عباس دھالیوال
طویل عرصے سے امریکہ و چین کے تعلقات جس طرح نظر آرہے ہیں انھیں قطعاً خیر سگالی والے رشتے تو نہیں کہہ سکے۔
کووڈ 19- کے بعد سے ان دونوں ممالک کی دشمنی کی خبریں تو جیسے جگ ظاہر ہوتی نظر آ ئیں جب سابق امریکی صدر ٹرمپ نے چین سے اپنے ملک کے رشتوں کو لے کر جس طرح مختلف پریس کانفرنسوں میں گزشتہ سال اپنی برہمی کا اظہار کیا وہ باتیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پھر اس سال جنوری میں جیسے ہی امریکہ میں اقتدار کی منتقلی ہوئی تھی تو ایسا لگا تھا کہ شاید اب دونوں ممالک کے رشتوں پہ جمی برف کچھ پگھلے گی لیکن ایسا نہیں ہو ا یعنی جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد بھی امریکہ-چین تعلقات میں زیادہ پیش رفت ہوتی نظر نہیں آئی،لیکن آج کووڈ کے چلتے جس طرح سے دنیا کے مختلف ممالک معاشی بحران کا شکار ہیں اور اس وبا نے جس طرح دنیا کے کم و بیش سبھی ممالک کی اقتصادیات کو متاثر کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آج نوبت یہ آ گئی ہے کہ ہر ملک دوسرے سے اپنے تعلقات کو لے کر نئی تاریخ رقم کرنے یا یوں کہیں کہ نئی رفتار دینے کے لیے کوشاں نظر آتا ہے تاکہ باہمی تعلقات سے اپنی اپنی تجارت کو بڑھاوا دیتے ہوئے اپنے اپنے ملک کی پٹری سے اتری ہوئی معیشت کو ٹریک پر لاکر دوبارہ سے ترقی یافتہ کاموں میں تیزی لا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں آج مختلف ممالک اپنی پرانی دشمنیاں بھلا کر ایک دوسرے سے نئے رشتے استوار کرنے کے لیے کوشاں نظر آ رہے ہیں۔ ایک نیوز رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ اس ہفتہ متوقع طور پر ایک ورچوئل ملاقات میں بات چیت کرنے والے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سے قبل دونوں ملکوں کے صدور کے درمیان اس آن لائن ملاقات کا فیصلہ اکتوبر میں کیا گیا تھا جب امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون اور چین کے اعلیٰ ترین سفارتکار یانگ جیچی نے زیورخ میں باہمی تعلقات پر بات چیت کی تھی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن اور صدر شی جن پنگ میں ورچوئل ملاقات کا فیصلہ اس کوشش کا حصہ ہے جس کے ذریعہ دونوں ممالک کو تجارتی، عسکری اور دوسرے معاملات پر تنازعات کی طرف جانے سے بچانا ہے، جبکہ رائٹرز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہائٹ ہاوس نے اس میٹنگ پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ادھر سی این این کے مطابق، امریکی نمائندہ خصوصی برائے ماحولیات جان کیری نے گزشتہ ہفتہ کہا تھا کہ ان کی ٹیم مستقبل میں عالمی رہنماؤں کی ہونے والی ملاقات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
اس حوالے سے بیجنگ میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن کے حوالے سے بلومبرگ خبر رساں ایجنسی کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ دونوں اطراف سے ریاست کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے سلسلے میں قریبی روابط ہیں، جبکہ ایک امریکی اہلکار کے مطابق، صدر جو بائیڈن اور صدر شی جن پنگ نے آخری بار 9 ستمبر کو ایک دوسرے سے گفتگو کی تھی، جس کے دوران انھوں نے اقتصادی، ماحولیاتی اور کووڈ19-کے معاملات پر بات چیت کی تھی۔
دوسری طرف خبررساں ایجنسی ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘کے مطابق ایپیک کے 21 رکن ممالک معاشی مسائل پر گفتگو کریں گے۔ ادھر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈن کے مطابق اس برس فورم کا ایجنڈا کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے راستے تلاش کرنا ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ ایپیک فورم کے رکن ممالک کی کل آبادی تین ارب افراد پر مشتمل ہے اور یہ ممالک دنیا کا 60 فی صد جی ڈی پی رکھتے ہیں،جس کا دائرہ چلی سے روس، اور تھائی لینڈ سے آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے۔
فورم کی سینئر آفیشل میٹنگ کے چیئرمین وینگیلس ویٹالس نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایپیک کے ممبر ممالک نے ویکسین، ماسک اور کئی طرح کی طبی مصنوعات پر سرحدی پابندیاں اور کئی طرح کے محصول ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے جو ان کے مطابق کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں بہت اہم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بڑی طاقتوں کے مابین کشیدگی ایپیک کے بند کمروں کی میٹنگ پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
ایک اقتصادی فورم کے طور پر اس کا ہانگ کانگ، تائیوان اور چین بھی حصہ ہیں۔ تائیوان اور چین نے اس تجارتی گروپ کا حصہ بننے کی درخواست کر رکھی ہے۔ جب کہ بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ تائیوان کی اس فورم میں داخلے کی مخالفت کرے گا کیونکہ چین کے مطابق تائیوان اس بات سے انکار کرتا ہے کہ وہ چین کا حصہ ہے۔ ادھر ایک نیوز رپورٹ میں آکلینڈ یونی ورسٹی کے سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اسٹیفن ہوڈلے نے کہا ہے کہ بائیڈن اپنے پیش رو ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ’امریکہ فرسٹ‘پالیسی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب سے بائیڈن نے صدارت کا منصب سنبھالا ہے، امریکہ کی ترجیح بین الاقوامی تعلقات کو درست کرنے اور تجارتی اعتدال پسندی کی جانب واپس جا چکی ہے جس میں بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کی حمایت شامل ہے۔تاہم بائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی برآمدات اور کمپنیوں پر تجارتی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری پر عائد کردہ زیادہ تر پابندیوں کو جاری رکھا ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں چین مخالفت پر مبنی پالیسیوں پر بھی کام جاری ہے۔
دریں اثناایسی ہی ایک پیش رفت گزشتہ دنوں اس وقت سامنے آئی تھی جب امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے جوہری آبدوزوں کے معاہدے کا اعلان کیا جس پر خطے میں کئی ممالک کی جانب سے چہ میگوئیاں سامنے آئیں کیونکہ اس معاہدے میں نیوزی لینڈ کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی نیوزی لینڈ کا ہمیشہ سے جوہری ہتھیاروں کے خلاف موقف رہا ہے۔
ہوڈلے کے مطابق امریکہ اور چین کے مابین مسابقت کو اس خطے کے نام میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ چین اس خطے کو ایشیا پیسفک جب کہ امریکہ انڈو پیسفک کہتا ہے۔ امریکہ اس خطے میں چین کے مقابلے میں ہندوستان کو شامل کرنا چاہتا ہے جو اس تنظیم کا حصہ نہیں ہے۔کورونا وائرس کی عالمی وبا نے خطے کے ممالک کو متاثر کیا ہے جو دنیا کی معیشت کے لیے انجن کی حیثیت رکھتے ہیں۔2020 میں کورونا سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے ابھی تک کئی ممالک نبرد آزما ہیں جب کہ لاکھوں افراد غربت کا شکار ہوئے ہیں۔مجموعی طور پرموجودہ دور میں جس طرح سے مختلف ممالک اپنے تمام تر اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مفادات کے حصول کیلئے الگ الگ ملکوں سے رشتے استوار کرنے میں مصروف ہیں اس کو دیکھتے ہوئے کسی استاد شاعر کا یہ شعرنہ جانے کیوں ذہن میں آجاتا ہے کہ
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے…!
[email protected]