سرینگر:صریر خالد،ایس این بی
پارلیمنٹ ہاوس کے قرب و جوار میں ’’مشکوک حالات میں گھومنے‘‘ کی پاداش میں گرفتار کئے گئے کشمیری نوجوان کے لواحقین کا دعویٰ ہے کہ انکا بیٹا کوئی مجرم نہیں بلکہ ایک چھوٹا کاروباری ہے۔انکا دعویٰ ہے کہ دلی کے کسی بیوپاری نے مذکورہ کی بڑی رقم دبا کر انہیں دھوکہ دیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اسی وجہ سے پریشان ہوں اور ادھر ادھر بھٹکتے رہے ہوں اور اب جبکہ پکڑے گئے ہیں وہ مبہم بیانات دیتے ہوں۔
وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع میں منظور احمد آہنگر کی والدہ نے کہا کہ انہیں انکے بیٹے کے دلی میں گرفتار کئے جانے پر حیرت بھی ہے اور وہ بہت زیادہ پریشان بھی ہیں۔ انتہائی پریشانی کے عالم میں انہوں نے کہا ’’میرا بیٹا کوئی ملی ٹنٹ نہیں ہے آپ پورے علاقے میں معلوم کرسکتے ہیں کہ وہ ایک عام نوجوان ہے‘‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منظور کووِڈ19- سے متعلق لاک ڈاون ہونے سے کچھ قبل چند ہی دنوں کیلئے دلی گئے ہوئے تھے اور بعدازاں لاک ڈاون کی وجہ سے واپس نہیں لوٹ سکے تاہم وہ گھر والوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
منظور کی والدہ نے دعویٰ کیا کہ انکے بیٹے کا نئی دلی کے کسی بیوپاری کے ساتھ کاروبار تھا جس نے منظور کو ٹھگ لیا اور انکی بڑی رقم دبا لی جسکے تقاضا کرنے کیلئے وہ دلی چلے گئے تھے۔ انہوں نے کہا ’’وہ بچہ ہے،دلی کے کسی ڈاکو نے اسکی بڑی رقم ٹھگ لی ہے اور اسی کا تقاضا کرنے کیلئے وہ دلی گیا ہوا تھا۔وہاں اسے پتہ چلا ہے کہ وہ شخص اور بھی کئی لوگوں کے ساتھ ٹھگی کرچکا ہے اور اسکا کہیں کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔چونکہ میرے بیٹے نے مارکیٹ سے قرضہ لیا ہوا ہے اور اب جبکہ اسکی ساری رقم ٹھگی جاچکی ہے ہوسکتا ہے وہ پریشان ہو اور اسی وجہ سے بھٹکتا رہا ہو اور اب جبکہ کہ وہ پکڑا گیا ہے گھبراہٹ کے عالم میں وہ صحیح بیان نہیں دے پا رہا ہو‘‘۔وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو واپس لوٹ آںے کیلئے کہا تھا لیکن انکی ضد تھی کہ وہ دلی میں رہتے ہوئے کوئی کام دھندا ڈھونڈکر پیسہ کماکر اپنا قرضہ اتاریں گے۔
منظور احمد آہنگر نامی نوجوان کو دلی کے وجے چوک سے گرفتار کرنے والی سی آر پی ایف کا الزام ہے کہ مذکورہ کو پارلیمنٹ ہاوس کے آس پاس مشکوک حالت میں گھومتے دیکھا گیا ہے اور اب جبکہ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے وہ ایک بیان پر قائم نہ رہتے ہوئے مختلف بیانات دے رہے ہیں۔انہیں گرفتار کرنے والی فورس نے انکی تحویل سے ایک بیگ ،ایک شناختی کارڈ اور ایک آدھار کارڈ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے جن میں مذکورہ کی الگ الگ شناخت درج ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ بعض میڈیا رپورٹس میں مذخورہ کی تحویل سے ’’کوڈڈ لنگویج‘‘ میں مشکوک تحریر برآمد کئے جانے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں تاہم ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی اس تحریر کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ کسی پیر بابا کی دی ہوئی ’’تعویذ‘‘ ہے جو کئی توہم پرست لوگ اپنی حفاظت یا اپنا کام بننے کیلئے لیکر اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔
گذشتہ کئی برسوں کے دوران دلی اور دیگر ریاستوں میں کتنے ہی کشمیری نوجوانوں کو اسی طرح کے الزامات کے ساتھ گرفتار کیا جاتا رہا ہے تاہم مختلف جیلوں میں برسوں گذارنے کے بعد یہ سبھی نوجوان عدالتوں سے بے گناہی اور رہائی کا پروانہ پاکر گھر لوٹے ہیں۔دلچسپ ہے کہ بنگلہ دیش میں مشہور ماڈل رہ چکے کشمیری نوجوان طارق ڈار کو بھی دلی پولس نے مشکوک حرکات کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور بعدازاں انہیں سال بھر تک تہار جیل میں بند رہنے کے بعد رہائی ملی تھی جبکہ شمالی کشمیر کے ہندوارہ علاقہ کے ایک نوجوان انجینئر کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ہے جو ایروناٹیکل انجینئرنگ مکمل کرنے کے بعد ایک نجی ہواباز کمپنی میں نوکری جوائن کرنے کی غرض سے دلی گئے ہوئے تھے کہ گرفتار ہوئے اور پھر پانچ طویل سال تک تہار جیل میں بند رہے۔
منظور احمد کی والدہ نے بھارت سرکار سے انکے بیٹے پر رحم کھانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ’’وہ معصوم ہے،بچہ ہے، چناچہ جب اسے ٹھگ لیا گیا وہ مایوس ہوگیا اور ہوسکتا ہے کہ حالات نے اسے اتنا پریشان کردیا ہو کہ اسے راستے کا پتہ نہ چلا ہو اور کسی ممنوعہ علاقہ کی جانب نکلا ہو‘‘۔ بڈگام پولس کے ایک افسر نے کہا کہ وہ معاملے کو دیکھ رہے ہیں تاہم ابھی تک مذکورہ شہری کے خلاف کسی بھی پولس تھانے میں کوئی رپورٹ درج نہیں پائی گئی ہے۔انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر انہوں نے کہا ’’ہم اس معاملے کی تحقیقات کرکے یہ دیکھیں گے کہ کہیں مذکورہ نوجوان یہاں پر کسی غیر قانونی کام میں ملوث تو نہیں رہا ہے‘‘۔
دہلی میں گرفتار کشمیری کوئی ملی ٹینٹ نہیں بلکہ ٹھگی کا شکار ہوکر پریشان کاروباری ہے:ماں کا دعویٰ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS