی

ہم لوگوں نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ شعبان کی پندرھویں شب کو مساجد لوگوں سے کھچاکچ بھری ہوتی ہے۔ بوڑھے، جوان اور بچے سبھی اس رات عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ تلاوت قرآن کرتے ہیں، نوافل نمازیں پڑھتے ہیں، ذکر و اذکار بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح محلے میں کلب، لائبریری اور دیگر اداروں میں بھی تلاوت قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے،مجالس میلاد ووعظ وبیان کاانعقاد کیاجاتاہے۔ رات بھر جوان بچے راستوں پر اسلامی لباس میں ملبوس ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ پندرہویں شب کو شب برأت کہا جاتا ہے۔اس رات کی ایک الگ اہمیت ہے اس لیے لوگ رات بھر جاگتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔ اس کے برعکس رمضان کے شب قدر میں یہ بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ مسجدیں نوجوانوں اور بچوں سے اس طرح سے نہیں بھری ہوتی ہیں جس طرح سے یہ شب برات میں بھری ہوتی ہیں۔ چند لوگ ہی آپ کو مسجدوں میں عبادت کرتے ہوئے ملے گے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں شب قدر سے زیادہ اہمیت شب برأت کی ہے جبکہ قرآن مجید میں شب قدر سے متعلق ایک الگ سے مکمل سورہ نازل ہوئی ہے۔ قرآن مجید کو شب قدر میں نازل کیا گیا،شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور وحی اللہ کے حکم سے اترتے ہیں اور اسکی برکت شروع رات سے لیکر طلوع فجر تک رہتی ہے۔
رمضان المبارک کے متبرک ماہ کے شب قدر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی عبادت نہیں کرنے کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے علماء کرام شب برأت کے مقابلے میں شب قدر میں شب بیداری کے لیے لوگوں کو زیادہ ترغیب نہیں دیتے ہیں۔ اگر لوگ شب قدر میں بیداری کرتے ہیں تو 27 ویں شب میں زیادہ لوگ عبادت کرتے ہیں کیونکہ پانچ طاق راتوں میں 27 ویں شب کے بارے میں زیادہ گمان کیا جاتا ہے کہ اس رات شب قدر ہے۔ باقی طاق راتوں میں لوگ جاگتے ہیں لیکن نسبتاً کم۔ حنفی مساجد کے مقابلے میں سلفی مساجد میں اہتمام زیادہ کیا جاتا ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ عبادت کر سکیں۔ ہمارے یہاں اہل حدیث کی مسجد میں شب قدر والی راتوں میں تراویح کی نماز عشاء کی نماز کے فوراً بعد کے بجائے دیر رات میں ادا کی جاتی ہے۔
سورہ الدخان آیات نمبر 5-3 میں بھی شب قدر کا ذکر آیا ہے۔ یہاں لیلۃالقدر کی جگہ لَیلَۃٍ مُّبٰرَکَۃِِ استعمال ہوا ہے۔ ترجمہ: ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا ہم تو رستہ دکھانے والے ہیں۔ اسی رات میں تمام حکمت کے کام فیصل کئے جاتے ہیں۔(یعنی) ہمارے ہاں سے حکم ہو کر۔ بیشک ہم ہی (پیغمبر کو) بھیجتے ہیں۔
لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ سے مراد چند ایک مفسر کے علاوہ جمہور مفسرین کے نزدیک شب قدر ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے۔ اس رات کو مبارک فرمانا اس لئے ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر بیشمار خیرات و برکات نازل ہوتی ہیں اور قرآن کریم کا شب قدر میں نازل ہونا قرآن کی سورۃ قدر میں تصریح کے ساتھ آیا ہے۔ (آیت) انا انزلنہ فی لیلۃ القدر، اس سے ظاہر ہوا کہ یہاں بھی لیلۃ مبارکہ سے مراد شب قدر ہی ہے۔ اور ایک حدیث میں رسول اللہؐ سے یہ بھی منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں ابتداء دنیا سے آخر تک اپنے انبیاء (علیہم السلام) پر نازل فرمائی ہیں وہ سب کی سب ماہ رمضان المبارک ہی کی مختلف تاریخوں میں نازل ہوئی ہیں۔
حضرت قتادہ نے بروایت واثلہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ صحف ابراہیم علیہ السلام رمضان کی پہلی تاریخ میں اور تورات رمضان کی چھٹی تاریخ میں، زبور بارہویں میں، انجیل اٹھارویں میں اور قرآن چوبیس تاریخ گزرنے کے بعد یعنی پچیسویں شب میں نازل ہوا۔
قرآن کے شب قدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے پورا قرآن سماء دنیا پر اسی رات میں نازل کردیا گیا تھا۔ پھر تقریباََ23سال کی مدت میں تھوڑا تھوڑا ضرورت کے پیش نظررسول اللہ ؐ پر نازل ہوتا رہا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ہر سال میں جتنا قرآن نازل ہونا مقدر ہوتا تھا اتنا ہی شب قدر میں لوح محفوظ سے سماء دنیا پر نازل کردیا جاتا تھا۔بعض مفسرین عکرمہ وغیرہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اس آیت میں لیلہ مبارکہ سے مراد شب برأت یعنی نصف شعبان کی رات قرار دی ہے مگر اس رات میں نزول قرآن دوسری تمام نصوص قرآن اور روایات حدیث کے خلاف ہے ۔
(آیت) شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن اور انا انزلنا فی لیلۃ القدر جیسی کھلی نصوص کے ہوتے ہوئے بغیر کسی قوی دلیل کے نہیں کہا جاسکتا کہ نزول قرآن شب برأت میں ہوا۔ (آیت) فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ۔ امراً من عندنا یعنی اس رات میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ ہماری طرف سے کیا جاتا ہے جس کے معنی حضرت ابن عباس یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ رات جس میں نزول قرآن ہوا، یعنی شب قدر، اسی میں مخلوقات کے متعلق تمام اہم امور جن کے فیصلے اس سال میں اگلی شب قدر تک واقع ہونے والے ہیں طے کئے جاتے ہیں کہ کون کون اس سال میں پیدا ہوں گے، کون کون آدمی اس میں مریں گے، کس کو کس قدر رزق اس سال میں دیا جائے گا۔ معنی اس کے یہ ہیں کہ یہ تمام فیصلے جو تقدیر الٰہی میں پہلے ہی سے طے شدہ تھے اس رات میں متعلقہ فرشتوں کے سپرد کردیئے جاتے ہیں، کیونکہ قرآن و سنت کی دوسری نصوص اس پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلے انسان کی پیدائش سے بھی پہلے ازل ہی میں لکھ دیئے تھے تو اس رات میں ان کے طے کرنے کا حاصل یہی ہوسکتا ہے کہ قضا و قدر کی تنفیذ جن فرشتوں کے ذریعہ ہوتی ہے اس رات میں یہ سالانہ احکام ان کے سپرد کردیئے جاتے ہیں۔
قدر‘‘ کے ایک معنی فیصلہ اور تقدیر کے بھی ہیں۔اس رات کو ’’لیلۃ القدر‘‘ (فیصلہ اور تقدیر کی رات) بھی کہا جاتا ہے؛ کیوں کہ اس رات میں مخلوق کی تقدیر کے متعلق اللہ تبارک و تعالیٰ کے فیصلے فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں؛ فرشتوں کو بتایا جاتا ہے کہ آئندہ سال کس کی پیدائش ہوگی، کس کا انتقال ہوگا اور کس کو کتنا رزق ملے گا۔ روایت کے مطابق فرشتوں کو لیلۃ القدر میں مخلوق کی تقدیر کی خبر دی جاتی ہے۔ جاننا چاہیے کہ یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں۔بعض علماء نے دونوں کے درمیان تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ پندرہویں شعبان جس کو لیلۃ البرائت کہا جاتا ہے اس میں آئندہ سال کے پیش آنے والے امور کے متعلق فیصلے کیے جاتے ہیں کہ کون زندہ رہیگا، کس کی وفات ہوگی، کس کو کتنا رزق ملے گا اور کس کو حج اور عمرہ وغیرہ کی توفیق ملے گی۔

 

 

اس قسم کے سارے امور جو مخلوق کے متعلق ہیں وہ شبِ برأت میں طے کیے جاتے ہیں اور فرشتوں کو ان کی خبر دی جاتی ہے۔اس کے بعد یہ سارے طے شدہ فیصلے لیلۃ القدر (شبِ قدر) میں فرشتوں کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں؛ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور آئندہ سال میں پورا کریں۔اس مبارک شب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک مزید فضل و کرم یہ ہوتا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تمام فرشتوں کے ساتھ سدرۃ المنتہیٰ سے دنیا میں اُترتے ہیں۔

 

 

سدرۃ المنتہیٰ سے مراد وہ آخری مقام ہے آسمانوں میں جہاں تک فرشتوں کی رسائی ہوتی ہے۔ اس مبارک شب میں جب حضرت جبرئیل علیہ السلام اور دوسرے فرشتے دنیا میں تشریف لاتے ہیں، تو ہر مسلمان مرد اور عورت کو سلام کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ تمام فرشتے، جو سدرۃ المنتہیٰ پر رہتے ہیں، وہ سب کے سب حضرت جبرئیل علیہ السلام کی معیّت میں آسمانوں سے زمین پر اُترتے ہیں اور ہر مسلمان مرد اور عورت کو سلام کرتے ہیں؛ لیکن وہ شرابی اور خنزیر کا گوشت کھانے والے کو سلام نہیں کرتے ہیں۔‘‘جو لوگ اس بابرکت رات میں عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔
یقیناً وہ سعادت مند اور خوش نصیب لوگ ہیں، کیوں کہ آسمان سے اُترنے والے فرشتے ان کے لیے رحمت کی دُعا کرتے ہیں اور ان کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ سے خصوصی فضل وکرم کی دُعا کرتے ہیں اور اس مبارک شب میں جو لوگ عبادت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے تمام چھوٹے بڑے گناہوں کو اپنے فضل وکرم اور بے انتہارحمت ومغفرت کے صد قے میں بخش دیتاہے۔(انشاء اللہ)

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS