سرینگر:صریرخالد،ایس این بی
وادیٔ کشمیر میں مرحلہ وار بنیادوں پر لاک ڈاون ختم اور دکانیں کھل تو گئی ہیں لیکن بازار کا حال بے حال ہے۔راجدھانی سرینگر کے بازاروں میں کوئی جوش و خروش ہے اور نہ ہی خریداروں کا کوئی رش،بلکہ صورتحال یہ ہے کہ بعض دکاندار پورا دن بیکار پڑے رہتے ہیں۔
حالانکہ مہینوں بند پڑے رہنے کے بعد تین روز قبل بازار کھلنے پر کاروبار کے فوری طور بہت زیادہ رفتار پکڑنے کی توقع تو نہیں تھی لیکن خدشات بھی اتنے زیادہ نہیں تھے کہ جو اب پیدا ہورہے ہیں۔ جمعرات کو راجدھانی سرینگر کے کئی بڑے بازاروں کا دورہ کرنے پر روزنامہ راشٹریہ سہارا کی ٹیم نے پایا کہ بیشتر کاروباری گاہکوں کے انتظار میں دن گذار کر مایوس گھر چلے جاتے ہیں۔شہر کے قلبی علاقہ لالچوک میں آج ’’اَن لاک شیڈول‘‘ کے تحت نصف دکانیں بند تھیں اور جو نصف اپنی باری پر کھلی ہوئی تھیں وہ بیکار تھیں۔گاڑیوں کے کل پرزوں اور آرائشی سامان کیلئے خاص مائسمہ بازار میں جیسا مایوسی کا راج تھا اور ان دکانوں کے سامنے شاذو نادر ہی کوئی گاہک تھا کہ جنکے باہر عام حالات میں قطاریں لگی رہتی تھیں۔ یہاں کے ایک دکاندار نے کہا ’’بازار کھل تو گئے ہیں لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ صورتحال کیا ہے،آج تیسرا دن ہے اور میں نے کوئی سامان نہیں بیچا ہے‘‘۔ بشیر احمد نامی ایک اور دکاندار نے کہا ’’ایک لمبے عرصۃ تک سب بند رہا اور اس دوران کمائی صفر رہی جبکہ خرچہ کئی گنا بڑھ گیا تھا،ایسے میں ہمیں کاروبار پر منفی اثرات کا اندازہ تو تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں‘‘۔
شادی بیاہ کے سامان اور اشیائے خوردنی کے کاروبار کیلئے اپنی پہچان رکھنے والے مہاراجی بازار کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ یہاں کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ چونکہ ابھی کشمیر میں شادیوں کا سیزن ہے،وہ پورا دن ہی نہیں رات رات بھر مصروف رہا کرتے تھے لیکن اب کے کوئی کام نہیں ہے۔ نصیر احمد نامی ایک دکاندار نے بتایا ’’ایک تو بیماری کی وجہ سے شادیاں منسوخ یا مختصر ہوگئیں اور دوسرا یہ کہ لوگوں کی قوتِ خرید پر زبردست چوٹ پڑی ہے۔جہاں ہم عام حالات میں لاکھوں روپے کا کاروبار کرتے تھے وہیں آج پورا دن مشکل سے چند ہزار روپے کی خروید و فروخت ہو رہی ہے ۔یہاں کے ایک کریانہ فروش نے کہا ’’کھانے پینے کا سامان چونکہ ایک اہم ضرورت ہے لہٰذا اسکا کچھ نہ کچھ کام ہے،باقی ساری چیزیں ٹھپ ہیں‘‘۔ وہ تاہم کہتے ہیں ’’کشمیریوں کی چونکہ گھروں میں اسٹاک موجود رکھنے کی عادت رہی ہے لہٰذا وہ ایک ساتھ کافی سامان خریدا کرتے تھے لیکن اب یہ سب نہیں ہے۔میں ایک خاص تبدیلی یہ دیکھ رہا ہوں کہ لوگ مقابلتاََ کم سامان خرید رہے ہیں جسکی ظاہر وجہ یہ ہے کہ انکے پاس پیسہ نہیں ہے‘‘۔
تاجروں کی ایک انجمن کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینوفیکچررس فیڈریشن کے صدر یٰسین خان کہتے ہیں کہ سارا کاروبار ٹھپ پڑا ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ انہیں کئی علاقوں سے بتایا گیا ہے کہ بعض دکاندار پوری طرح بیکار بیٹھے ہیں۔انہوں نے کہا ’’کئی جگہوں پر تو دکانداروں کیلئے ایک روپیہ کا کاروبار تک ممکن نہیں ہورہا ہے،سارا کاروبار ٹھپ ہے اور ہماری برادری کیلئے بہت مایوسی ہے‘‘۔ایک اور تاجر لیڈر کا کہنا ہے کہ جب تک سرکار بازار میں نئی جان ڈالنے کیلئے کوئی خاص تدبیر نہ کرے اور لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ نہ دے تب تک حالات بدلنے کا امکان نہیں ہے۔
وادیٔ کشمیر میں گذشتہ سال 5 اگست، جب مرکزی سرکار نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے علاوہ سابق ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کردیا تھا،سے ہی بازار بند رہے ہیں کیونکہ پہلے اپنی نوعیت کے اس سرکاری فیصلے پر متوقع عوامی احتجاج کو روکنے کیلئے مہینوں کرفیو لگائے رکھا گیا اور پھر کووِڈ 19-کی وجہ سے لاک ڈاون ہوگیا۔ان حالات میں سیاحتی اور میوے کی صنعتیں بہت برباد ہوگئیں اور ان دو صنعتوں کے ساتھ کافی لوگوں کا روزگار وابستہ ہونے کی وجہ سے انکی اقتصادی حالت بھی تباہ ہوگئی۔اتنا ہی نہیں بلکہ پہلے انٹرنیٹ کے مہینوں پوری طرح بند رہنے اور اب اسکے ٹو جی کی سُست رفتار کے ساتھ جاری ہونے کی وجہ سے وہ سبھی کاروبار بھی تقریباََ بند ہوچکے ہیں کہ جو انٹرنیٹ پر منحصر ہیں۔
کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ معیشت کے ایک استاد نے ، انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا ’’قریب ایک سال سے سب کچھ بند پڑا ہے،کاروبار،مزدوری،روزگار کے سارے ذڑائع بند ہیں اور ایسے میں یہ سوچنا بھی غلط ہے کہ لوگوں کے پاس خریداری کیلئے پیسہ ہوسکتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں لوگوں کیلئے اولین ترجیح کھانے پینے اور ادویات وغیرہ کو ہے اور جب تک سرکار کوئی خاص اقدام کرتے ہوئے لوگوں میں زندہ رہنے اور اپنے شوق پورا کرنے کی چاہت نہ جگائے تب تک بازار کا حال بدلنے والا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’جیسا کہ سبھی ماہرین کا مشورہ ہے جب تک سرکار لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ نہیں تھمائے گی تب تک حالات نہیں بدل سکتے۔دراصل لوگوں کے اذہان و قلوب پر غالب مایوسی کو دور کرنے اور پیسے کی فراوانی بڑھانے کی ضرورت ہے،تب ہی بازار بھی سجیں گے اور لوگ کما بھی سکیں گے‘‘۔