41 سال بعد ہندوستانی ہاکی ٹیم کا اولمپکس میں کوئی تمغہ جیتنا ایک تاریخی واقعہ اور ہم ہندوستانیوں کیلئے بجا طورپر باعث افتخار بھی ہے۔ اولمپکس میں ہندوستان کی ہاکی ٹیم کو اس سے قبل 1980میں آخری تمغہ ماسکومیں ملا تھا جب واسو دیون بھاسکرن کی کپتانی میں ٹیم نے گولڈ جیتا تھا۔40برسوں کی قحط سامانی کے بعد ہندوستان کوہاکی میں کانسہ جیتنے کی خوشی ایسی نہیں ہے کہ اسے بس ایک وقتی لمحہ مسرت سمجھ کر اس سے گزر جایاجائے۔یہ ہندوستان کی کھیل کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ثبت رہ جانے والا واقعہ ہے۔ ہندوستان کو اب تک کی تاریخ میں تیسری بار کانسہ میڈل ملا ہے۔ اس سے پہلے 1968 میں میکسیکو سٹی اور1972کے میونخ گیمز میں ہندوستان نے کانسہ کے تمغے جیتے تھے۔ ہندوستان نے اولمپکس میں سب سے زیاد ہ میڈل مینس ہاکی میں جیتے تھے۔ ہندوستانی ٹیم نے1928،1932، 1936، 1948، 1952، 1964 اور 1980میں اولمپک گولڈ میڈل جیتا تھا۔ 1960 میں سلور اور 1968، 1972 اور 2021 (ٹوکیو اولمپک 2020) میں کانسہ کا تمغہ جیتا ہے۔
ٹوکیو اولمپک میں ہندوستانی ٹیم کے مظاہرہ سے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہندوستانی ہاکی ٹیم 1980کے بعد ایک بار پھر سے نمایاں ہوگئی ہے۔ٹیم کی محنت، عزم و استقامت اور حوصلہ مندی پر چہار جانب سے ستائش کے ڈونگرے تو برسائے ہی جارہے ہیں مگر مرکزی حکومت نے اس جیت کے اگلے دن راجیو گاندھی کھیل رتن کا نام بد ل کر میجر دھیان چند کھیل رتن ایوارڈ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس سے جیت کی مسرت دوبالا ہوگئی ہے۔
مرکزی حکومت کے اس فیصلہ کا کھیل کی دنیا نے کشادہ دلی سے خیرمقدم کرتے ہوئے ہاکی کو فروغ دینے اور اس پر اپنا دبدبہ قائم رکھنے کی سمت ایک مثبت پہل بتایا ہے۔کھیل رتن ایوارڈ کے تبدیلی نام کا اعلان خود وزیراعظم نے کیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ملک کا سر فخر سے بلند کرنے والے ان لمحات کے درمیان بہت سے ہم وطنوں کی درخواست بھی سامنے آئی تھی کہ کھیل رتن ایوارڈ کو میجر دھیان چند سے موسوم کیاجاناچاہیے۔ اس لیے شہریوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے کھیل رتن ا یوارڈ اب میجر دھیان چند کھیل رتن ایوارڈ کہلائے گا۔حکومت کا یہ فیصلہ بلاشبہ قابل ستائش ہے اور ہندوستانی ہاکی کے تئیں اس کے احترام کا مظہر بھی ہے۔لیکن حکومت کے اس فیصلہ سے ایک نیاتنازع بھی کھڑا ہوگیا ہے اور وہ تنازع ہے کوئی عملی مدد کیے بغیر صرف ایوارڈ کا نام بدل کر جیت کا سہرااپنے سرسجانا۔
میجر دھیان چند درحقیقت ہاکی کے جادو گر تھے اور دنیا بھر میں ان کے کھیل کو احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔ ہاکی میں عالمی سطح پر ہندوستان کی بالادستی میجر دھیان چند کی ہی مرہون منت ہے اور ان کی وجہ سے ہی ہندوستان کو 1928، 1932اور1936کے اولمپکس کھیلوں میں طلائی تمغے ملے تھے۔بلاشبہ میجر دھیان چند نے اپنے غیر معمولی کھیل سے عالمی اسٹیج پر ہندوستان کو ایک نئی پہچان دی تھی اور بے شمار کھلاڑیوں کیلئے وہ ایک مثالی شخصیت اور تحریک بن گئے تھے، ان کے نام پر کھیل کا ایوارڈ ہوناہی چاہیے تھا لیکن اس کیلئے یہ کوئی ضروری نہیں تھا کہ کسی موجودہ ایوارڈ کا نام بدل کر ان کے نام پر کیاجائے۔ حکومت اگر ہاکی کو عزت و توقیر ہی بخشنا چاہتی تھی تو وہ میجر دھیان چند کے نام سے نیا ا ور زیادہ باوقار ایوارڈ شروع کرسکتی تھی لیکن اس نے راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدل کر ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلا مقصد تو یہی ہے کہ اولمپکس میںجیت کا کریڈٹ خود اپنے نام کرے حالانکہ ہاکی میں ہوئی اس قابل فخر جیت میں مرکز کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔اس کے برخلاف محکمہ کھیل کود کیلئے مختص2826.92کروڑ روپے کے بجٹ میں سے 230.78 کروڑ کی کٹوتی کردی گئی اور کھیلو انڈیا کا بجٹ بھی 890.42کروڑ روپے سے کم کرکے660.41کروڑ روپے کردیاگیاہے۔
اولمپکس میں ہوئی اس جیت میں کھلاڑیوں کے عزم و حوصلہ کے علاوہ اگر کسی کا کوئی حصہ ہے تو وہ ریاست اڑیسہ اور اس کے وزیراعلیٰ نوین پٹنائک کا ہے جنہوں نے ٹیم کو نہ صرف اسپانسر کیا بلکہ اسے کھیل کے میدان، کھیل کے آلات سے لے کر مشق تک کی سبھی سہولتیں بہم پہنچائیں۔اڑیسہ نے 2018میں ہندوستانی ہاکی ٹیم کو اسپانسر کرنے کی ذمہ داری لی تھی اور ٹیم کی مالی مدد سے لے کر انتظامی اور لاجسٹک دشواریوں کو بھی دور کیا۔ٹیم کو اس مقام پر پہنچایا کہ آج وہ عالمی سطح پر ہندوستان کیلئے وجہ فخربن پائی ہے۔ لیکن مرکز صرف کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدل کر جیت کا سہرا اپنے سر سجانا چاہتا ہے۔اگر حکومت کو کھیل کود کے فروغ سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو اسے اس کا عملی ثبوت بھی دینا چاہیے، صرف ایوارڈ کا نام بدلنے سے کھیل کا یا ہاکی کابھلا ہونے والا نہیں ہے۔
[email protected]
کھیل رتن ایوارڈ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS