کرتارپور،کرکٹ اور منافقت کی سیاست

0

ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ ایک دوسرے کے خون اور پسینے میں رچی بسی ہے۔ انگریزوں نے کاغذ پر لکیر کھینچی تو دلوں کو بھی چیر دیا،مگر نہ زبانیں بدلیں نہ عقیدے۔ گردوارہ سری کرتارپور صاحب آج بھی اس مشترکہ ورثے کی علامت ہے جہاں گرو نانک دیو نے اپنی زندگی کے آخری ایام بسر کیے اور سکھ مت کے بنیادی اصولوں کو عملی صورت دی۔ لیکن موجودہ ہندوستانی حکومت نے 12 ستمبر کو وزارت داخلہ کی ایک ایڈوائزری کے ذریعے اعلان کر دیا کہ نومبر 2025 میں پرکاش پرو پر سکھ یاتری پاکستان نہیں جا سکیں گے۔ یہ فیصلہ اس وقت آیا جب صرف دو دن بعد،14 ستمبر کو،پاکستان کے خلاف ایشیا کپ کا میچ کھیلنے کی پوری اجازت دی گئی۔

یہ تضاد ایک اتفاق نہیں بلکہ بی جے پی کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ ایک طرف مذہبی عقیدت کو ’’سیکورٹی‘‘ کے نام پر روکا جا رہا ہے،دوسری طرف اربوں روپے کے اشتہارات،نشریات اورسٹے بازی کے کھیل کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان دشمن ہے تو کرکٹ میچ کیسے جائز ہوگیا؟ اگر یاتریوں کی حفاظت کا سوال ہے تو کیا اس کی ذمہ داری ریاست نہیں اٹھا سکتی؟

پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان نے درست کہا کہ کرکٹ اور سیاست انتظار کرسکتی ہیں مگر عقیدت نہیں۔ شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھبیر سنگھ بادل نے بھی امت شاہ سے اپیل کی کہ یاتریوں کو اپنی ذمہ داری پر جانے دیا جائے۔ کانگریس کے ایم ایل اے پرگت سنگھ نے مرکزی حکومت پر دوہرا معیار اپنانے کا الزام لگایا اور کہا کہ مذہبی عقیدت کو قربان کرنا قابل مذمت ہے۔ مگر بی جے پی کے ترجمان آر پی سنگھ نے حسب معمول اس معاملے پر سیاست نہ کرنے کی تلقین کی اور دلیل دی کہ کرکٹ میچ پاکستان میں نہیں بلکہ دبئی میں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف جغرافیہ بدلنے سے تضاد ختم ہو جاتا ہے؟ اگر دبئی میں کھیل ممکن ہے تو کرتارپور میں عقیدت کیوں ناممکن ہے؟

یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ سکھ یاتریوں کی راہیں بند کی گئی ہوں۔ اس سے قبل مہاراجہ رنجیت سنگھ کے یوم شہادت پر بھی جتھہ پاکستان جانے سے روک دیا گیا تھا۔ یہ رویہ نہ صرف نہرو-لیاقت معاہدے کی روح کے منافی ہے جس نے اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی تھی بلکہ 2019 میں کھولے گئے کرتارپور کوریڈور کے مقصد کو بھی پامال کرتا ہے۔ یہ راہداری ویزا فری سہولت کے ساتھ اس امید پر بنائی گئی تھی کہ مذہبی رسومات سیاست سے بلند رہیں گی۔

ادھر حکومت اپنی سہولت کے مطابق قوم پرستی کی نئی تعریفیں گڑھ رہی ہے۔ پاکستانی فنکاروں کو ملک بدر کرنا ہو، فلموں پر پابندی لگانی ہو، یا یوٹیوب اکائونٹس بند کرانے ہوں، تو سارا زور لگایا جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اربوں کی کرکٹ کمائی درمیان میں آتی ہے سارا بیانیہ بدل جاتا ہے اور ’’کھیل کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے‘‘جیسے اصول کاوردشروع ہوجاتاہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خطرہ عقیدے یا سیکورٹی کو نہیں بلکہ بی جے پی کی منافع پرستی اور طاقت کی ہوس کو ہے۔بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ ہندوستان پاکستان میچ سب سے زیادہ نفع بخش تماشہ ہے۔ ایک میچ کے نشریاتی حقوق، اشتہارات اور سٹے بازی سے کھربوں روپے کا کالا دھن جنم لیتا ہے، جو لمحوں میں سوئس بینکوں تک جا پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرکٹ ایسوسی ایشنز کی باگ ڈور ہمیشہ سیاستدانوں یا ان کے وارثوں کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ امت شاہ کا بیٹا جے شاہ بی سی سی آئی سے لے کر آئی سی سی تک سب پر قابض ہے۔

ادھریہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت نے پاکستان کو ’’معاف‘‘ نہیں کیا،بس پوائنٹس ٹیبل کے دبائو میں میچ کھیلنا پڑا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ عوام کے جذبات سے کھیلنے کیلئے اس ڈرامے کو دانستہ رچایا گیا۔ ٹی وی اینکرز چیخ چیخ کر کھلاڑیوں سے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہیں مگر امت شاہ سے یہ نہیں پوچھتے کہ پہلگام حملے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ کیوں کہ اصل سوال کرنے سے اشتہارات کے سودے ختم ہو جائیں گے۔

حکومت کے اس دوہرے معیار نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ مذہب، عقیدت اور اقلیتوں کے جذبات اس کے نزدیک محض سیاسی ہتھیار ہیں۔ حقیقی اہمیت صرف پیسوں اور طاقت کی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف آئینی وعدوں کے منافی ہے بلکہ ایک ایسے ملک میں جہاں کروڑوں لوگ اپنی مذہبی آزادی کو اپنی شناخت کا حصہ سمجھتے ہیں، عوامی جذبات کی سنگین توہین بھی ہے۔ سیاست اور کرکٹ واقعی انتظار کر سکتے ہیں،لیکن عقیدت کو روکنا تاریخ کے سامنے خود کو رسوا کرنے کے مترادف ہے۔یہ فیصلہ صرف سکھ یاتریوں کو کرتارپور سے محروم نہیں کررہاہے بلکہ یہ پیغام دے رہاہے کہ اس ملک میں مذہبی جذبات بھی طاقت اور منافع کے ترازو میں تولے جاتے ہیں۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS