بجبہاڑہ: صریرخالد،ایس این بی
وہ اپنے اکلوتے بچے کو من پسند کپڑے دلانے کیلئے بازار لیکر گئے تھے تاہم خود کو بہت بد نصیب بتانے والے محمد یٰسین کو نہیں معلوم تھا کہ وہ پھول جیسے اپنے اکلوتے بچے کو رنگ برنگی کپڑوں میں نہیں بلکہ سفید کفن میں دیکھنے جارہے ہیں۔
محمد یٰسین کہتے ہیں کہ یہ بات انکے بدترین خوابوں تک میں نہیں تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو مقتل لیکر جارہے ہیں اور نہ ہی انہیں اب تک یقین ہورہا ہے کہ انکی دنیا یوں پلک جھپکنے میں اُجڑ چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں’’میرا تو سب کچھ لُٹ چکا ہے،میرا بیٹا مجھے ویران کرکے چھوڑ گیا ہے‘‘۔
سابق وزیرِ اعلیٰ جموں کشمیر محبوبہ مفتی کے آبائی قصبہ بجبہاڑہ کے ایک مضافاتی گاؤں کے رہائشی محمد یٰسین بٹ بجبہاڑہ کے ایک سرکاری اسکول میں جسمانی تعلیم یا ورزش کے اُستاد ہیں اور پانچ سالہ میہان اُنکے اکلوتے بچے تھے جو جمعہ کے روز بجبہاڑہ میں جنگجوؤں اور سرکاری فورسز کے بیچ ہوئی فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعہ میں سی آر پی ایف کے ایک اہلکار بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔وہ کہتے ہیں ’’میں بازار میں تھا، دھوپ کھلی ہوئی تھی اور سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔میہان نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا کہ اسی دوران اچانک ہی خوفناک فائنرگ شروع ہوگئی۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ فائرنگ کہاں سے ہورہی ہے لیکن سب افراتفری کے عالم میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے‘‘۔ ایک عجیب سے تھکان اور ویران آنکھوں کے ساتھ یٰسین کہتے ہیں ’’سبھی کی طرح ہم بھی بھاگنے لگے،شائد میہان کا ہاتھ چھوٹ گیا،وہ بھاگ نہیں سکا،بھاگتا بھی کیسے بہت چھوٹا جو تھا۔میں نے مُڑ کر اسکی طرف دیکھا تو وہ خون میں غلطاں ہورہا تھا،میں نے حواس باختگی میں مدد کیلئے پکارا اور کسی طرح بچے کو لیکر اسپتال پہنچا تاہم وہاں کچھ ہی دیر ڈاکٹروں نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی اور پھر اسکے دم توڑ دینے کی خبر دیکر گویا مجھ پر بجلی گرادی‘‘۔ یہاں تک کہتے کہتے یٰسین کی ہچکیاں بندھ گئیں اور انہوں نے گلوگیر آواز میں کہا ’’ایک گولی نے میری دنیا اُجاڑ دی،وہ میرا اکلوتا بیٹا تھا،وہ میری دنیا تھا،میں اسکے بغیر زندہ کیسے رہ پاؤں گا‘‘۔
پورے گھر میں غم کا ماحول ہے اور سینہ کوبی کرتی ہوئیں خواتین کے ساتھ ساتھ کئی مرد بھی آنسو بہاتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ معصوم میہان کے ماموں زاد نے نم آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ گولیوں کا شکار ہوچکا میہان خاندان میں سب کا لاڈلا تھا۔وہ کہتے ہیں’’میہان بڑا چنچل اور شوخ بچہ تھا،وہ سب کا لاڈلا تھا اور چونکہ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا لہٰذا وہ بہت لاڈ سے پل رہا تھا‘‘۔
سوگوار خاندان کا کہنا ہے کہ یٰسین نے پہلے پہل میہان کو ساتھ لیجانے سے منع کیا تھا لیکن بچے کی ضد کے آگے ہار مان کر وہ باالآخر مان گئے تھے۔ انکے بھائی شبیر کہتے ہیں ’’کاش اس نے بچے کو ساتھ نہ لیا ہوتا،کسے معلوم تھا کہ وہ اسے انگلی پکڑ کر مقتل کی جانب لئے جارہے ہیں‘‘۔میہان کی ماں اور خاندان کی دیگر کئی خواتین کا حال بُرا تھا اور بڑے جتن کرنے کے باوجود بھی وہ بات کرنے پر آمادہ نہ ہوئیں۔معصوم بچے کی ایک کزن نے کہا ’’دیدی (میہان کی ماں) کا تو بُرا حال ہے،وہ بات نہیں کرسکیں گی ۔میہان ایک من موہ لینے والا بچہ تھا اور اسکے بغیر ہم سب کیلئے جینا بہت مشکل ہوگا‘‘۔ مذکورہ لڑکی نے کہا کہ کووِڈ19- کی بیماری نہ پھیلی ہوتی تو میہان کو اسکول میں درج کرایا گیا ہوتا۔ وہ کہتی ہیں ’’جیسا کہ میں نے کہا یہ بچہ ہم سب کا لاڈلا تھا،ہم چاہتے تھے کہ اسے کسی اچھے اسکول میں داخلہ دلادیں لیکن کیا معلوم تھا کہ ۔۔۔‘‘۔
جمعہ کی دوپہر کو بجبہاڑہ میں نامعلوم جنگجوؤں نے سابق وزیرِ اعلیٰ مفتی سعید کی قبر کے قریبی علاقہ میں سی آر پی ایف کی ایک ٹکڑی پر حملہ بعلدیا تھا جس میں ایک سی آر پی ایف اہلکار ہلاک ہوئے تھے جبکہ گولیوں کی زد میں آکر پانچ سالہ معصوم میہان بھی مارے گئے۔رواں سال کے دوران تشددانہ واقعات میں مارا جانے والا یہ 23 واں عام شہری تھا۔
سوگوار گھر سے نکلتے ہوئے ایک سابق سرکاری استاد غلام قادر سے ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا "جب تک نہ مسٗلہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کرکے قیام امن کو ممکن بنایا جائے کہیں جنگجو،کہیں فورسز اہلکاروں اور کہیں عام شہریوں کی شکل میں انسانیت مرتی ہی رہے گی"۔