ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کانگریس کا صدارتی انتخاب آخری مرحلہ میں داخل ہوگیا ہے۔ کانگریس نے باضابطہ طورپر تو ووٹروںکی فہرست جاری نہیں کی ہے لیکن دستیاب اعداد وشمار کے مطابق اس انتخاب میں ملک بھر کے تقریباً10ہزار کانگریسی نمائندے 17اکتوبر کو ووٹ ڈالنے والے ہیں۔ان ووٹوں کی گنتی 19 اکتوبر کو ہونی ہے اور اسی دن نتائج کا اعلان بھی کردیاجائے گا۔ عہدۂ صدارت کیلئے 80سالہ ملکارجن کھڑگے اور 66 سال کے ششی تھرور میدان میں ہیں۔ یہ دونوں لیڈران ملک کے مختلف حصوں میں جاکر اے آئی سی سی کے ممبران سے رابطہ کررہے ہیں اور اپنے اپنے حق میں انہیںہموارکرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔
یہ پہلا ایسا موقع ہے کہ جب کانگریس کے صدر کے انتخاب کیلئے اتنی ہنگامہ خیزی دیکھی جارہی ہے۔ورنہ اس سے قبل بھی تین ایسے مواقع آئے تھے جب کانگریس صدر کے عہدہ کیلئے اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے انتخاب کی نوبت آگئی تھی مگر وہ ہنگامہ نہیں تھا جو آج ہے۔ 1996میں تو اس عہدہ کیلئے تین تین امیدوارشرد پوار، راجیش پائلٹ اور سیتارام کیسری کے درمیان مقابلہ ہواتھا اوردوسری بار2000میں سونیا گاندھی کو جتندر پرساد سے مقابلہ کا سامنا کرناپڑا۔ لیکن ان مواقع پر ملک کی سیاست پرگیروا رنگ نہیں چڑھا تھا اور کانگریس ایک مستحکم حیثیت کی حامل تھی۔ اس کے اندرونی اور تنظیمی انتخاب پر ملک کے سیاسی رویہ کا انحصار اس حد تک نہیں تھا جو آج ہے۔ اس بار 2022 میں کانگریس کی حالت بھنور میں پھنسی کشتی جیسی ہوگئی ہے اور وہ اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔
ان حالات میں کانگریس کو ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے جو نہ صرف پارٹی کی سوکھتی رگوںکو ہرا کرسکے بلکہ وہ پارٹی کو ملک کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی لاسکے۔ حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ کانگریس لیڈران چاہے وہ جی23کے باغی ارکان ہوں یا پردیش کانگریس کمیٹی کے سربراہان افہام و تفہیم کے عمل سے گزرتے ہوئے صدر کے عہدہ کیلئے کسی ایک نام پر متفق ہوجاتے لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہوسکا۔ اب کانگریس کی بھنور میںپھنسی کشتی کو نکالنے کیلئے ملکارجن کھڑگے اور ششی تھرور نے اپنی اپنی امیدواری پیش کرکے مقابلہ اورہنگامہ خیزی کا ماحول بنادیا ہے۔اس ہنگامہ خیزی سے کئی ایک افواہیں بھی گردش کررہی ہیںجن میںیہ کہاجارہاہے کہ ملکارجن کھڑگے کو امیدوار کے طورپر سونیا گاندھی نے ہی کھڑا کیا ہے۔کھڑگے دلت طبقہ سے آتے ہیں اور سونیاگاندھی ان پر اثر انداز ہوسکتی ہیں، اس لیے وہ کھڑگے کی درپردہ حمایت کررہی ہیں۔ سونیا گاندھی نہیںچاہتی ہیںکہ ششی تھرور کانگریس کے صدر کا انتخاب جیتیں اور پارٹی پر ان کی گرفت کمزور ہوجائے۔حالانکہ ملکارجن کھڑگے نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے محض افواہ قرار دیااور دعویٰ کیاہے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے انتخابی میدان میںہیں۔
بظاہر کھڑگے کا دعویٰ درست نظرآرہاہے کیوں کہ کانگریس صدر کے انتخاب سے قبل ہی سونیاگاندھی نے کہہ دیا تھا کہ گاندھی خاندان کا کوئی فرد نہ تو الیکشن کا حصہ بنے گا اور نہ ہی کسی کی حمایت کرے گا۔سونیا گاندھی کے اس واضح اعلان کے بعد اگر کانگریس کے ایک حلقہ کی جانب سے اس طرح کی افواہ گردش کررہی ہے تو اس سے یہ سمجھاجاسکتا ہے کہ کانگریس میں اب بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو کھڑگے کی امیدواری سے مطمئن نہیںہے۔
لیکن ان سب کے درمیان ایک اچھی بات یہ ہے کہ اس عہدہ کیلئے دونوں امیدوار ایک دوسرے کی مخالفت کے بجائے پارٹی کو بہتربنانے کے ایجنڈہ پر بات چیت کررہے ہیں اوراپنی اپنی تجویز ووٹروں کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ ملکارجن کھڑگے پارٹی کے پرانے اور سینئر لیڈروںمیں سے ایک ہیںجن کے پاس تجربہ تو بہت ہے لیکن ان کی قیادت میں کانگریس میں تبدیلی کی توقع پوری ہوگی یا نہیں اس پر اشتباہ ہے۔ کھڑگے کا دعویٰ ہے کہ وہ ’ ادے پور سنکلپ یاترا‘ میں پاس ہونے والی قر ار دادجس میں 50 سال سے کم عمر افراد کی تنظیم میں 50 فیصد شرکت کا فیصلہ کیا گیا ہے، کو ترجیحی بنیادوں پر نافذ کریںگے لیکن خود 80 سال کی عمر والے کھڑگے کاصدر کے عہدہ کیلئے میدان انتخاب میںکود پڑنا ان کے اس دعویٰ کو مشکوک بنادیتا ہے۔جب کہ ششی تھرور کو اعلیٰ سطح پرپارٹی کی نمائندگی کا تجربہ ہے۔ پارلیمنٹ سے لے کر اقوام متحدہ میں مندوب کے طور پر بھی انہوں نے اپنی قیادت و سیادت کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ششی تھرور کھڑگے کے مقابلے میں نسبتاً کم عمر بھی ہیں اور ان میں اصلاح کا جذبہ بھی ہے۔کانگریس کو آج جن چیلنجز کا سامنا ہے، اس کیلئے طویل تجربہ کے ساتھ ساتھ ایسی موثر قیادت کی بھی ضرورت ہے جو تنظیمی اصلاحات لانے کی بھی اہل ہو۔اب دیکھنا ہے کہ کانگریسی نمائندے کھڑگے اور تھرورمیں کس کا انتخاب کرتے ہیں۔
[email protected]
کھڑگے-تھرورمقابلہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS