سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
وادیٔ کشمیر کے بیشتر علاقوں میں کووِڈ19-کے ڈر سے انتظامیہ نے دوبارہ تالہ بندی کروادی ہے تاہم صورتحال اب بھی گھمبیر ہے۔بعض ڈاکٹروں کی مانیں تو کشمیریوں کی آنے والی ’’تباہی‘‘کیلئے تیار رہنے کیلئے کہا جارہا ہے اور اندازہ ہے کہ اگر حالات نہ بدلے تو پھر محض چند ایک دنوں میں یہ کے اسپتالوں میں کووِڈ19- کے مریضوں کیلئے بسترے کم پڑ جائیں گے۔
کووِڈ19- کے مریضوں کی منیجمنٹ کیلئے سرگرم گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) سے منسلک امراضِ چھاتی کے اسپتال میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں ہے۔یہاں کے سربراہ ڈاکٹر نوید نذیر،جو خود بھی کرونا پازیٹیو ہوکر خوش قسمتی سے روبہ صحت ہوکر دوبارہ سرگرم ہیں،کہتے ہیں ’’حالات اچھے نہیں ہیں،لوگوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنا ہوگی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ انکے یہاں کووِڈ19- مریضوں کیلئے جو 92 بسترے ہیں وہ سب کے سب بھرے پڑے ہیں اور فی الحال مزید گنجائش نہیں ہے۔
وادیٔ کشمیر کے سب سے بڑے شہر اور سابق ریاست جموں کشمیر کی گرمائی راجدھانی میں کووِڈ19- کے نازک مریضوں کے علاج کیلئے چار اسپتال مختص کردئے گئے ہیں جن میں صورہ میڈیکل انسٹیچیوٹ (سکمز) نام کا ٹیریشری کئیر اسپتال بھی شامل ہے۔ یہاں کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر فاروق جان کی مانیں تو صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور اللہ نہ کرے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ انسٹیچیوٹ میں کووِڈ19- کے مریضوں کی بہتر منیجمنٹ کی سبھی سہولیات بہم کرائے جانے کی کوششیں جاری ہیں تاہم انہیں لگتا ہے کہ محض اس ادارے کو ہی نہیں بلکہ سبھی اسپتالوں کو ’’بدترین صورتحال کیلئے تیار‘‘ رہنا ہوگا۔انہوں نے کہا ’’ہمارے یہاں (کووِڈ19- کے مریضوں کیلئے) 165 بسترے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہم مزید 200 بسترے مختص کرسکتے ہیں لیکن اگر حالات بہتر نہیں ہوئے تو ہمیں انتہائی بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔
نظامتِ صحت کشمیر کے صدر دفتر میں ایک افسر نے بتایا کہ گوکہ اس نظامت ،جی ایم سی سرینگر اور سکمز کے اسپتالوں میں مریضوں کو سنبھالنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اگر صورتحال قابو سے باہر ہوگئی تو پھر شائد ہی کوئی کچھ کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’حالانکہ ابھی صورتحال قابو سے باہر تو نہیں ہے تاہم حالات کا رُخ انتہائی خطرناک ہے،جیسا کہ سبھی ماہرین کا کہنا ہے لوگوں کو انتہائی زیادہ احتیاط کرنی چاہیئے تاکہ یہ بیماری بے قابو نہ ہو اور ہمارا سارا نظام بے بس نہ ہوجائے‘‘۔
جموں کشمیر میں منگل کی شام تک کووِڈ19- کے بہانے مرنے والوں کی تعداد 195ہوچکی تھی اور اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ متاثرہ مریضوں کے اسپتال پہنچنے میں دیر ہوتی آرہی ہے ۔ان اعدادوشمار کے مطابق کووِڈ19- کے بہانے مرنے والوں کا 80 فیصد بھرتی کئے جانے کے 24گھنٹوں کے اندر اندر ہی فوت ہوجاتا ہے۔
سرینگر کے ایک سرکردہ ڈاکٹر نے انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا ’’ہمارے یہاں اب بھی کووِڈ19- کے مریضوں کیلئے لازمی وافر سہولیات نہیں ہیں۔ ابھی شکر ہے کہ مریضوں کو اسپتال میں بستر دستیاب ہوتا ہے لیکن اگر خدا نخواستہ بسترے کم پڑ گئے تو سوچئے کہ نتیجہ کیا ہوگا‘‘۔سرینگر کے علاوہ وادی کے مختلف علاقوں میں دو روز قبل دوبارہ لاک ڈاون یا تالہ بندی نافذ کردی گئی ہے اور لوگوں کی نقل و حمل پر پابندی کو مؤثر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔
سرینگر کے ضلع کمشنر کے دفتر نے بتایا ’’جو تفصیلات ماہرین نے پیش کی ہیں انہیں دیکھتے ہوئے لاک ڈاون ناگزیر ہوگیا تھا،میرے خیال میں اگلے دنوں لوگ خود ہی گھروں کے اندر قید ہونے پر مجبور ہوجائیں گے۔خوف کی کوئی بات تو نہیں ہے لیکن چیزیں ٹھیک بھی نہیں ہیں اور جیسا کہ سب کا کہنا احتیاط ہی واحد علاج ہے بلکہ اب تو کئی ماہرین احتیاط اور کووِڈ19- پروٹوکول کی پاسداری کو عارضی ویکسین تک کہنے لگے ہیں‘‘۔