عباس دھالیوال
معروف شاعر ندا فاضلی نے ایک بار کہا تھا:
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے
مذکورہ شعر ذہن میں اس وقت آگیا جب امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن اور روس کے صدر پوتن کی جنیوا میں ملاقات کے سلسلے میں ایک رپورٹ دیکھی۔ دونوں ملکوں کے بنتے بگڑتے رشتوں کی تاریخ کا مشاہدہ کریں تو امریکہ کے ساتھ سوویت یونین کئی دہائیوں تک عالمی طاقت تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ان دونوں عالمی قوتوں اور ان سے وابستہ اتحادیوں کے درمیان 1940 سے 1990 تک جاری رہنے والے تنازع، تناؤ اور مقابلے کو دنیا کے لوگ سرد جنگ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور روس کے درمیان براہ راست جنگ کبھی نہیں ہوئی لیکن عالمی سطح پر اپنا دائرۂ اثر پھیلانے کے لیے ایک سیاسی یا کہہ لیں کہ سفارتی جنگ تھی۔ بے شک دونوں ممالک کے درمیان یہ سرد جنگ کسی سے پوشیدہ نہیں تھی۔ تاریخ اگر دیکھی جائے تو امریکہ اور سوویت یونین دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف متحد تھے لیکن بعد از جنگ تعمیر نو کے حوالے سے ان کے نظریات بالکل جدا تھے۔ دریں اثنا کئی مرتبہ ایسے تنازعات پیدا ہوئے جو دنیا کو عالمی جنگ کے دہانے پر لے آئے جن میں برلن ناکہ بندی (1948تا 1949)، جنگ کوریا (1950تا 1953)، جنگ ویتنام (1959 تا 1975)، کیوبن میزائل بحران (1962) اور سوویت افغان جنگ (1979تا 1989) قابل ذکر ہیں جبکہ تاریخ کی نظروں نے ایسے ادوار بھی دیکھے جن میں دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی واقع ہوئی۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں سرد جنگ اس وقت اختتام پزیر ہونے لگی تھی جب سوویت رہنما میخائل گورباچوف نے امریکی صدر رونالڈ ریگن سے متعدد ملاقاتیں کیں اور اپنے ملک میں اصلاحاتی منصوبہ جات کا اعلان کیا۔ اس دوران روس مشرقی یوروپ میں اپنی قوت کھوتا رہا اور بالآخر 1991 میں وہ بکھر گیا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے امریکہ اور روس کے درمیان حالات ایک بار پھر کشیدگی اختیار کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ یہاں تک کہ اب امریکہ اور روس کے سفارتی تعلقات کم ترین سطح پر ہیں اور دونوں ممالک میں سے کسی کا بھی سفیر دوسرے ملک میں موجود نہیں ہے۔ روس نے تو حال ہی میں امریکہ کو ’غیر دوستانہ‘ ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اب پوتن اور بائیڈن نے جہاں ملاقات کی ہے، وہ جگہ ایک تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 1985 میں سرد جنگ جب عروج پر تھی تو امریکی صدر رونالڈ ریگن اور سوویت یونین کے رہنما میخائل گورباچوف کی جنیوا میں ملاقات ہوئی تھی۔ گزشتہ 16 جون کو ایک بار پھر اسی جگہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ملاقات ہوئی جس کے بعد دونوں صدور نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اس ملاقات کو معنی خیز قرار دیا ہے۔ اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ’تناؤ سے بھرپور عرصے میں بھی‘ مشترکہ مقاصد کے حصول میں پیش رفت کر سکتے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے صدور کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ روس اور امریکہ کے تعاون سے آپسی تنازعات اور جوہری جنگ کے خدشے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
امریکی صدر نے اس موقع پر پریس کانفرنس میں جو کہا، وہ اپنے آپ میں کافی معنی خیز تھا۔ بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہیں، روس کے خلاف نہیں۔ ’جہاں کہیں بھی اختلافات ہیں، وہاں میں چاہوں گا کہ صدر پوتن سمجھیں کہ میں جو کہتا ہوں، وہ کیوں کہتا ہوں اور جو کرتا ہوں، وہ کیوں کرتا ہوں۔ میں نے صدر پوتن کو بتایا ہے کہ میرا ایجنڈا روس یا کسی اور کے خلاف نہیں بلکہ امریکی عوام کے حق میں ہے۔‘ ملاقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ تعلقات میں ’استحکام‘ اور ’غیریقینی‘ کی فضا کو ختم کرنے کے لیے اس ملاقات کی اہمیت ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے روس کے سرکاری ٹی وی کو بتایا ہے کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔
’جہاں کہیں بھی اختلافات ہیں، وہاں میں چاہوں گا کہ صدر پوتن سمجھیں کہ میں جو کہتا ہوں، وہ کیوں کہتا ہوں اور جو کرتا ہوں، وہ کیوں کرتا ہوں۔ میں نے صدر پوتن کو بتایا ہے کہ میرا ایجنڈا روس یا کسی اور کے خلاف نہیں بلکہ امریکی عوام کے حق میں ہے۔‘ ملاقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ تعلقات میں ’استحکام‘ اور ’غیر یقینی‘ کی فضا کو ختم کرنے کے لیے اس ملاقات کی اہمیت ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ادھر روسی صدر کے خارجہ امور کے مشیر یوری اشاکوف نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’پرامید‘ رہنے کی زیادہ گنجائش نہیں۔ اسی طرح جب ایک سینئر امریکی اہلکار سے پوچھا گیا کہ آیا صدر بائیڈن اور روسی صدر مل کر کھانا کھائیں گے تو امریکی اہلکار نے بتایا کہ ایسا نہیں ہو گا۔ ادھر صدر پوتن کا کہنا تھا کہ روس نے امریکہ کو مبینہ سائبر حملوں کے متعلق ’تفصیلی معلومات فراہم‘ کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اب تک اس پر جواب نہیں دیا ہے جبکہ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اور صدر بائیڈن سائبر سیکورٹی پر ’بحث کے لیے پرعزم‘ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سائبر سیکورٹی دونوں ممالک کے لیے اہم ہے اور انہوں نے حال ہی میں امریکہ میں تیل کے ایک پائپ لائن سسٹم اور روس میں ایک طبی نظام پر سائبر حملے کی جانب اشارہ کیا۔
روسی صدر پوتن نے امریکہ میں اسلحے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کے لیے امریکی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ ’ہمارے ملک میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کے ذمہ دار لیڈر خود ہوتے ہیں۔ آپ امریکہ کی سڑکوں کو دیکھیں، روز لوگ مرتے ہیں۔ آپ منہ بھی نہیں کھول پاتے کہ آپ کو گولی مار دی جاتی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’دنیا بھر میں سی آئی اے کے خفیہ عقوبت خانوں میں لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ کیا ایسے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے؟‘اس کے ساتھ ہی پوتن کا کہنا تھا کہ ’جو بائیڈن تجربہ کار سیاستداں ہیں۔‘ اور یہ بھی کہا کہ ’وہ صدر ٹرمپ سے بہت مختلف ہیں۔‘
اگر امریکہ اور روس کے نظریات کی بات کریں تو ان دونوں میں اب بھی بہت تضاد پایا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ان دونوں میں سرد جنگ والے حالات اب بھی جوں کے توں بنے ہوئے گاہے بگاہے نظر آجاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ اسرائیل- فلسطینی تنازع کو ہی اگر لیں تو جہاں امریکہ اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرتے ہوئے نظر آیا وہیں روس اسرائیلی جارحیت کے خلاف ترکی اور چین کے ہمراہ کھڑا نظر آیا۔ سیاسی ماہرین کی مانیں تو بائیڈن- پوتن ملاقات میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں فی الحال کوئی نیا موڑ آنے والا نہیں ہے اور نہ ہی دونوں ملکوں کی عداوتیں ختم ہونے والی ہیں لیکن یہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے لیے موقع ہے کہ وہ آمنے سامنے بیٹھ کر کھلے ذہن اور دل کے ساتھ اپنے خدشات پر بات چیت کر سکیں اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے میں مثبت رول ادا کریں۔
[email protected]