کولکاتا:بارش اور حکومت کی غفلت کا طوفان

0

کولکاتا ایک بار پھر اپنے ہی نظام کی بے بسی اور ناقص انتظامی تدبیروں کے بوجھ تلے ڈوب گیا۔ پیر کی شب سے منگل کی صبح تک ہونے والی طوفانی بارش نے شہر کو اس طرح بے حال کر دیا کہ نہ ٹرینیں چل سکیں،نہ پروازیں وقت سے اڑ سکیں،نہ ہی عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم ہوسکیں۔ علی پور محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں شہر پر 251.4 ملی میٹر بارش برسی،جس میں صرف تین گھنٹوں میں 185.6 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔ ایک گھنٹے میں 98 ملی میٹر بارش ہوئی،یعنی محض دو ملی میٹر مزید ہوتی تو اسے سائنسی اصطلاح میں باضابطہ ’’بادل پھٹنا‘‘ کہا جا سکتا تھا۔ شہر کے شمالی و جنوبی علاقوں میں گھٹنوں سے لے کر سینے تک پانی بھر گیا،شہر کی مختلف کچی آبادیوں کے مکانات مکمل طور پر زیر آب آگئے اور شہری اپنے ہی گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔

یہ اعدادوشمار محض موسمی نادیدگی کی داستان نہیں کہتے بلکہ حکومتی نااہلی اور میونسپل نظام کی کھولی ہوئی قلعی ہیں۔ کولکاتامیونسپل کارپوریشن اور میئر فرہاد حکیم بار بار وہی رٹی رٹائی صفائی پیش کرتے رہے ’’پانی کہاں جائے گا؟ سب کچھ ڈوبا ہوا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ پھر دہائیوں سے وصول کیے جانے والے ٹیکس کہاں گئے؟ وہ ڈرینیج سسٹم کہاں ہے جس کی پالیسی فائلوں اور سرکاری تقاریر میں بلند بانگ تشہیر کی جاتی ہے؟ صدیوں پرانا شہر اگر اب تک ایک موثر نکاسی آب کے نظام سے محروم ہے تو یہ نااہلی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ ممبئی تجاوزات کے باوجود مسلسل کوششوں سے اپنے سسٹم کو بہتر کر رہا ہے،دہلی اربوں روپے کے منصوبے سے مستقبل کی سیلابی مصیبتوں کے مقابلے کیلئے تیار ہو رہی ہے اور کولکاتا میں آج بھی انسان اور معاشرت غفلت اور اعلانوں کے سمندر میں ڈوبے جا رہے ہیں۔

ٹرین سروسز درہم برہم رہیں۔ سیالدہ اور ہوڑہ ڈویژن میں ٹرین لائنوں پر پانی بھر جانے کے باعث نہ صرف لوکل ٹرینیں منسوخ ہوئیں بلکہ وندے بھارت ایکسپریس، شتابدی، بلیک ڈائمنڈ اور گنا دیوتا جیسی اہم ٹرینیں بھی چل نہ سکیں۔ ہوائی اڈے پر بھی یہی حال رہا۔ بین الاقوامی پروازوں کے پائلٹ اور کریو وقت پر ایئرپورٹ پہنچ نہ سکے، نتیجتاً کئی پروازیں منسوخ کرنی پڑیں اور باقی سب تاخیر کا شکار ہوئیں۔

انتباہات کی بار بار پیشگی اطلاع دینے کے باوجود حکومتی مشینری نے کوئی احتیاطی اقدام نہ کیا۔ محکمہ موسمیات پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ شمال مشرقی خلیج بنگال میں ڈپریشن شدت اختیار کرے گا،لیکن نہ نکاسی آب پر کام کیا گیا اور نہ ہی بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو درست کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی۔ یہی غفلت آج درجنوںافراد کی جان لے گئی جن میں سے کئی صرف اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ پانی بھری سڑکوں میں زندہ تاریں بے قابو ہو کر موت کا جال بچھا چکی تھیں۔ شہرنشاط کے شمال سے جنوب تک حسین شاہ روڈ،نیتاجی نگر اور بہالا سے لے کر گڑیاہاٹ تک اموات ہوئیں۔ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کی جانب سے کلکتہ الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (CESC) پر سخت تنقید بجا ہے،مگر سوال یہ ہے کہ اس نجی ادارے کو شہر کی برقی خدمات کا نگران بنانے والی اور اس کی لاپروائی پر برسوں سے آنکھیں موندے رکھنے والی کون سی حکومت ہے؟

مزید شرمناک حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی نظام بھی بارش کے ان گھنٹوں میں مکمل طور پر الٹ پلٹ ہو گیا۔ کلکتہ یونیورسٹی نے اپنے تمام امتحانات منسوخ کر دیے، مگر دیگر مرکزی ادارے بروقت اعلان تک نہ کرسکے اور طلبا کو جان جوکھم میں ڈال کر نکلنا پڑا۔ وزیراعلیٰ نے ریاستی اسکولوں و کالجوں میں پوجا کی تعطیلات قبل از وقت شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر کیا یہ فیصلہ پیشگی تدبیر سے نہیں بلکہ بحران کے بعد عوامی دبائو کے باعث نہ تھا؟

بنگال کا درگا پوجا جیسا بڑاتہوار چند دن بعد آنے والا ہے۔ پنڈال پانی میں ڈوب رہے ہیں،بازار بند ہو چکے ہیں اور کاروباری اربوں کے نقصان کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ عوام کو محض ’’گھروں میں رہنے‘‘ کے مشورے دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ شہری جب صبح سیرامپور، دتاپوکور، بنگائوں یا حسن آباد کے اسٹیشنوں پر کھڑے ٹرینوں کے انتظار میں بے حال ہوں،جب ایئرپورٹ کے اندر پانی جمع ہواور جب وارڈوں کی بستیوں کے مکین اپنی چھتوں پر رات گزارنے پر مجبور ہوں، تب یہ محض بارش نہیں کہلاتی، یہ انتظامی ناکامی کا خونی استعارہ ہے۔

اس وقت جب پورا ہندوستان جدید شہریت،تقاضوں اور ترقیاتی خوابوں کی بات کر رہا ہے،کولکاتا ایک زخمی شہر کی طرح اپنی قسمت پر نوحہ کناں ہے۔ نہ جدید نظام،نہ فعال میئر،نہ عوام دوست داستاں۔ وقتی اعلانات اور عارضی چھٹیاں حقیقی حل نہیں بن سکتیں۔ جب تک کولکاتا اپنے شہری فنڈز و ریاستی صلاحیت کو جدید نکاسی آب اور بنیادی ڈھانچے پر سنجیدہ، عملی اور بروقت استعمال نہیں کرتا ہر بارش، ہر سیلاب اور ہر تہوار میں بے بسی، اموات اور اجتماعی بحران اس شہر،اس میئر اور اس حکومت کا مقدر بنا رہے گا۔
یہ وقت احتساب کا ہے، میئر کی مسلسل بے حسی پر شہریوں کو سوال اٹھانا ہوگا کہ آخر کب تک کولکاتا محض ہنگامی بیانات،وقت پر نہ آنے والے نوٹیفکیشنز اور بندوق سی ای ایس سی کے کندھوں پر رکھ کر چلا دی جانے والی باتوں پر اکتفا کرے گا۔ اصل ذمہ داری حکومت کی ہے جو نہ نکاسی آب نظام بہتر کر سکی،نہ برقی ڈھانچے کو جدید کر سکی اور نہ بار بار آنے والے قدرتی بحرانوں سے سبق سیکھ سکی۔ کولکاتا بارش میں ڈوبا صرف ایک شہر نہیں رہا بلکہ یہ ان تمام جھوٹے وعدوں کی لاش بن چکا ہے جو برسوں عوام کے سامنے دہرائے جاتے رہے ہیں۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS